خطے کی سیاست میں نئے امکانات

روس پسِ پردہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت کے لیے کوشاں ہے

کیا پاکستان داخلی، خارجی اور بالخصوص علاقائی سیاست میں اپنے لیے استحکام پیدا کرسکے گا؟ کیونکہ آج پاکستان کی سیاست کا مجموعی تناظر دیکھیں تو اس میں داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے کہ یہاں یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ ہمیں خود کو علاقائی سیاست میں مستحکم کرنا ہے،کیونکہ پاکستان کے داخلی، سیاسی، معاشی استحکام، خودمختاری اور سلامتی کے لیے داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ خارجی اور بالخصوص علاقائی سیاسی استحکام کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بقول اگر پاکستان کو اپنی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تو اسے خطے کی سیاست میں اپنا کردار بڑھانا ہوگا۔ پہلی بار کسی آرمی چیف نے خطے کی سیاست کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا ہے۔ ذاتی طور میں اس نکتے کا ہمیشہ سے حامی رہا ہوں کہ اگر ہم نے خارجہ پالیسی میں خطے کی سیاست کو نظرانداز کیا تو خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابی کا امکان محدود رہے گا۔ ہماری موجودہ سیاسی اور بالخصوص فوجی قیادت کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ ہمیں خطے کی سیاست میں ایک نئے بیانیے کی طرف پیش رفت کرنی ہے جو خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی قابلِ قبول ہو۔ یہاں فوجی قیادت کی بھی تعریف کرنا ہوگی کہ وہ خطے کی سیاست میں ابھرنے والے امکانات پر نظر بھی رکھے ہوئے ہے اور اس کو اپنے لیے مواقع کی سیاست بھی سمجھ رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی بھارت اور افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو باہمی اشتراک اور تعاون سے مل کر کام کرنے کی جو پیش کش کی تھی وہ قابلِ تعریف عمل تھا۔ بھارت کے بارے میں یہ کہنا کہ اگر وہ مفاہمت کی جانب ایک قدم آگے چلے گا تو ہم دو قدم آگے چلیں گے۔ اسی طرح بار بار بھارت کو مفاہمت کی دعوت دینا، اور شنگھائی کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے جس دلیری کے ساتھ تمام ملکوں کو باہمی تجارت، سیاست، سماجیات، معیشت، انتہا پسندی، دہشت گردی، غربت کے خاتمے کے سلسلے میں آپس میں تعاون پر زور دیا اسے بہت سے ممالک نے پذیرائی دی۔ اسی طرح یہ تاثر کہ پاک بھارت تعلقات میں فوج ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس کی بھی اب ہر سطح پر عملی نفی کی جارہی ہے، اور خود فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ کرتار پور راہداری اور بھارتی پائلٹ کی رہائی کے معاملے میں بھی ان کا کردار مثبت رہا۔ خود بھارت میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں پاکستان کے بارے میں اپنی روایتی پالیسی کے مقابلے میں کچھ نیا کرکے دکھانا ہوگا۔
اسی طرح افغانستان کے بحران میں پاکستان کا حالیہ کردار خاصا جاندار ہے۔ پہلی بار پاکستان کا کردار معاونت فراہم کرنے والے کا ہے ،جو اپنے مفادات سے زیادہ افغانستان کے داخلی استحکام کا حامی ہے۔ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان داخلی طور پر مستحکم ہوگا تو اس کا براہِ راست مثبت اثر پاکستان کی داخلی سیاست پر بھی ہوگا۔ مستحکم افغانستان پاکستان سمیت پورے خطے کی سیاست کے لیے اہم ہے۔ یہ پہلو نظر میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان جو پہلے ہی بھارت کے ساتھ کشیدگی کے ماحول میں ہے، دوطرفہ بات چیت کا عمل بند ہے اور بداعتمادی کی فضا ہے، ایسے میں پاکستان کسی بھی صورت افغان بحران کا حامی نہیں،کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایک ہی وقت میں خطے کے بہت سے ممالک بشمول افغانستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا براہِ راست اثر پاکستان میں عدم استحکام کی صورت میں سامنے آئے گا جو ہمارے لیے نئی مشکلات بھی پیدا کرے گا۔
اگر واقعی افغان حکومت اور افغان طالبان کے امریکہ سے مذاکرات کے عمل میں کوئی بہتری آتی ہے تو اس کا کریڈٹ پاکستان کو جائے گا اور پہلی بار ہم اس مسئلے کے حل میں کسی ایک گروپ کی حمایت کرنے کے بجائے تمام فریقین کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہماری حیثیت غیر جانب دارانہ ہے۔ یعنی مخلص اور سہولت کار کا کردار، جس کا اعتراف امریکہ سمیت کئی اہم ممالک کرتے ہیں۔ پاکستان نے اپنی غیر جانب دارانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے خود براہِ راست طالبان سے بھی مذاکرات نہیں کیے، صرف میز سجائی ہے کہ فریقین مل جل کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اس پالیسی سے بھی ہم نے دست برداری اختیار کی ہے کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہونی چاہیے۔ اب بظاہر پالیسی یہ لگتی ہے کہ جس کی بھی حکومت ہو، ہم اُس سے تعاون جاری رکھیں گے۔ یہ ایک درست حکمت عملی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان کی طالبان سے اگر ملاقات ہوئی تو وہ بھی افغان صدر کی خواہش پر ہوگی۔ کیونکہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ طالبان کا سخت گیر رویہ جو افغان حکومت کے بارے میں ہے، اس میں کچھ نرمی آئے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے دورۂ پاکستان کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے،کیونکہ عملی طور پر وزیراعظم نے ایران کا دورہ کرکے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ ہم سعودی عرب کے اتحادی اور ایران کے خلاف ہیں۔ ایران نے بھی عملاً پاکستان کے حالیہ کردار کو سراہا ہے۔ شنگھائی کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان اور روس کے صدر پیوٹن کے درمیان دوستانہ تعلقات اور مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ خطے کی سیاست میں پاکستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ روس کی بھی کوشش ہے کہ وہ پاکستان اور بھار ت کے درمیان مفاہمت کا راستہ نکالے۔ ایک خبر آئی تھی کہ روس کی جانب سے ستمبر میں وزیراعظم عمران خان کو اکنامک فورم میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو ایک اچھی خبر ہے، اور امکان ہے کہ نریندر مودی جو خود بھی اس فورم میں شریک ہوں گے، اُن کی عمران خان سے ملاقات ہو۔ لگتا ہے کہ روس پسِ پردہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں ایک پُل کا کردار ادا کررہا ہے۔ اسی طرح امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کی پاکستان کو نظرانداز کرکے افغان بحران کے حل کی کوشش بے سود ہوگی۔
اگرچہ خطے کی سیاست میں بھارت کا بڑا کردار ہے۔ اگر بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کسی مثبت پیش رفت کا آغاز نہیں کرتا، اور جو تعطل ہے اسے نہیں توڑتا تو خطے کی سیاست میں عدم استحکام بدستور رہے گا، کیونکہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا عمل پاکستان سمیت خطے کے لیے اہم ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا جو جوابی خط وزیراعظم عمران خان کے نام پر آیا ہے وہ کافی امید افزا ہے، اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ بہت جلد تعلقات میں جو تعطل ہے وہ ٹوٹے گا۔ کیونکہ اگر بھارت کو واقعی سی پیک سے فائدہ اٹھانا ہے تو اُسے اس شراکت داری کے معاشی حصے میں نہ صرف شریک ہونا ہوگا بلکہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر بھی بنانا ہوگا، اور اس کا نتیجہ پاک افغان تعلقات کی بہتری بھی ہوگا۔
اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نئے علاقائی اتحادی بھی تلاش کررہا ہے، اور روس سمیت دیگر ریاستوں کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بہتری کا عمل یقینی طور پر ہمارے لیے نئے راستے کھولے گا۔ آج کی دنیا میں جو سیاسی تنازعات ہیں اُن کا خاتمہ بہت ضروری ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب علاقے کے ممالک ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں، اور محض ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے بجائے تعاون کے امکانات کو آگے بڑھائیں۔ کیونکہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور تنازعات سمیت سیکورٹی ریاستوں کے ماڈل کو چیلنج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کا بیانیہ سیاسی، سماجی اورمعاشی ترقی سے جڑا ہو۔ یہ بیانیہ ایک دوسرے کے لیے خطرات یا مشکلات پیدا کرنے، خوف اور دبائو کی سیاست پیدا کرنے کے بجائے عملی تعاون کے امکانات کو پیدا کرنے سے جڑ ا ہونا چاہیے۔
اس لحاظ سے پاکستان کا قومی بیانیہ علاقائی سیاست کے تناظر میں بڑا واضح ہونا چاہیے۔ یہ بیانیہ مقامی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام، علاقائی ترقی اور تعاون کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم بداعتمادی سے نکل کر اعتماد کے ماحول میں آگے بڑھیں گے۔ اگر پاکستان واقعی افغان بحران کے حل میں کامیاب ہوگیا تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ امریکہ نہ صرف ہمارے کردار کو تسلیم کرے گا بلکہ بھارت پر بھی دبائو بڑھائے گا کہ وہ پاکستان سے بہتر تعلقات استوار کرے۔ علاقائی ممالک کے سربراہان کو سمجھنا ہوگا کہ اب مسئلے طاقت کے استعمال یا جنگوں سے حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت خطے کی سیاست کا بیانیہ خطے میں موجود سیاسی، سماجی، معاشی پس ماندگی اور جہالت، یا امیر اورغریب میں بڑھتی ہوئی خلیج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے اگر علاقائی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی سیاست کرنے کے بجائے دوستانہ ماحول کو فروغ دیں۔ بھارت کو بڑا چودھری بننے کے بجائے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا جو سب کو ساتھ لے کر چلے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف خطے کے ممالک کے درمیان مکالمہ ہو، تو دوسری طرف اہلِ علم، دانشوروں، صحافیوں، استادوں، شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں اور فن کاروں کے باہمی تبادلے بھی اعتماد کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جو علاقائی سیاست کا استحکام چاہتی ہے اوراس میں بہت آگے تک جانے کی خواہش مند ہے اس سے یقینی طو رپر خطے کے ممالک اوربالخصوص بھارت، افغانستان، ایران سمیت دیگر ملکوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔