نواز لیگ ماضی میں اپنے کردار کی کیا وضاحت پیش کرے گی؟
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی دخترِ نیک اختر اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے اپنے چچا میاں شہبازشریف جو پارٹی کے صدر بھی ہیں، سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے سینئر پارٹی رہنمائوں کو دائیں بائیں بٹھاکر پریس کانفرنس میں جو دھماکا خیز آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کی اُس نے بلاشبہ سیاست کے سمندر میں خاصا تلاطم برپا کررکھا ہے، اور ملکی اداروں خاص طور پر عدلیہ کے وقار پر سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کے دعوے کے مطابق اُن کے والد نوازشریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک نے اپنے ایک دوست ناصر بٹ سے گفتگو میں یہ اعتراف کیا کہ میں نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ظلم کیا ہے، ان کے خلاف الزامات کے ثبوت سامنے نہیں آئے، میں نے فیصلہ کیا نہیں بلکہ مجھ سے دبائو کے تحت یہ فیصلہ کرایا گیا جس پر میں بہت پریشان ہوں اور مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔ محترمہ مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ ان کی پیش کردہ ویڈیو سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے جس کے بعد نوازشریف کو قید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں، اس لیے انہیں فوری باعزت بری کیا جانا چاہیے۔ مریم نواز نے مزید بتایا کہ خود ان کو بھی خطرہ ہے، مگر وہ اپنے والد کی خاطر کسی بھی چیز کی پروا کیے بغیر گزشتہ ستّر برس سے ملک کی تاریخ میں جاری عمل کو روکیں گی۔
مریم نواز کی اس پریس کانفرنس کے فوری بعد وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے ایک جج نہیں پوری عدلیہ پر حملہ کیا ہے، اُن کی پیش کردہ ویڈیو ریکارڈنگ جعل سازی کا شاہکار اور غیر قانونی ہے جس کے ذریعے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، ورنہ اگر اس ویڈیو میں کچھ جان ہوتی تو اسے ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کرنے کے بجائے عدالت میں پیش کرکے اپنی بے گناہی ثابت کی جاتی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ویڈیو میں استعمال ہونے والے کردار ناصر بٹ کے بارے میں بھی پردہ کشائی کی کہ یہ میاں نوازشریف کا قریبی دوست اور کاروباری ساتھی ہے اور پولیس ریکارڈ کے مطابق عادی مجرم ہے… جو غنڈہ گینگ کا سربراہ اور پانچ قتل کرنے کے بعد فرار ہوکر بیس سال تک لندن میں مقیم رہا۔ وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات نے ویڈیو ریکارڈنگ کا فرانزک تجزیہ کروا کر حقائق بے نقاب کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم، پنجاب کے وزیر اطلاعات سید صمصام بخاری اور متعدد دیگر وفاقی و صوبائی وزراء نے بھی اس معاملے میں لب کشائی کرتے ہوئے مریم نواز کی اس پریس کانفرنس کو عدلیہ پر حملہ، بہتان تراشی اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا، جب کہ نیب عدالت کے جج کی صفائی دیتے ہوئے انہیں صاف ستھری شخصیت کا مالک اور ذمہ دار جج قرار دیا۔
مریم نواز کی اس پریس کانفرنس میں موضوعِ بحث بننے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اتوار کے روز چھٹی کے باوجود عدالت جاکر رجسٹرار کے ذریعے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں وضاحت کی گئی کہ ’’ویڈیوز میں مختلف موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ناصر بٹ اور اس کا بھائی عبداللہ بٹ عرصۂ دراز سے مجھ سے بے شمار بار ملتے رہے ہیں۔ میری ذات اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش کی گئی۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں مریم نوازشریف کی جانب سے جو ویڈیو دکھائی گئی وہ جھوٹی اور جعلی ہے، مجھ پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے میری ذات، ادارے اور خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش کی گئی ہے، میں حقائق منظرعام پر لانا چاہتا ہوں، کہ نون لیگ کی جانب سے مجھے بار بار رشوت کی پیشکش کی گئی اور تعاون نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں، لیکن میں نے کوئی دبائو قبول نہیں کیا، حق و سچ اور قانون کے مطابق کیسز کے فیصلے سنائے۔ اگر دبائو یا رشوت کے لالچ میں فیصلہ سنانا ہوتا تو ایک مقدمے میں سزا اور دوسرے میں بری نہ کرتا۔ ویڈیو حقائق کے برعکس ہے، اور اس میں کی گئی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس حوالے سے ضروری ہے کہ سچ کو سامنے لایا جائے، میں نے انصاف کرتے ہوئے نوازشریف کو العزیزیہ میں سزا سنائی، مجھ پر بطور جج بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی دبائو نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سراسر بے بنیاد ہیں۔ میں نے اپنی جان اور مال کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔‘‘
وزیراعظم عمران خان نے پیر کے روز اسلام آباد میں حکومتی ترجمانوں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جہاں انہیں حکومت کی سیاسی، معاشی اور قومی پالیسیوں کا مؤثر دفاع کرنے کی ہدایت کی، وہیں مریم نواز کی پیش کردہ ویڈیو ریکارڈنگ کے متعلق یہ مؤقف اختیار کیا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس کا خود نوٹس لینا چاہیے۔ ہم ملکی وقار اور قومی اداروں پر حملوں کو برداشت کریں گے اور نہ ان اداروں کو متنازع بنانے کی کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان میں عدلیہ اور جج مکمل آزاد ہیں اور حکومت کو جواب دہ نہیں۔ ویڈیو لیک کرکے نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم اس معاملے میں اگر کچھ اقدامات کریں گے تو اپوزیشن اس پر اعتراضات اٹھائے گی، اس لیے ہم معاملہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں، وہ خود اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرائے، عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت اس میں ہر طرح کی سہولت فراہم کرے گی… وزیراعظم نے یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھا کہ اپوزیشن جو ہتھکنڈے چاہے استعمال کرے، قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب بہرصورت جاری رہے گا۔
ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس طرح کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا معاملہ پہلی بار سامنے نہیں آیا، پہلے بھی اس قسم کی ریکارڈنگ منظرعام پر آتی رہی ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں نون لیگ کے دورِ اقتدار میں جب سیف الرحمن احتساب کمیشن کے چیئرمین تھے تو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سخت سزا دلوانے کے لیے جناب شہبازشریف کی اُس وقت کے عدالتِ عالیہ لاہور کے جج ملک محمد قیوم کو ٹیلی فون کی ریکارڈنگ اُس وقت کے ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جناب رحمن ملک پرویزمشرف کے دور میں منظرعام پر لائے، جس کے انعام کے طور پر پیپلز پارٹی نے انہیں اپنے بعد کے دورِ اقتدار میں اہم وزارت سے نوازا۔ بہرحال اس آڈیو ٹیپ کی وجہ سے بے نظیر اور زرداری کی سزائیں کالعدم قرار پائیں اور جسٹس ملک محمد قیوم کو اپنے منصب سے استعفیٰ دینا پڑا، یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں جناب زرداری کے دورِ صدارت میں انہی ملک محمد قیوم صاحب کو اٹارنی جنرل کا اہم منصب سونپا گیا… اور ملک صاحب نے سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر اپنی ماضی کی کوتاہی کا بھرپور طریقے سے ازالہ کردیا۔ چند ہفتے پیشتر موجودہ چیئرمین نیب کی ایک خاتون سے ’’خوشگوار‘‘ گفتگو کی ایک ٹیپ کا بھی خاصا چرچا رہا، مگر اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہی کسی نے محسوس نہیں کی۔
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے اختتام پر منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بجا طور پر چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ جسٹس ارشد ملک کی سامنے آنے والی ویڈیو پر ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ آزاد عدلیہ ریاست کا ایک ستون ہے۔ عوام غربت اور مہنگائی تو برداشت کرسکتے ہیں مگر ناانصافی اور عدلیہ کی ناکامی برداشت نہیں کرسکتے، یہ ویڈیو پورے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت ریاستی اداروں کو متنازع بنارہی ہے۔ حکمران بغیر سوچے بولتے ہیں پھر یوٹرن لیتے ہیں، اور آخرکار اداروں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
متنازع ٹیپ کو سامنے آئے چار دن گزر جانے کے بعد یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ منگل کے روز قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعلیٰ جسٹس آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، تاہم اتنی بات ضرور سامنے آئی ہے کہ چالیس منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں مبینہ ویڈیو ریکارڈنگ کا معاملہ زیر غور رہا۔ اللہ کرے یہ دونوں منصفینِ اعلیٰ کسی ایسے فیصلے پر پہنچے ہوں جس کے نتیجے میں خود اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ایسے ٹھوس اقدامات سامنے آئیں جن کے نتیجے میں عدلیہ کے ادارے کی عزت اور وقار ہی بحال نہ ہو بلکہ ان کے ذریعے ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دی جائے کہ آئندہ کسی کو عدلیہ کے کردار پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہو، اور لوگ جب بھی عدلیہ کا نام لیں، عزت اور احترام سے لیں۔ کسی کو یہاں کسی قسم کے دبائو، رشوت یا لالچ کے در آنے کی توقع ہو نہ شکایت، اور لوگ جب اس محترم ادارے سے رجوع کریں تو انہیں سو فیصد یقین ہو کہ انہیں یہاں سے عدل اور انصاف ملے گا، اور عدل کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔