آج جبکہ انسان کو زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔ انواع و اقسام کے لذیذ اور غذائیت سے بھرپور کھانے، سردیوں میں سردی سے بچنے کے لیے گرم لباس اور عمارات کو گرم رکھنے کی سہولیات، سفر میں ٹرینوں، بسوں اور کاروں میں ہیٹر، گرمی کے موسم میں عمارات مکمل ائرکنڈیشنڈ، ٹرین اور کاریں ائر کنڈیشنڈ… اس کے باوجود انسان تھکاوٹ، جسم میں درد، پٹھوں میں درد، خرابیِ صحت کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ کم ہی خوش نصیب لوگ ہیں جو اچھی صحت Enjoy کرنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے جہاں غذا، عمدہ غذا، متوازن غذا اور سہولیات درکار ہیں، وہاں صحت و تندرستی کے لیے غذا کو ہضم کرنے اور جزوِبدن بنانے کے لیے ورزش بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں عمر رسیدہ لوگ ہی نہیں بلکہ عالمِ شباب میں نوجوان مرد و خواتین یکساں طور پر پنڈلیوں کے درد، پٹھوں کے درد، اعصابی تنائو اور بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں۔ صحتِ عامہ کے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ ورزش انسان کو صحت مند رکھنے اور زندگی سے بھرپور لطف اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔
یورپ میں لوگ جب اپنے دفتر، فیکٹری، یا دیگر مشاغلِ روزگار سے فارغ ہوکر گھر آتے ہیں تو خواتین و مرد سائیکل لے کر ورزش کی غرض سے گھروں سے نکل جاتے ہیں اور عموماً ایسی سڑکوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں چڑھائی ہو، سائیکل چلاتے ہوئے انہیں سارے جسم کا زور لگانا پڑے، اُنہیں پسینہ آئے۔ کچھ لوگ سوئمنگ پول کا رُخ کرتے ہیں اور پیراکی سے ورزش کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ کچھ کھلے پارکوں میں دوڑ کر جوگنگ کرکے دن بھر کی تھکاوٹ کو دور کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ورزش کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ چین جہاں سیکڑوں فیکٹریاں ہیں، کسان اور مزدور کام کرتے ہیں، وہاں فیکٹریوں کے اندر ہی کھلے پارک بنائے گئے ہیں، ہر دو تین گھنٹے کے بعد تمام لوگ اپنے کام کو چھوڑ کر ان کھلے میدانوں میں آتے ہیں اور اچھل کود کرکے سارے جسم کو حرکت دے کر پندرہ بیس منٹ کی ورزش کے بعد اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کام کرنے والے مرد و خواتین تندرست، توانا اور چاق چوبند رہتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں ائرکنڈیشنڈ عمارات میں رہنے اور گاڑیوں میں گھنٹوں سفر کرنے کی وجہ سے وہاں کام کرنے والے لوگ چونکہ مناسب وقت اور وقفے سے ورزش نہیں کرسکتے، لہٰذا جوڑوں کے درد خصوصاً گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ رہائشیں تنگ ہیں، بڑے شہروں میں چھوٹے مکانات ہیں جن میں صحن نہیں، دھوپ نہیں لگتی، وہاں ورزش کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم گھریلو کھیل مثلاً ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، باسکٹ بال، اور کچھ نہ بھی ہو تو خواتین اپنے بستر پر لیٹ کر کمر، پیٹ، ٹانگوں کی حرکت اور دیگر ہلکی ورزش کرکے خود کو بیماری سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
مفید ترین ورزش کھلی فضا کی ورزش ہے۔ ہمارے دیہات میں بجلی، سڑک، ٹیلی فون، گیس پہنچنے کی وجہ سے اب بڑے شہروں کی آبادی کی طرف رُخ کرنے کے بجائے دیہات میں کھلی آرام دہ رہائشیں تعمیر ہورہی ہیں۔ ان گھروں کے اندر کھلے گرائونڈ اور ورزش کے امکانات موجود ہیں۔ باپردہ خواتین کے لیے بھی ورزش کے مواقع مہیا ہیں۔ صبح دم تازہ آکسیجن لینے اور سورج کی پہلی کرنوں سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔
ورزش کے اوقات: ورزش میں اس کے اوقات کا بھی گہرا دخل ہے۔ موسم سرما میں کمزور بوڑھے، اور نازک مزاج خواتین صبح دم ورزش کے بجائے سورج کے غروب ہونے سے پہلے ورزش کریں تو زیادہ مفید ہے۔ موسم گرما میں طلوعِ آفتاب سے پہلے صبح کی تازہ ہوا میں ورزش زیادہ مفید ہے۔ ورزش میں انسان کی عمر، مزاج، صحت اور موسم کے حالات کا گہرا دخل ہے۔ آرام دہ زندگی گزارنے والوں کے لیے بہت زیادہ مشقت والی ورزش نقصان دہ ہوتی ہے۔ دل کے مریض اور موٹاپے کا شکار لوگ زیادہ تھکا دینے اور سانس پھولنے والی ورزش سے اجتناب کریں۔ ایسے لوگوں کے لیے جن کا کولیسٹرول بڑھ چکا ہو، دل کا عارضہ ہو، بلڈ پریشر فوری تیز ہوجاتا ہو، ہلکی ورزش اور پیدل چل لینا ہی کافی ہے۔ بعض حالات میں تیز چلنا جس سے پسینہ آجائے، مفید ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کو تازہ اور سبز گھاس جس پر اوس پڑی ہو، ننگے پائوں سیر کا موقع میسر آجائے تو دماغی طراوت، بینائی کی بحالی اور تحفظ کے لیے بے حد مفید ہے۔ اسی طرح صحرائی یا دریائی علاقے میں ٹھنڈی ریت پر ننگے پائوں چلنا بہت سے دماغی اور آنکھوں کے امراض کا خاتمہ کرتا ہے۔ موسم سرما میں جب پچھلے پہر سورج غروب ہورہا ہو اور فضا میں سورج کی کرنیں حدت بکھیر رہی ہوں، گندم کی فصل، یا سرسبزو شاداب کھیتوں میں پیدل چلنا بہترین ورزش، آنکھوں اور پھیپھڑوں کی صحت کا سامان ہے۔
دفتر میں کام کرنے والے خواتین و حضرات دفتر میں بیٹھے بیٹھے اپنی کرسی پر چند منٹ سر کو پیچھے جھکا کر، بازو اور گردن کو حرکت دے کر نئی توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے بلدیاتی ادارے معمولی توجہ اور کم خرچ سے ایسے پارک تعمیر کرسکتے ہیں جہاں محدود وسائل سے ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، باسکٹ بال، دوڑنے کے لیے روشیں تعمیر ہوسکتی ہیں۔ اب لوگوں میں آمدنی کی غرض سے سوئمنگ پول بنانے کا بھی رواج بڑھ رہا ہے جو مکمل بدنی ورزش کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔
ورزش کے رجحان کو پروان چڑھا کر ہم بغیر ادویہ کے صحت کو بحال، اور ایسے امراض کا… جو آج سوہانِ روح ہیں مثلاً موٹاپا، بلڈپریشر، شوگر، ذہنی تنائو… بغیر کسی خرچ کے علاج کرسکتے ہیں۔ ورزش کرنے والے افراد کے خون کی گردش متوازن رہتی ہے، تازہ آکسیجن سے پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں، دائمی نزلہ زکام، سر درد اور قبض سے نجات ملتی ہے۔ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ورزش کی اہمیت کو اجاگر کرکے خود اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے صحت کا سامان کرسکتے ہیں۔
ہمارے ہاں درجنوں امراض کاہلی، سستی اور آرام طلبی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں، معمولی ورزش سے ہم اس خرابی کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر دفاتر، تعلیمی اداروں، فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کے لیے ورزش کے مواقع فراہم کرکے، مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کو ورزش کے لیے پارک، باغات اور دیگر سہولیات کی فراہمی کا ہدف دے کر ہم ورزش کے ذریعے بیماریوں سے نجات اور صحت کی بحالی کے انتظامات کرسکتے ہیں۔ ہمارا نعرہ ہو کہ ’’ورزش سے ہم بیماریوں کا مقابلہ کریں گے‘‘ تو ہم صحت کے میدان میں انقلاب لاسکتے ہیں۔