فرسا اور آسا

علامہ اقبال کی حمد کا بہت مشہور مصرع ہے:

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

طالب علمی کے زمانے میں یہ ’بے ہمتا‘ سمجھ میں نہیں آتا تھا، بلکہ نئی اردو کے مطابق سمجھ نہیں لگتی تھی یا سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو بے ہمتا کا مطلب معلوم نہ ہو، اور ہمارے مخاطب ہم جیسے ہی ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ ’بے‘ فارسی میں نفی کا حرف ہے اور ’با‘ کی ضد ہے۔ مثلاً بے اختیار اور بااختیار۔ ’بے‘ کے سابقے کے ساتھ بے شمار الفاظ اردو میں عام ہیں۔ ’بے ہمتا‘ بھی فارسی ہے جس کا مطلب ہے ’’بے مثال، بے نظیر، جس کا کوئی ثانی نہ ہو‘‘۔
اسی طرح ایک لفظ ’فرسا‘ بھی اردو، خاص طور پر شاعری میں عام استعمال میں ہے، جیسے ’روح فرسا‘۔ نظام امینی کا شعر ہے:

روح فرسا ہے میری تنہائی
بعد میرے مرا زمانہ ہے

ہم سمیت کئی لوگ ’فرسا‘ کا مفہوم سمجھتے ہوئے استعمال کرلیتے ہیں، لیکن یہ ’فرسا‘ کیا ہے؟ لگتا تویہ بھی فارسی ہے اور شاید اس کا مصدر فرسودن ہے۔ فرسا مرکبات میں مستعمل ہے جیسے جاں فرسا، روح فرسا… یعنی جان یا روح کو صدمہ پہنچانے والا۔ جہاں تک ’فرسودہ‘ کا تعلق ہے تو اس کا مطلب ہے گِھسا ہوا، مستعمل، گیا گزرا، کہنہ… جیسے فرسودہ خیال، فرسودہ حال، خستہ حال وغیرہ۔
فرسا کے وزن پر ایک اور لفظ ’آسا‘ ہے۔ فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے مثل، مانند۔ آتشؔ کا شعر ہے:

حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا سے جدائی کا

حیدرآباد دکن کے ایک شاعر امجد حیدرآبادی کا شعر ہے:

شرر آسا ترقی سوزِ غم میں جل کے حاصل کی
برنگ دانۂ باروت ہستی ہے مرے دل کی

شاید پہلے بارود کو ’باروت‘ کہا جاتا ہویا یہ دکن تک محدود ہو۔ بہت سے الفاظ کا املا تو بدلا ہے۔ سنسکرت میں ’آسا‘ (مونث) امیدوارکو کہتے ہیں، آس رکھنے والا، بھروسا وغیرہ۔ ایک مقولہ ہے ’’آسا جیے، نراسا مرے‘‘۔ یعنی امیدوار امیدکے آسرے پر جیتا ہے اور مایوس مرتا ہے۔ نراسا، آسا کی ضد ہے۔ آس، نراس اردو میں بھی مل جاتے ہیں۔ سنسکرت کا ’س‘ ہندی میں ’ش‘ بن جاتا ہے، چنانچہ نراس، نراش ہوگیا ہے۔ ایک پرانی ہندی فلم کا گانا ہے ’’اُس نراس کے دو رنگوں سے دنیا تُو نے سجائی‘‘۔ آشا، نراشا یہی امید و ناامیدی ہیں۔
ماہنامہ ’البلاغ‘ جامعہ دارالعلوم کا ترجمان ہے اور بڑا معتبر دینی رسالہ ہے۔ اس میں سب ہی تحریریں جید علماء کرام کی ہوتی ہیں، نگران اور مدیران بھی سب علماء کے سر کا تاج ہیں، تاہم ماہ جون 2019ء کے شمارے میںکچھ نمایاں غلطیاں ہیں جن سے ذمے داروںکی عدم توجہ ظاہر ہورہی ہے۔ مثلاً صفحہ 55 پر کویت کے مولانا بدرالحسن القاسمی کا مضمون شائع ہوا ہے جس کی سرخی ہے ’’موجِ خوں جو سر سے گزر گیا‘‘۔ یہی سرخی آٹھ صفحات پر دہرائی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے مولانا بدرالحسن کا تعلق ایسے خطے سے ہو جہاں ’موج‘ مذکر ہو۔ لیکن مدیرانِ البلاغ اسے درست کرلیتے۔ علماء کرام سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ’موج‘ عربی کا لفظ اور مونث ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مضمون لکھنے والے نے ’خون‘ کو بنیاد بناکر موج کو مذکر کردیا۔ اگر ’گزر گئی‘ لکھتے تو بھی وزن نہ بگڑتا، لیکن اب تو زبان بگڑ گئی۔
’موج‘ پانی کی لہر کے علاوہ کنایتہً ولولہ، طبیعت کی امنگ، خیال، دھن کو بھی کہتے ہیں۔ موج آنا، طبیعت میں ولولہ پیدا کرنا۔ امیرؔ کا شعرہے:

جو فکرِ شعر کی موج آگئی صحرائے وحشت میں
گیا جی ڈوب، ڈوبے اس قدر دریائے فکرت میں

خیال آجانا، دھن بندھنا وغیرہ۔ امیرؔہی کا ایک اور شعر ہے:

نئی چشم ساقی کو موج آ گئی
مری عمر کا جام چھلکا گئی

اخبارات میں تو ایسی غلطیاں عام ہیں لیکن ایک مؤقر دینی رسالے میں نہیں ہونی چاہییں۔ طالب علم اس کو سند بنا لیں گے۔
البلاغ میںکہیں تو ’طلبا‘ لکھا گیا ہے اورکہیں ’طلبہ‘۔ اخباروں میں بھی یہی کچھ چل رہا ہے۔ کوئی ایک املا طے کرلیں، ہم بھی اسے سند مان لیں گے۔ صفحہ 21 پر عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی مرحوم کے مضمون کی سرخی میں ’’طلبہ سے خطاب‘‘ ہے، لیکن اسی مضمون میں ’طلبا‘ ہے۔ ویسے لغت کے مطابق طلبہ طالب کی جمع، طالب علم، شاگرد۔ اس جگہ طلبا، بروزن امراء غلط ہے، کیونکہ وہ جمع طلیب کی ہے۔ طلیب کا مطلب ہے بہت ڈھونڈنے والا۔ یہ عربی کا لفظ ہے، چنانچہ علماء کرام ہی فیصلہ دے سکتے ہیں۔ ویسے عربی میں طالب کی جمع طلاب ہے جو طلبہ کے لیے مستعمل ہے، تاہم اردو میں طلاب عام نہیں ہے۔ نمبر کی جمع ’نمبرات‘ غلط تو نہیں لیکن صرف ’نمبر‘ اور بطور جمع ’نمبروں‘ سے کام چل سکتا ہے۔ ویسے تو نمبر انگریزی کا لفظ ہے اور مرزا غالب نے اس کی اردو ’لمبر‘ بنائی ہے۔ ایسے ہی ایک جگہ ’’ہمہ جہت ترقیات‘‘ ہے۔ یہاں بھی صرف ’ترقی‘ سے کام چل سکتا ہے، جب کہ ’ہمہ جہت‘ بھی آگیا ہے۔ اب تو ادارہ ترقیات بھی کے ڈی اے ہوگیا ہے۔ ناکام کے لیے ’راسب‘ ہمارے محدود علم میں اضافہ ہے، لیکن اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ادنیٰ درجے میں کامیاب ہونے والوں کے لیے ’’مقبول‘‘ کی اصطلاح بھی اچھی ہے۔
شروع میں ’روح فرسا‘ پر نظام امینی کا شعر دیا گیا تھا۔ دوسرا شعر محسن بھوپالی کا ہے کہ:

شجر سے پتے یونہی تو گرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے

ایک ماہرِ فن نے دونوں شعروں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا ایک شعر بنا لیا:

ہم ایسے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
ہمارے بعد ہمارا زمانہ آتا ہے

یہ بھی ایک فنکاری ہے، ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔ محاورہ تو یہ ہے ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ لیکن شاعر موصوف نے اینٹ روڑا جمع نہیں کیے بلکہ دو بہت اچھے شعروں پر کاریگری کرتے ہوئے تیسرا شعر بنا لیا، بہت اچھے۔ ویسے بھان متی مداری کو کہتے ہیں۔ بطور مزاح کچھ لوگوں نے دو الگ الگ مصرعوں کو لے کر نیا شعر بنایا ہے لیکن تفنن طبع کے لیے، مثلاً یہ شعر:

تُو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا

ایسے ہی غالب کے دو مصرعے:

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں

آپ بھی ایسی چولیں بٹھا سکتے ہیں، لیکن دونوں مصرعے ہم وزن ہونے چاہییں۔ ویسے تو اب شاعری کیا، نثر بھی بے وزن ہوگئی ہے، سامنے کی مثال ہے میری۔ یاد آیا کہ ایک لفظ ’ترسا‘ بھی ہے جس کا تعلق ترسنے سے نہیں۔ اس کے بارے میں پھر سہی۔