رانا ثناء اللہ کی گرفتاری

وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفوں سے نمٹنے کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس میں وہ کامیاب ہوں گے؟

رانا ثناء اللہ کو گرفتار تو ہونا ہی تھا، کیوں کہ اس کا اعلان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے بہت پہلے کیا تھا، اور کہا تھا کہ ’’رانا ثناء اللہ یاد رکھنا، میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوںگا‘‘۔ مگر اس کا اندازہ رانا ثناء اللہ کو تو کیا، اُن کے شدید ترین سیاسی اور ذاتی مخالفوں کو بھی نہیں ہوگا کہ انہیں ایسے الزام میں گرفتار کیا جائے گا جس میں سزائے موت یا عمرقید سے کم کی کوئی سزا ہی نہیں ہے، اور نہ ہی ضمانت ہونے کا کوئی امکان ہوگا۔
وزیراعظم نے اب تو اس طرح کے الزامات میں گرفتار ہونے والے ارکانِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کا فیصلہ بھی اپنی کابینہ سے کرا لیا ہے، جس کے بعد جیل میں انہیں وہ سہولتیں بھی اب نہیں ملیں گی جن کی رکنِ پارلیمنٹ ہونے کی بنا پر قانون انہیں اجازت دیتا ہے۔ رانا ثناء اللہ پر بنایا جانے والا مقدمہ اعلیٰ عدالتوں میں ثابت ہوجائے گا؟ اس پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں۔ لیکن جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں اُن کو بھی جھول نظر آرہا ہے جو نہ تو مسلم لیگ(ن) کے طرف دار ہیں اور نہ ہی رانا ثناء اللہ کے۔ اس حوالے سے متعلقہ وزیر اور دیگر وزرائے کرام اور وزیراعظم کے میڈیا منیجرز جو کچھ فرما رہے ہیں وہ مزید اس مقدمے کے سقم واضح کررہا ہے اور ماضی میں بننے والے اس طرح کے مقدمات کی یاد تازہ کرا رہا ہے۔
کوئی ہفتہ بھر پہلے وفاقی وزیر ریلوے جناب شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ ’’نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، کل سے عمران خان کی سیاست ہوگی۔‘‘
اور ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی کی بنی گالہ میں وزیراعظم سے ملاقات کی خبر ریلیز کر ادی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا ارشاد ہے کہ ’’ضمیر کی آواز پر مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ کر وزیراعظم کی قیادت پر ایمان لانے والوں کی تعداد تین درجن سے زائد ہوجائے گی۔‘‘ جناب فواد چودھری کا ارشاد ہے کہ وزیراعظم نے ابھی سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ وہ جب حکم کریں گے 48 گھنٹے میں وہاں تبدیلی آجائے گی، سندھ کے گورنر جناب عمران اسماعیل اس کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے دوسرے ہی دن رانا ثناء اللہ 21 کلو منشیات، جس میں 15 کلو ہیروئن بتائی گئی ہے، کے الزام میں دھر لیے گئے۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس طرح کے الزامات میں حزبِ اختلافات کے مزید کتنے رہنمائوں کو گرفتار کراکے اپنی سیاست اور حکومت کی دھاک بٹھائیں گے، اور اپنے تئیں دنیا میں پاکستان کا وقار بلند کریں گے اور قومی معیشت کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ ان سے پہلے بھی اسی طرح کے ’’نسخے‘‘ آزمائے جاتے رہے ہیں، جن کے منفی نتائج یہ ملک اور قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
وطنِ عزیز میں 1958ء سے آج تک اس طرح کے ’’نسخے‘‘ آزمائے جارہے ہیں۔ اس سے مریض شفایاب ہوا، نہ ہی کرپشن اور بدعنوانی ختم ہوئی، اور نہ قومی معیشت مضبوط ہوئی۔ پاکستان میں اس کا آغاز 1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لا میں ہوا تھا جو ملک میں پہلی فوجی اور سول ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹ کی حکومت تھی۔ اُس نے یہ ’’نسخہ‘‘ اس طرح آزمایا تھا کہ 1947ء سے اکتوبر 1958ء تک اقتدار میں رہنے والے بیشتر سیاست دانوں کو ’’راہِ راست‘‘ پر لانے کے لیے ’’ایبڈو‘‘ کا قانون نافذ کرکے انہیں ’’جبری‘‘ طور پر دس سال کے لیے سیاست سے بے دخل کردیا تھا، حالانکہ وہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود کرپشن، بدعنوانی، میرٹ کو نظرانداز کرکے من پسند افراد کو سرکاری نوکریاں دینے، قومی خزانے اور قومی وسائل کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کے الزامات میں بھی ملوث نہیں تھے۔ (یہاں یہ ذکر غیر ضروری نہیں ہوگا کہ 1947ء سے 1958ء تک اقتدار میں کسی ایک سیاست دان پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا)
1958ء میں ’’ایبڈو‘‘ کے تحت جنہیں دس سال کے لیے نااہل کیا گیا تھا اُن پر صرف صوابدیدی اختیارات کے غلط استعمال اور قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ جب کہ صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر1958ء سے لے کر وزیراعظم عمران خان کی حکومت تک ایک بھی حکمران ایسا نہیںہے جو ان الزامات سے بچ پایا ہو۔ اس لیے ’’وقت کے فیصلہ سازوں‘‘ کے لیے لازم ہے کہ وہ نہایت سنجیدگی اور خود احتسابی کے ساتھ اس اندازِ حکمرانی کے مضمرات کا جائزہ لیں۔ وطنِ عزیز آج جن خارجی اور داخلی مشکلات میں چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے، اس اندازِ حکمرانی سے اس سے نکلنا ناممکن ہے۔ ایسے ہی کسی موقع پر (انگریزی اور اردو صحافت کے نہایت معتبر اور بڑے نام، دانشور، ادیب، ایڈیٹر، کالم نگار) میجر ابن الحسن (مرحوم) نے کہا تھا کہ ’’مسیحائی کے خبط میں مبتلا کوئی شخص خواہ اس کی کوئی شناخت ہو، وہ اس قوم کو ترقی اور خوش حالی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکتا۔ یہ قوم اپنی منزل بانیِ پاکستان قائداعظم کو رول ماڈل بنا کر ہی حاصل کرسکتی ہے۔ قائداعظم نے یہ ملک کسی لشکرکشی کے ذریعے حاصل نہیں کیا تھا، بلکہ سیاسی جدوجہد اور سیاسی عمل کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ اس ملک کی ساری سیاسی جماعتیں جو اس ملک کے آئین کی چھتری تلے اس کی پارلیمنٹ کے طے کردہ قواعدو ضوابط کے مطابق اپنے پروگرام کو لے کر چلتی ہوں، ان کے اندازِ فکر سے مجھے اختلاف کا حق ہے اور میں کرتا ہوں، مگر ان کے وجود کو ملک کے سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر سمجھتا ہوں۔ اس کا استحکام بھی آئین کی بالادستی اور سیاسی کلچرکے فروغ میں مضمر ہے۔‘‘
ہمیں وزیراعظم کی نیت کا حال اُس علیم و خبیر پر چھوڑ دینا چاہیے جس کے سوا کوئی دوسرا نیتوں کے بھید نہیں جانتا۔ اس لیے ہمیں ان کی نیت کونہیں، ان کے اقدام کو زیر بحث لانا چاہیے۔ وزیراعظم جس راہ پر دوڑ رہے ہیں تاریخ شاہد ہے اس راہ پر چلنے والے حکمران نے اپنی راہ خود کھوٹی کی ہے اور ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
وزیراعظم کی اپنی بقا پارلیمنٹ کو آئین کے مطابق چلانے، اسے مضبوط بنانے اور حزبِ اختلاف کے وجود کو برداشت کرکے اس سیاسی کلچر کو فروغ دینے میں ہے جسے اپناکر دوسرے ترقی پذیر ممالک نے اپنی اپنی قوم کے لیے ترقی کی منزل کی طرف پیش قدمی کی۔ وزیراعظم اپنی موجودہ روش کو (جس سے غیر جانب دار حلقوں کو بھی انتقام کی بُو آتی ہے) ترک کرکے اس راہ پر چلنے کا فیصلہ کریں جس پر چل کر دنیا کے مہذب ترقی یافتہ جمہوری ممالک نے ترقی کی ہے۔ جس میں بلا امتیاز احتساب کا نظام خودبخود قائم ہوجاتا ہے، جس کی زد میں آنے سے کوئی بدعنوان، قومی خزانے اور قومی وسائل کی لوٹ مار اور بندر بانٹ میں ملوث فرد بچ نہیں پاتا خواہ اُس نے اپنے چہرے پر نقاب سیاست کا چڑھایا ہوا ہو، یا کسی بیورو کریٹ یا پراپرٹی ٹائیکون کا، یا تاجر اور صنعت کار کا۔ اس کے لیے وزیراعظم کو لوٹا کریسی سے اجتناب کرنا ہوگا۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج وزیراعظم کے دائیں بائیں وہی لوگ ہیں جو کل اُن کے دائیں بائیں تھے جن کو وہ آج کولہو میں پسوانے کے لیے بے چین ہیں۔ حزبِ اختلاف اس کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے، اس سے قطع نظر بنیادی سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفوں سے نمٹنے کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس میں وہ کامیاب ہوں گے؟ تاریخ کا جواب نفی میں ہے۔
محشر بدایونی (مرحوم) نے کہا تھا:

سب کو کر کے رخصت پھر یہ نہ ہو کہ میں خود سے پوچھوں
حال تو میرا اچھا ہے، مزاج تو میرا اچھا ہے