حکومتی فیصلوں نے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور پاکستان کو ایک درآمدی معیشت میں تبدیل کردیا ہے
تاریخی طور پر پاکستان 1982ء سے قبل امریکی نظام کا حصہ نہیں تھا۔ 1972ء میں ایک امریکی ڈالر پاکستان کے 4 روپے کے مساوی تھا، جبکہ ایک پاکستانی روپے کی قیمت 21 امریکی سینٹ تھی، پاکستان میں یہ نظام 1982ء تک قائم رہا۔ اس حوالے سے اہم ترین فیصلہ غلام اسحاق خان نے کیا اور جنوری 1982ء میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے بجائے فری فلوٹ کی جانب گامزن کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب افغان جنگ جاری تھی اور بڑی تعداد میں ڈالر پاکستانی معیشت میں آرہے تھے، جس کی وجہ سے روپے کی شرح مبادلہ کو فلوٹنگ کرنے کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا جاسکا۔ اس فیصلے کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت پر ڈالر کی چھاپ گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہے، لیکن شور اب زیادہ ہورہا ہے کہ اب گھر گھر میں فیس بک استعمال ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے جواب نہ دینے کی وجہ سے ملک کے پسماندہ ترین یا دوردراز علاقوں میں رہائش پذیر عام پاکستانی بھی بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ جب پریسلر ترمیم آئی تو ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے 1992ء میں اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے معاشی اصلاحات کا ایجنڈا دیا، جس میں ڈالر کی اندرون ملک آمد پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی گئیں، اور اس کے دوسال بعد 1994ء میں ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ایک انرجی پالیسی دی جس میں سرمایہ کاروں کے لیے بجلی کے نرخ پاکستانی روپے کے بجائے امریکی سکوں (cents) میں طے کیے گئے۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ تھا، اور پاکستان کو بڑے پیمانے پر مفت ڈالر مل رہے تھے جس کا اعتراف پرویزمشرف نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ شوکت عزیز نے اُس دور میں جو سب سے اہم فیصلے کیے ان سے پاکستان کی معیشت عالمی مارکیٹ کے اُتار چڑھاؤ پر منتقل ہوگئی اور ڈالر کی پاکستانی معیشت میں اہمیت مزید بڑھ گئی۔ شوکت عزیز کے دور میں پاکستان میں موجود کموڈٹیز کو عالمی مارکیٹ سے منسلک کردیا گیا تھا، جس میں اجناس، معدنیات اور دیگر اشیاء شامل تھیں۔ اجناس میں گندم اور چاول کی قیمت کو بھی عالمی منڈی سے منسلک کردیا گیا۔ عام آدمی پر ڈالر کے اثرات کی بات محض یہاں آکر ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہر پاکستانی کے باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اجناس بھی درآمدی ہوتی ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود 5 ارب ڈالر سے زائد کی چائے، مسالہ جات، خوردنی تیل، چینی اور دالیں وغیرہ جیسی مختلف غذائی اجناس درآمد کرتا ہے۔ اب آپ بس، ریل یا کسی اور سواری پر سفر کریں، یا پھر گھر میں بیٹھے سوئی گیس پر کھانا پکائیں یہ سمجھ لیں کہ ایندھن کی جگہ ڈالر ہی جل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پائی جانے والی معدنیات اور توانائی کے وسائل کو بھی ڈالر سے منسلک کردیا گیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور ہر چیز کی اصل مالیت جانچنے کے لیے روپے کے بجائے ڈالر کی نظر سے دیکھنا شروع کردیا گیا۔ ملکی مارکیٹ میں اصل خرابی بھی یہیں سے شروع ہوئی۔ نیپرا نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی سے متعلق تین سال قبل ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ پشاور، سکھر، حیدرآباد اور کوئٹہ کی بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی ناقص کارکردگی کی وجوہات میں امن و امان اور سیاسی فیکٹر کا بھی عمل دخل ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار پر بھی نیپرا نے سوالات اٹھائے کہ تقسیم کار کمپنیوں کو مالی سال 18-2017ء میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے دوران 45 ارب روپے کا نقصان کیسے ہوا؟ نیپرا کے مطابق لائن لاسز میں کمی کے اہداف کو آئیسکو کے سوا کسی کمپنی نے پورا نہ کیا، 18-2017ء میں پیسکو کے بجلی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات 38 فیصد سے زیادہ رہے، جبکہ نیپرا نے پیسکو کو ان نقصانات کی مد میں زیادہ سے زیادہ 27.62 فیصد کی اجازت دی تھی۔ نیپرا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18-2017ء میں کے الیکٹرک سمیت دیگر کمپنیوں میں بجلی کی شکایات کے ازالے کا عمل سست روی کا شکار رہا، جبکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں مالی سال میں صارفین سے بلوں کی مد میں 78 ارب روپے وصول کرنے میں ناکام رہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی بجلی کی پیداوار ڈالر سے منسلک ہوچکی تھی، پھر سپلائی چین کو بھی ڈالر سے منسلک کردیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان سے نکلنے والی گیس اور خام تیل کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں سے ایندھن کی خریداری کے لیے مقرر کردہ ویل ہیڈ پرائس (Well Head Price) کو بھی پاکستانی روپے سے ڈالر پر منتقل کردیا گیا۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں ملک میں گیس کی قلت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود مقامی سطح پر دستیاب گیس کو بھی ڈالر سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ گیس کی قیمت کے تعین کو بھی خام تیل کی عالمی قیمت سے جوڑ دیا گیا۔ ان فیصلوں کے باعث پاکستان بتدریج درآمدی معیشت میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد سے پاکستان کو کوئی بھی لائسنس جاری کرنا ہو، چاہے وہ تیل و گیس کی تلاش کا ہو یا ٹیلی کام کا… ہر ایک کے لیے قیمت کا تعین ڈالر میں کیا جاتا ہے اور ڈالر ہی میں رقوم وصول کی جاتی ہیں، حتیٰ کہ اسلام آباد میں عالمی کاروباری کمپنیوں اور بلیک واٹر کے لیے حاصل کیے جانے والے گھروں کے کرائے بھی ڈالروں میں وصول کیے جانے لگے۔
ملکی معیشت کے حوالے سے حکومتِ پاکستان نے اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے، ڈالر کی اہمیت کا اندازہ اس رپورٹ کا جائزہ لینے پر ہوجاتا ہے جس میں لفظ ڈالر 38 مرتبہ، جبکہ ڈالر کا نشان ’’$‘‘ 300 سے زائد بار استعمال کیا گیا ہے۔ اس سروے میں بھی ملک میں ہونے والی مہنگائی کی ذمہ داری ڈالر کی مہنگی قیمت پر ڈالی گئی ہے۔ اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2018ء میں روپے کی قدر میں 4.4 فیصد کمی ہوئی تھی۔ روپے کی قدر میں کمی سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
معاشی ترقی کا اندازہ ملک کی فی کس آمدنی سے لگایا جاتا ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی کو روپے کے بجائے ڈالر میں انڈیکس کیا جاتا ہے۔ سال 18-2017ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی 1652 ڈالر تھی جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں کم ہوکر 1479 ڈالر رہ گئی ہے۔ اس طرح فی کس آمدنی میں 155 ڈالر کی کمی دیکھی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے کم سے کم اجرت 17000 روپے مقرر کی تھی جسے بعد میں بڑھاکر 17500 روپے کردیا گیا ہے۔ اگر ڈالر کی زبان میں جائزہ لیا جائے تو پہلے ایک محنت کش کو اگر ماہانہ 142 ڈالر ملتے تھے تو اب روپے کی گراوٹ سے یہ رقم 104 ڈالر رہ گئی ہے۔ یعنی صرف روپے کی قدر میں کمی سے ایک محنت کش کی ماہانہ آمدنی میں 38 ڈالر کی کمی ہوگئی ہے۔