آج اس دن کی مناسبت سے نہ یوم سیاہ منایا گیا اور نہ یوم نجات
۔5 جولائی اِس سال بھی آئی اور اسی طرح گزر گئی جس طرح یہ گزشتہ 42 سال سے گزر رہی ہے۔ اگرچہ یہ ملکی تاریخ کا ایک اہم دن ہے کہ اس روز چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا۔ بھٹو مخالف گرینڈ سیاسی اتحاد پی این اے نے تو اُسی دن سے اسے یوم نجات کے طور پر منانا شروع کردیا تھا، جبکہ پیپلز پارٹی نے بعد میں اسے یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ اِس سال بھی پیپلز پارٹی نے 5 جولائی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا، جبکہ ضیاء الحق فائونڈیشن کے سربراہ اور ضیاء الحق کے بیٹے اعجازالحق نے ایک بیان میں کہا کہ پوری قوم 5 جولائی کو یوم نجات کے طور پر منائے گی۔ لیکن حقیقت میں یہ دن نہ تو یوم نجات کے طور پر منایا گیا اور نہ ہی یوم سیاہ کے طور پر۔ پیپلز پارٹی 1977ء کے بعد جب بھی اسے موقع ملتا اس دن اپنا غبار نکالتی اور یوم سیاہ کے طور پر مناتی۔ مگر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ پہلے کم اور اب مکمل طور پر ختم ہوتا جارہا ہے۔ اِس بار پورے ملک میں اس حوالے سے پیپلز پارٹی نے کوئی پروگرام نہیں کیا۔ سندھ جہاں اس پارٹی کی حکومت ہے اور جو ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی صوبہ ہے، وہاں بھی کوئی تقریب نہیں ہوسکی، حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی اپنے بُرے دنوں میں بھی صوبہ سندھ میں ایک طاقت سمجھی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب وہ سیاسی جماعتیں جو مارچ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو حکومت کی دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں، اور ملک کی 9 سیاسی جماعتیں جو بھٹو حکومت کی زیرنگرانی کسی قسم کے شفاف انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دے رہی تھیں، جو ملک کے تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی جڑ ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی حکومت کو قرار دے رہی تھیں، جو پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک فسطائی حکومت اور اُس کے وزیراعظم کو ایک فسطائیت پسند سیاست دان قرار دے رہی تھیں، جنہوں نے انہی نعروں کی بنیاد پر پوری قوم کو سڑکوں پر نکالا تھا، اور جنہوں نے 5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لا نافذ ہونے پر سکون کا سانس لیا تھا اور شکر کا کلمہ ادا کیا تھا، جنہوں نے اس خوشی میں کئی دن تک ملک کے طول و عرض میں حلوے کی دیگیں پکا کر عوام میں تقسیم کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا، اور جو اسی جذبے کے تحت ضیاء حکومت میں شامل ہوئی تھیں اور کئی سال تک 5 جولائی کو یوم نجات کے طور پر مناتی رہی تھیں، اب اس معاملے پر کوئی بیان دینے اور اس موضوع پر کسی قسم کی گفتگو کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی یہ دن نہیں منایا۔ رہ گئی ضیاء الحق شہید فائونڈیشن، تو وہ شاید اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ کوئی یوم سیاہ منا سکے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف جو ضیاء الحق کا لگایا ہوا پودا تھے، اور انہیں ضیاء الحق کا سیاسی جانشین قرار دیا جاتا تھا، وہ اور اُن کی جماعت مسلم لیگ (ن) جو ضیاء الحق ہی کی آشیرباد اور حمایت سے ایک بڑی جماعت بنی اور بار بار اقتدار میں آتی رہی، لیکن آج نوازشریف اور اُن کی جماعت بھی 5 جولائی کو بطور یوم نجات منانے کے لیے تیار ہے اور نہ ضیاء الحق کا نام اپنی زبان پر لاتی ہے۔ حالانکہ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ضیاء الحق کو ملک کی سادہ اور خاموش اکثریت کی حمایت اور دعائیں حاصل تھیں۔ اس خاموش اکثریت نے اپنا سارا وزن نوازشریف کے پلڑے میں ڈال کر انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچادیا، لیکن اب یہ سیاسی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو تو بطور عدالتی قتل قبول کرچکی ہے، لیکن وہ ضیاء الحق کے لیے کوئی کلمۂ خیر اپنی زبان پر لانے کو تیار نہیں، کہ اُس کے خیال میں اس سے اُس کو کوئی سیاسی فائدہ تو نہیں ہوسکتا البتہ اس سیاسی تنازعے میں اُسے کچھ نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔ اس پارٹی کا یہ بھی خیال ہے کہ ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں جو سیاسی و انتظامی فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا وہ اٹھالیا گیا، اور اُن کے بعد اُن کے نام سے کوئی سیاسی مفاد حاصل کیا جاسکتا تھا وہ بھی حاصل کرلیا گیا۔ اب اس جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے! چنانچہ اب مسلم لیگ (ن) نہ صرف ضیاء الحق کی کوئی برسی یا 5 جولائی کو یوم نجات نہیں مناتی بلکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے ضیاء الحق کو کبھی کبھار فوجی آمر کے نام سے بھی یاد کرلیتی ہے۔ دوسرے وہ اس معاملے میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو، بلکہ اب آصف زرداری اور بلاول کے لیے کوئی ایسا جملہ استعمال کرنے سے گریزاں ہیں جو پیپلز پارٹی کو ناگوار گزرے۔ حالانکہ وہ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف سخت ترین مؤقف پر ڈٹی رہی ہے۔ 1988ء میں نوازشریف جو اُس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے، انہوں نے وزیراعظم بے نظیر کو نہ صرف قبول نہیں کیا تھا بلکہ انہیں ٹف ٹائم بھی دیا تھا، جس کے بارے میں پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ وہ ایسا اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے کررہے تھے۔ اسی طرح ماضیِ قریب میں وزیراعلیٰ شہبازشریف اُس وقت کے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑنے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ بہرحال اِس بار ضیاء الحق فائونڈیشن، قومی اتحاد میں شامل نو جماعتوں، پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں اور صدر ضیاء الحق کے ماضی کے مراعات یافتہ سیاسی گروپوں میں سے کسی نے بھی 5 جولائی کو یوم نجات نہیں منایا۔ پیپلز پارٹی نے ایسا کرنے کا دعویٰ کیا لیکن یہ بھی محض دعویٰ تھا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے اُس دن (5جولائی 2019ء) پشاور میں کارکنوں سے خطاب کیا اور پشاور پریس کلب میں میٹ دی پریس پروگرام میں شرکت کی۔ دونوں جگہوں پر انہوں نے اس حوالے سے صرف ایک جملہ کہا کہ آج وہ سیاہ دن ہے جب ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا۔ انہوں نے پریس کلب میں ہی کچھ دیر بعد یہ کہا کہ پیپلز پارٹی نے ضیاء الحق اور پرویزمشرف کی آمریت کا مقابلہ کیا، اور اگر پھر کوئی آمر آیا تو ملک بھر کے تمام پریس کلب ہمارے شانہ بشانہ ہوں گے۔ یہ تھا بلاول کا یوم سیاہ۔
سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وہاں حکومتِ سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے ایک بیان جاری کرکے پوری پارٹی کا قرض اُتار دیا۔ اُن کا بیان تھا کہ آج کے دن 1977ء میں ضیاء الحق نے ملک کے منتخب وزیراعظم کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا۔ انہوں نے منتخب حکومت کے الفاظ شامل کرکے بلاول سے ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ حالانکہ مارچ 1977ء کے انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی جو حکومت بنی تھی اُسے قوم کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ 9 جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد نے اس الیکشن کو بدترین دھاندلی اور اس حکومت کو غیر قانونی اور غیر منتخب حکومت قرار دیا تھا۔ اس اتحاد کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 37 ارکان نے احتجاجاً قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا، اور پورے قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کی پولنگ کے صرف تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اتنا مؤثر بائیکاٹ کیا تھا کہ اُس روز پولنگ اسٹیشنوں پر ہُو کا عالم تھا۔ ملک بھر میں اس دھاندلی زدہ حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک چل رہی تھی۔ جلسے اور جلوسوں پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 9 اپریل کو پنجاب اسمبلی کی حلف برداری کے موقع پر جہاں خود ذوالفقار علی بھٹو موجود تھے، لاہور میں خواتین اور مردوں کے جلوسوں پر بے تحاشا فائرنگ کرکے درجنوں افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ کراچی، لاہور، حیدر آباد اور دیگر شہروں میں پُرزور احتجاج جاری تھا۔ چار شہروں میں جزوی مارشل لا لگایا گیا تھا۔ خود پیپلز پارٹی کے چار منتخب ارکان نے الیکشن میں دھاندلی اور حکومتی جبر کے خلاف قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔ پنجاب کے وزیراطلاعات بیرسٹر اعتزاز احسن بھی اس ظلم کے خلاف مستعفی ہوچکے تھے۔ بھٹو حکومت مذاکرات کی کوششیں کررہی تھی۔ چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا مودودی سے بھی ملاقات کی۔ لیکن پی این اے کا اصرار تھا کہ پہلے یہ تسلیم کیا جائے کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے اُس کے بعد ہی مذاکرات شروع ہوسکتے تھے۔ چنانچہ حکومت اور حکمران جماعت کی جانب سے یہ مطالبہ تسلیم کیے جانے کے بعد ہی حکومت اور پی این اے کے تین تین رکنی وفود کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ گویا ایسی حکومت جو خود انتخابات میں دھاندلی کو تسلیم کرچکی ہو، وہ جائز اور منتخب حکومت نہیں ہوسکتی۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی منظم اور بدترین دھاندلی کے الزامات لگے تھے، کیا یہ حکومت جائز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک سیاسی جماعتوں نے یہ الزامات لگائے اور اب تک لگارہی ہیں، مگر نہ تو انہوں نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی، نہ اپوزیشن کے منتخب ارکان نے حلف اٹھانے سے انکار کیا، اور نہ ہی کسی حکومتی رکن نے اس پر استعفیٰ دیا۔ بلکہ اپوزیشن کارِ حکومت چلانے میں تعاون کرتی رہی ہے۔
بہرحال اسے سیاسی بدنصیبی ہی کہا جاسکتا ہے کہ صرف 42 سال بعد نہ تو پیپلز پارٹی یوم سیاہ منارہی ہے کہ اُسے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی ضرورت ہے، اور نہ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں یوم نجات منانے کو تیار ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں، اور شاید اُن کے خیال میں اس طرح کے عمل سے اُن کی عو امی مقبولیت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔