مارک مینسن…ترجمہ وتلخیص: ناصر فاروق
انیسویں صدی میں، سوشیالوجی کے بانی اور سماجی علوم کے ابتدائی ماہر ایمیل ڈُرخیم(1) نے اپنی ایک کتاب میں چند سوالات اٹھائے: کیا ہو اگر دنیا میں کوئی جُرم نہ ہو؟ کیا ہو اگر ایک ایسا معاشرہ وجود میں آجائے جہاں سب کا احترام کیا جائے، سب کے حقوق یکساں ہوں، اور کوئی بھی تشدد پسند نہ ہو؟ جہاں کوئی جھوٹ نہ بولے، کوئی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے؟ کیا ہو اگر یہاں بدعنوانی نہ ہو؟ پھر کیا ہوگا؟ کیا تنازعات ختم ہوجائیں گے؟ پریشانی اوراعصابی تناؤ نہ رہے گا؟ نہیں! ڈرخیم کہتا ہے ’’نہیں!‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، بلکہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی۔ بڑے بڑے تنازعات سے محروم لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل اور الجھنوں کی رائی کو پہاڑ بنادیں گے۔ علمِ نفسیات کہتا ہے کہ بھرپور تحفظ بھی لوگوں میں خوشی یا احساسِ تحفظ پیدا نہیں کرتا، بلکہ وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
اس کا کیا مطلب ہوا؟ کسی بھی مسئلے پر ہمارا جذباتی ردعمل مسئلے کی نوعیت یا ہیئت طے نہیں کرتا۔ یہ ہمارا دماغ ہے جو مسئلے کی سنگینی متعین کرتا ہے۔ مادی ترقی اور تحفظ ہمارے لیے مستقبل کی امید مستحکم نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ظاہر یہ ہوتا ہے کہ بھرپور آزمائش اور مسابقت کی عدم موجودگی جدوجہد اور مہم جوئی کی شدید خواہش پیدا کردیتی ہے۔ یہ زیادہ خودغرضانہ اور بچکانہ صورت بھی اختیار کرلیتی ہے۔ یہ صورت حال ہر خوبی سے محروم بھی کردیتی ہے۔ تمام تر مادی آسودگی کے باوجود بھی یہ سب ایک دوسرے پرچیخنے چلاّنے لگتے ہیں۔
درد کی رفتار سے سفر:حال ہی میں آئن اسٹائن کا ایک قول انٹرنیٹ پرپڑھا کہ ’’ایک انسان کو اُس چیز کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے جو ہے، نہ کہ وہ جو ہونی چاہیے‘‘۔ یہ بہت عمدہ بات تھی۔ اس قول کے ساتھ ہی آئن اسٹائن کی ایک سائنسی تصویر بھی لگی تھی۔ میں تھوڑی دیر اس قول پرسر دھنتا رہا۔ مگر یہاں ایک مسئلہ درپیش ہوا۔ یہ قول آئن اسٹائن کا نہیں تھا۔ یہاں ایک اور قول آئن اسٹائن سے منسوب ملتا ہے جو بڑی کثرت سے گردش کرتا ہے کہ ’’ہر فرد ذہین ہے، لیکن اگر تم اس یقین کے ساتھ زندگی گزارو کہ مچھلی درخت پر چڑھ سکتی ہے، تو پھر یہ ساری زندگی ایک حماقت ہی کہلائے گی‘‘۔ یہ بھی آئن اسٹائن نے نہیں کہا۔ اور یہ کہ ’’میں اُس دن سے ڈرتا ہوں جب ٹیکنالوجی انسانوں سے آگے نکل جائے گی، اور دنیا میں صرف احمقوں کی نسل باقی رہ جائے گی‘‘۔ نہیں، یہ بھی آئن اسٹائن نے نہیں کہا۔ آئن اسٹائن انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ غلط طور پر استعمال کی جانے والی شخصیت ہے۔ شاید ہم اُس کے ذریعے خود کو اُتنا ذہین اور چالاک ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جتنے حقیقت میں ہم ہیں نہیں۔ یقیناً آئن اسٹائن قبر میں تڑپتا ہوگا۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن ایک نالائق شاگرد تھا۔ یہ بالکل لغو بات ہے۔ وہ کم عمری سے ہی ریاضی اور سائنس میں بہت ماہر تھا۔ بارہویں سال کے موسم گرما میں اُس نے الجبرا اور جیومیٹری پر خاصی دسترس حاصل کرلی تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں ہی ایمانویل کانٹ کی کتاب Critique of Pure Reason پڑھ لی تھی (جسے آج کل گریجویٹ کے طلبہ بھی بمشکل پڑھ پاتے ہیں)۔ تجربی طبیعات میں آئن اسٹائن نے اُس وقت پی ایچ ڈی کی، جب لوگ پہلی نوکری ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔
ابتدائی زندگی میں البرٹ آئن اسٹائن کے کوئی بڑے عزائم نہ تھے۔ وہ صرف پڑھانا چاہتا تھا۔ مگر نوجوانی میں بطور تارکِ وطن جرمن اُسے سوئٹزرلینڈ کی جامعات میں جگہ نہ ملی۔ اس دوران ایک دوست کے والد کی مدد سے اُسے ایک سائنسی تجربہ گاہ میں نوکری مل گئی۔ یہ کام اس کی اہلیت سے بہت فروتر تھا، مگر یہاں بھی اُس کے دماغ میں طبیعات کے کلیات چکر کھاتے رہے۔ 1905ء میں اُس نے پہلی بار تھیوری آف ریلیٹویٹی شائع کی، اس تھیوری نے اسے عالمی شہرت کے افق پر پہنچادیا۔ اُس نے تجربہ گاہ چھوڑدی۔ اب ریاستوں کے سربراہ اور صدور اُسے اپنا بنانا چاہتے تھے۔
اپنی طویل زندگی میں، آئن اسٹائن نے علم طبیعات کو کئی بار انقلابی اکتشاف سے نوازا، امریکہ کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی ضرورت سے آگاہ کیا۔ اُس کی زبان نکال کر کھنچوائی گئی تصویر بہت مشہور ہوئی۔ تاہم آج ہم اُسے ایسے بہت سے اقوال کے سبب پہچانتے ہیں، جو انٹرنیٹ پر گردش کرتے رہتے ہیں، اور وہ دراصل اُس کے نہیں ہیں۔
نیوٹن کے وقت سے طبیعات کا انحصار اس خیال پر تھا کہ ہر شے کی پیمائش کا پیمانہ زمان ومکاں ہے۔ یہ زمان ومکاں (وقت اور خلا) ہی کائناتی قرار کا معیار ٹھیرے۔ یہ ناقابلِ تغیر تھے۔ یہی عام فہم خیال تھا۔ پھر آئن اسٹائن منظر پر ابھرا، اُس نے کہا: ایسا کچھ نہیں ہے! اُس نے کہا: زمان ومکاں کی کیفیت پوری کائنات میں ایک سی نہیں ہے۔ یہ ہمارے مشاہدے کے سیاق و سباق میں مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر میں جسے دس سیکنڈ سمجھ رہا ہوں، وہ تمہارے نزدیک پانچ سیکنڈ ہوسکتے ہیں، اور جہاں مجھے فاصلہ ایک میل کا لگ رہا ہے، وہ تمہارے لیے چند فٹ کا ہوسکتا ہے۔ اُس کی یہ بات طبیعات کی دنیا میں دیوانے کی بڑ سے کم نہ تھی۔ آئن اسٹائن نے کہا: صرف روشنی کی رفتار ہے جس سے ہرکائناتی شے کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ ہم سب ہر وقت حرکت میں ہیں۔ جوں جوں ہماری رفتار روشنی سے قریب ہورہی ہے، زمان و مکاں گھٹتے جارہے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ انسان روشنی کی رفتار سے خلا میں جائے، اس دوران زمین پر بیس برس گزر جائیں، اور جب وہ زمین پر لوٹے تو اُس کی عمر میں سال بھر سے زیادہ اضافہ نہ ہوا ہو (یہاں واقعہ معراج مبارک کی مثال دی جاتی ہے کہ جب براق پر آسمانوں کا یہ سفرتمام ہوا، تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم پر زمینی زندگی اس قدر تھم چکی تھی کہ بمشکل ہی کچھ وقت گزرا تھا۔ مترجم)۔ آئن اسٹائن کی مثال یہاں اس لیے اہم تھی کہ وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ کائنات میں کس شے کو قرار ہے، ثبات ہے (2)۔ یہاں ریلیٹویٹی تھیوری پر اس لیے گفتگو کی کہ مجھے یقین ہے یہی تھیوری ہماری نفسیات میں بھی کام کررہی ہے، یہاں بھی کسی شے کو قرار نہیں ہے، ہم جس شے کو بھی سچا اور حقیقی خیال کرتے ہیں وہ دراصل ہمارے زاویۂ نظر سے متعلق ہوتی ہے (یعنی انسان خود سچائی اور حقیقت کے تعین کی فطری اہلیت نہیں رکھتا بلکہ ایک ایسے درست اور حقیقی زاویۂ ہدایت کا محتاج ہے جو اُسے کائناتی حقیقت اور سچائی سے وابستہ کرسکے، یعنی وحی۔ مترجم)
ماہرینِ نفسیات نے کبھی بھی ’خوشی‘ کا مطالعہ نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ لوگوں کے ذہنی امراض، پریشانیوں اور جذباتی رویوں کا مطالعہ کیا، اور انہیں تکلیف وآزمائش سے نبرد آزما ہونے میں مدد دی۔ یہ صورت حال 1980ء تک جاری رہی۔ پھر کچھ ماہرین نے خود سے سوال کرنے شروع کیے ’’ایک سیکنڈ توقف کرو! کیا میرے کام کی نوعیت مسائل اور پریشانیوں کا جائزہ لینا ہی ہے؟ وہ کیا شے ہے جو لوگوں کو خوش کرتی ہے؟ آؤ کہ کچھ اس کا مطالعہ کریں!‘‘ اور اس رجحان کا خوب خیرمقدم ہوا۔ ’خوشی‘ پر درجنوں کتابیں شائع ہونے لگیں۔ لاکھوں کروڑوں کاپیاں متوسط طبقے کے پریشان حال لوگوں میں خریدی اور پڑھی جانے لگیں۔ ابتدا میں ماہرینِ نفسیات نے سادہ سا سروے کیا۔ ایک بہت بڑے گروہ کو پیجرز دیے گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ جب بھی پیجر بند ہو، فوراً رُکیں اور دو سوالوں کے جواب لکھ لیں۔ ایک سوال تھا کہ ایک سے دس نمبر کے درمیان کون سا وہ نمبر ہے جو اس لمحے آپ کی خوشی، حالتِ اطمینان کی درست شرح ظاہر کرتا ہے؟ اور یہ کہ آپ کی زندگی پر اس لمحے کیا گزر رہی ہے؟ محققین نے ہزاروں لوگوں کی رائے حاصل کی، جو انتہائی حیران کن اور ناقابلِ یقین حد تک غیر دلچسپ تھی۔ تقریباً ہر فرد نے 7 کا ہندسہ لکھا تھا۔ کوئی جنرل اسٹور سے دودھ خرید رہا تھا، اُس نے 7 لکھا۔ کوئی بیٹے کا بیس بال کھیل دیکھ رہاتھا، اُس نے بھی 7 لکھا۔ جو باس سے بہت بڑی سیل کی کامیابی پر بات کررہا تھا، اُس نے بھی 7 لکھا۔ یہاں تک کہ انتہائی پریشان کن صورت حال سے گزرنے والوں نے بھی 7 لکھا۔ ایسا ہی کچھ انتہائی خوش گوار واقعات کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی بھی ہر وقت مکمل طور پر ناخوش نہیں رہتا، اور نہ ہی ہر کوئی ہر وقت مکمل طور پر خوش رہتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خارجی حالات و واقعات سے قطع نظر، ہمیشہ کامل اطمینان کی کیفیت میں نہیں رہتے۔ ہم سب زندگی بھر 10 کی مثالی صورت حال کا پیچھا کرتے رہتے ہیں ۔
تم خیال کرتے ہو کہ نئی نوکری مل جائے توخوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے، مگر جب نوکری مل جاتی ہے تو تم چند ماہ بعد سوچتے ہو کہ اگر ایک گھر مل جائے تو خوشی کا کیا عالم ہو! جب گھر مل جاتا ہے تو تم مزید کی خواہش میں لگ جاتے ہو، اور یہ سلسلہ کہیں رُکتا نہیں ہے! (3)
ہم میں سے ہر ایک یہ گمان کرتا ہے کہ اُسے قرار حاصل ہے۔ یہ کہ ہم بدلنے والے نہیں ہیں۔ تجربے موسموں کی مانند آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ روز اچھے اور کچھ دن برے ہوتے ہیں۔ آسماں بدلتا ہے مگر ہم نہیں بدلتے۔ مگر یہ سچ نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
تکلیف و آزمائش ہی زندگی کی مستقل سچائی ہیں۔ ان سے فرار ممکن نہیں۔ انسان کی توقعات اور تصورات آزمائشوں کا پیشگی تعین کرلیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ موسم کتنا ہی سہانا کیوں نہ ہو، اگر تمہارے اندر اداسی ہے تو کچھ اچھا نہ لگے گا۔ تم دس کے ہندسے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہو، کولہو کے بیل کی طرح چکر کھاتے رہتے ہو، مگر ہاتھ آتا ہے 7 کا ہندسہ۔ تکلیف و آزمائش ہمیشہ اپنی جگہ رہتی ہیں۔ جو کچھ بدلتا ہے وہ تمہارا زاویۂ نظر اور تصور ہے۔ جیسے جیسے زندگی میں بہتری آتی ہے، تمہاری توقعات منتقل ہونے لگتی ہیں، اور پھر تم دوبارہ حالتِ عدم اطمینان کی جانب چلے جاتے ہو۔
آج سے پہلے تاریخ میں ’خوشی‘ کبھی کوئی اعلیٰ قدر نہ تھی۔ سائنس کے دور سے پہلے تکلیفیں اور آزمائشیں ایک تسلیم شدہ حقیقت تھیں۔ فلسفیوں نے عاجزی اور صبر کو ہی خوبی جانا تھا، کیونکہ خوشی کی خواہش خطرناک سمجھی جاتی تھی۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی آمد پر ہوا کہ ’خوشی‘ کوئی قابلِ قدر شے بن گئی۔ کئی فلسفیوں نے کہا کہ اب خوشی کی تشہیر ہونی چاہیے اور تکلیف میں کمی ہونی چاہیے۔ یہ خیال بہت اچھا لگا۔ کون گدھا ہوگا جو اس خوش کن خیال کو برا کہے! مگر میں ہوں وہ گدھا جو اس خیال کو برا خیال کرتا ہے! کیونکہ تم تکلیف سے نجات حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ یہ انسانی صورت حال کا فطری تقاضا ہے۔ اس لیے تکلیف اور آزمائش سے جان چھڑانے کی کوئی بھی کوشش مزید جان پھنسائے گی، جلائے گی، گھلائے گی۔ ایسی کوئی بھی کوشش صرف تکلیف کے احساس میں اضافہ کرے گی، اور یہ ہلاکت خیز ہوگی۔ ہر جانب بھوت ہی بھوت نظر آئیں گے، ہر طرف ظلم ہی ظلم اور جبر ہی جبر دکھائی دے گا، ہرفرد سے دھوکے اور فریب کا خدشہ رہے گا۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہماری مادی ترقی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اس سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا کہ زندگی کس قدر پُرامن اور آرام دہ ہوچکی ہے۔ تکلیف، آزمائش، اور عدم اطمینان کی یقینی شرح ہمیں سکون کا حتمی سانس نہیں لینے دے گی۔ چنانچہ خوشی کا حتمی حصول ممکن نہیں (دنیا کی زندگی چند روزہ سامانِ زیست ہے، پائیدار خوشی کا سامان صرف آخرت میں ہے۔ القرآن، مترجم)۔ خوشی کی یہ تلاش ہماری (مغربی) تہذیب کی جان لیوا قدر ہے۔ یہ شکست خوردہ اور گمراہ کن ہے۔
زندگی میں واحد انتخاب
سن 1954ء میں، قبضے کے75 اور جنگ کے20 سال بعد، ویت نامیوں نے فرانسیسیوں کو اپنے ملک سے لات مارکر نکال دیا۔ یہ بلاشبہ ایک اچھی بات ہونی چاہیے تھی۔ مگرمسئلہ یہ تھا کہ اب سرد جنگ شروع ہوچکی تھی۔ ایک عالمی مذہبی جنگ… جو سرمایہ داروں، لبرل مغربی قوتوں، اورکمیونسٹ مشرقی بلاک کے مابین تھی۔ ہوچی مینھ، جس نے فرانسیسیوں کو لات مار کر نکالا تھا، وہ کمیونسٹ تھا۔ اس صورت حال سے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوا۔ سوئٹزلینڈ میں ایک میز کے گرد چند ریاستوں کے سربراہان سر جوڑ کربیٹھے، وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ نیوکلیئر تباہ کاری سے گریز کیا جائے، اور ویت نام کو آپس میں بانٹ لیا جائے۔ کیوں ایک ریاست کو، جس نے کسی کا کچھ نہ بگاڑا تھا، تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا؟ مجھ سے نہ پوچھو! مگر واضح طور پر اس ملاقات میں شریک ہر فرد نے فیصلہ کیا کہ شمالی ویت نام کمیونسٹ ہوگا، اور جنوبی ویت نام سرمایہ داروں کا ہوگا۔ اس فیصلے کے بعد یہ سب ہنسی خوشی روانہ ہوگئے۔
مگر یہاں بھی ایک مسئلہ تھا۔ مغربی طاقتوں نے جس آدمی کو استعمال کیا، اُس کا نام نگوڈین ڈیم تھا۔ اسے عام انتخابات کے انعقاد تک جنوبی ویت نام کا انچارج بنایا گیا۔ شروع میں سب ہی ڈیم کے پُرجوش حامی تھے۔ وہ ایک پُرجوش کیتھولک، فرانسیسی تعلیم یافتہ، اٹلی میں کئی سال زندگی گزارنے والا، اور کئی زبانوں کا ماہر تھا۔ ڈیم سے ملاقات پر امریکہ کے نائب صدر لنڈن جانسن نے اُسے جنوبی ایشیا کا ونسٹن چرچل قرار دیا۔ اُسے عملاً اپنا سیاسی حلیف پکارا۔ ڈیم پُرجوش اور پُرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ اُس نے دعویٰ کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں لبرل جمہوریت سے انقلاب لے آئے گا۔ سب نے اُس کی بات پر یقین کیا۔
مگر حقیقت مختلف نکلی۔ سال بھر میں ڈیم نے اپنی پارٹی کے سوا ہر سیاسی جماعت پر پابندی لگادی۔ جب ریفرنڈم کا وقت آیا تو اُس نے اپنے بھائی کو تمام الیکٹورل سائٹس کا منیجنگ ڈائریکٹر بنادیا۔ اور تم یقین نہیں کروگے! مگر ڈیم انتخابات جیت گیا۔ اُس نے 98.2 فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ واضح ہوا کہ نگوڈیم ایک گھٹیا آمر تھا۔ اسی طرح شمالی ویت نام کا حکمران ہوچی مینھ بھی بدمعاش نکلا تھا۔ میں نے اس باب میں کالج میں جو کچھ سیکھا تھا، وہ یہ تھا کہ اگر دو ایسے حکمران پڑوس میں موجود ہوں تو جیو اسٹریٹجی میں اسے لاکھوں لوگوں کی تباہی سمجھا جاتا ہے۔ یہی ہوا۔ ویت نام ایک خونیں خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا۔ یہاں ڈیم کے بارے میں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اُس نے اپنی انتظامیہ میں پورا خاندان بھردیا تھا، اور کرپٹ لوگوں کی یہاں بھرمار تھی۔ یہ سب عیاشیوں میں پڑے تھے، جبکہ ریاست کے بڑے حصے میں لوگ قحط سے مررہے تھے۔ ڈیم اس قدر نااہل تھا کہ امریکہ کو بتدریج دخل اندازی کرنی پڑی، ورنہ جنوبی ویت نام تباہ ہوجاتا۔ امریکہ اس مداخلت کو ویت نام جنگ پکارتا ہے۔
باوجود اس کے کہ ڈیم ایک ظالم حکمران تھا، امریکہ اپنے اتحادی کے ساتھ کھڑا رہا۔ بہرحال، وہ ان میں سے ہی ایک تھا: لبرل سرمایہ دار مذہب کا آلہ کار۔ سرمایہ دار بلاک کو یہ سمجھنے میں کئی سال اور بے شمار اموات سے گزرنا پڑا کہ ڈیم کو سرمایہ دار مذہب سے زیادہ اپنے مفادات عزیز تھے۔ دیگر آمروں کی طرح ڈیم کا پسندیدہ کام مخالفین کو مروانا تھا۔ اس معاملے میں، بطور کٹرکیتھولک عیسائی، ڈیم بدھ مت سے نفرت کرتا تھا۔ جب کہ مسئلہ یہ تھا کہ اُس وقت اسّی فیصد جنوبی ویت نام بدھ مت کا پیروکار تھا۔ ڈیم نے بدھ مت کے پرچموں اور بینرز پر پابندی لگادی۔ بدھ مت کے تہواروں پر قدغن لگادی۔ بدھ مت کمیونٹیز کے لیے حکومتی خدمات مہیا کرنے سے انکار کردیا۔ بدھ مت کی عبادت گاہوں پر حملے کیے، انہیں تباہ کیا۔ بدھ مت کے پیشواؤں کو بدحالی میں مبتلا کردیا۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے پُرامن احتجاج کیے، جنہیں کچل دیا گیا۔ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تو اُن پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ نہتے مظاہرین پرگولیاں برسائی گئیں، گرنیڈ پھینکے گئے۔ مغربی صحافی یہ سب جانتے تھے، مگر اُن کی ترجیح شمالی ویت نام میں جاری جنگ تھی۔ بہت کم لوگ جانتے تھے کہ جنوبی ویت نام میں کیسی دہشت مچی ہوئی تھی۔
پھر 10 جون 1963ء کا دن آیا۔ صحافیوں کو انوکھا پیغام ملاکہ سائیگون میں اگلے روز ایک اہم واقعہ ہونے جارہا ہے، ضرور کوریج کریں۔ اکثر صحافیوں نے پیغام کو زیادہ اہمیت نہ دی، اور کوریج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے روزصدارتی محل سے قریب ایک چورنگی پر دو فوٹوگرافرز (ان میں سے ایک کیمرہ بھول آیا تھا، اور دوسرے نے بعد میں پُلٹزرپرائز جیتا) اور چند صحافیوں کی موجودگی میں واقعے کی کوریج ہوئی۔ ایک گاڑی بدھ بھکشوؤں کے جلو میں احتجاجی جلسے کی قیادت کرتی ہوئی وہاں پہنچی۔ وہ نعرے لگارہے تھے۔ لوگ رکے، اُن کی جانب دیکھا اور پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ جلوس کمبوڈین سفارت خانے کے قریب پہنچ کر رکا، ٹریفک روک دیا۔ جلوس کی گاڑی سے تین بدھ مت پیشوا اترے۔ ایک نے کُشن سڑک کے بیچوں بیچ رکھا، دوسرا پیشوا جس کا نام Thich Quang Duc تھا، کشن پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور گیان شروع کردیا۔ تیسرے پیشوا نے گاڑی کے ٹرنک سے پانچ گیلن گیسولین کا کنستر نکالا اور گیانی کے سرپر الٹ دیا، اُسے پیٹرول میں تر بہ ترکردیا۔ لوگوں نے منہ پر ہاتھ رکھ دیے۔ مصروف شاہراہ پر سکوت سا چھاگیا۔ ہرکوئی صدمے سے دوچار تھا۔ پولیس بھول ہی گئی کہ وہ کس کام کے لیے بھیجی گئی تھی۔ گیانی نے آنکھیں کھولے بغیر مختصرسی دعا کی، ماچس اٹھائی اور خود کو آگ لگادی۔ دھویں کی کثافت سے پورا ماحول بوجھل ہوچکا تھا۔ ہر طرف چیخ پکار مچ چکی تھی۔ بہت سے لوگ توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گرپڑے۔ جو کھڑے رہ سکے، اُن کی آنکھوں سے آنسو گرپڑے۔ کوانگ ڈوچ جل کر راکھ ہوگیا مگر ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ گیان کی حالت میں بیٹھا رہا اور شعلے بھڑکتے رہے۔ نیویارک ٹائمز کے مبصر نے اس واقعے کی منظرکشی یوں کی ’’صدمے کی وجہ سے میری آواز تک نہ نکل سکی تھی، کسی نوٹ کسی سوال کا ہوش نہ رہا تھا، جب وہ جل رہا تھا تو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں، نہ ہی اُس نے کوئی آواز نکالی، وہ پورے منظر میں سب سے حیران کن تھا۔‘‘
یہ خبر اور تصویر آگ کی طرح پھیلی۔ دنیا بھرمیں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ اُسی شام ڈیم نے قوم سے ریڈیو پر خطاب کیا، اُس کی آواز کانپ رہی تھی۔ اُس نے بدھ مت پیشواؤں سے مذاکرات کا اعلان کیا، مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ جنوبی ویت نام کی ہوا بدل چکی تھی۔ ماچس کی تیلی اور کیمرے کے کلک نے ڈیم کی گرفت کمزور کردی تھی۔ جلد ہی بے شمار لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومت کے خلاف کھلی بغاوت شروع ہوچکی تھی۔ فوجی حکام نے حکم عدولی شروع کردی تھی۔ یہاں تک کہ امریکہ نے بھی ڈیم کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا تھا۔ صدر کینیڈی نے جرنیلوں کو اشارہ دے دیا تھا کہ ڈیم کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔ چند ماہ بعد ہی نگوڈیم اور اُس کے خاندان کو قتل کردیا گیا(4)۔
کوانگ ڈوچ کی تصویریں اُس وقت وائرل ہوچکی تھیں، جب ’وائرل‘ کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ کمیونسٹ روس اور چین کے اخباروں نے یہ تصاویر شائع کیں، انہیں سرمایہ دار بلاک کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کیا۔ اس تصویر کے پوسٹ کارڈ پورے یورپ میں پھیلادیے گئے۔ امریکہ میں ویت نام جنگ کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ صدر کینیڈی کو کہنا پڑا کہ ’’تصویر والی کسی خبر نے تاریخ میں اتنا بڑا جذباتی ہیجان پیدا نہیں کیا۔‘‘
کوانگ ڈوچ کا یہ اقدام تکلیف اور آزمائش سہنے کی غیر معمولی صلاحیت کا زندہ تجربہ تھا، جس نے سب کو ششدر کردیا تھا۔ میں یہ سوچ کر ہی کچھ دیر اپنی جگہ پر بے چینی سے پہلو بدلتا رہا کہ کوانگ ڈوچ کے وجود میں خودسوزی کے دوران جنبش بھی پیدا نہ ہوئی تھی۔ نہ وہ چلاّیا تھا اور نہ ہی اُس نے آنکھیں کھولی تھیں۔ اُس دنیا پر ایک نظر بھی ڈالنا گوارا نہ کیا تھا، جسے وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہا تھا۔ یہ خالص عزم کا اظہار تھا۔ یہ نظریے اور فکر کی مادے پر واضح برتری تھی۔ ارادے کا جبلت پر غلبہ تھا۔
ایسا کیسے ممکن ہوا؟ کیونکہ تکلیف اور آزمائش مستقل اور اٹل حقیقت ہے، خواہ زندگی جیسی بھی گزر رہی ہو، اچھی یا بری۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی چیز جس سے فرار ممکن نہیں، کیا اُس سے گریز کیا جائے یا اُس کا سامنا کیا جائے؟ جوکچھ بھی تم کرتے ہو، یا جو کچھ بھی تم ہو، وہ اس سوال کے کسی بھی ایک جواب میں ہی ظاہر ہوتا ہے: تمہارے تعلقات، تمہاری صحت، تمہاری نوکری، تمہاری جذباتی کیفیت، تمہاری ترقی وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان میں سے کوئی بھی معاملہ کمزور ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تم آزمائش سے گریز کررہے ہو۔ تم نے وقتی عیش و عشرت اور مادہ پرستی کا انتخاب کرلیا ہے (یہاں یہ نقد برمحل ہوگا کہ کوانگ ڈوچ نے آزمائش کا سامنا مایوسانہ طورپر کیا، اس کی بہتر حکمت عملی مؤثر بغاوت ہوسکتی تھی جیسا کہ کوانگ کی خود سوزی کے بعد بھی لوگ سڑکوں پر آئے، ان ہی لوگوں میں کسی اور طریقے سے بھی تحریک برپا کی جاسکتی تھی، جیسا کہ دیگر بغاوتوں اور انقلابات میں ہوا۔ مترجم)۔
ہماری تہذیب میں آزمائش اور تکلیف سے نبرد آزما ہونے کا رجحان تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ ختم ہورہا ہے بلکہ مزید ’خوشی‘ کا امکان بھی مٹارہا ہے، اور ایک جذباتی عدم توازن پیدا کررہا ہے، جس نے زندگی میں سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
جو کچھ کوانگ ڈوچ نے کیا، وہ نفسیاتی طور پر داخلی ارادہ تھا، وہ اپنے اندر کے درد والم اور ذات کی حقیقتوں کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اُس کے پیش نظر ایک روحانی مقصد تھا۔
آزمائش ہی اعلیٰ قدر ہے
بہت سے سائنس دان اور ٹیکنو ماہرین یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ہم موت پر قابو پالیں گے۔ ہماری جینیات کی ترامیم اور ازسرِنوتشکیل ممکن ہوسکے گی۔ ہم نینو بوٹس بنائیں گے جوہماری صحت کا معائنہ کرتے رہیں گے، اور صحت کودرپیش خطرات پیشگی ختم کردیں گے، یعنی ہم بیمار ہی نہ ہوں گے۔ بائیو ٹیکنالوجی ہمیں اس قابل بنادے گی کہ ہم اپنے جسم کی تشکیلِ نوکرتے رہیں گے، یوں ہمیشہ کی زندگی پالیں گے۔ یہ باتیں سائنس فکشن لگتی ہیں۔ مگرکچھ لوگوں کو یقین ہے کہ ہم یہ ٹیکنالوجی اپنی زندگی میں ہی حاصل کرلیں گے۔ موت کی شکست کا یہ امکان ناقابلِ یقین حد تک سنسنی خیز ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ عملاً یہ بھی نفسیاتی تباہی ثابت ہوگا۔
مثال کے طورپر اگر آپ موت کا خاتمہ کردیں توخوف کا خاتمہ ہوجائے گا۔جب خوف ختم ہوجائے گا توکسی بھی شے کی کوئی قدر نہ رہے گی۔ ہرشے یکساں طورپر اچھی یا بری ہوجائے گی، یکساں طورپر تمہاری توجہ یا عدم توجہ کا شکار ہوجائے گی۔ اب کیونکہ تمہارے پاس لامحدود وقت اور گنجائش ہے۔ تم سو سال تک ایک ہی ٹی وی شو دیکھ سکتے ہو۔ تم آسانی سے اپنے تعلقات بگاڑ سکتے ہو، کیونکہ ہمیشہ ان ہی لوگوں کو گھوم پھر کر پھرسامنے آجانا ہے۔ پھرکسی بھی چیز کی کوئی پروا کیوں ہو؟ یوں ہر عمل کے لیے تمہارے پاس ایک ہی جواز ہوگا کہ ’’ٹھیک ہے ایسا کرنے سے میرا کیا جاتا ہے! میری بلا سے! میری کون سی جان جارہی ہے؟ ‘‘
موت انسانی نفسیات کی فطری ضرورت ہے۔ یہ موت ہی ہے جو زندگی کی حدود اور دلچسپیاں طے کرتی ہے۔ زندگی میں کچھ نہ کچھ کھونے کے لیے ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک کھونے کا خوف نہ ہو،کسی بھی شے کی قدروقیمت کا احساس ہو ہی نہیں سکتا۔
تم نہیں جانتے کہ کس چیز کے لیے کیوں جدوجہد کررہے ہو؟ توپھراس جدوجہد کا کیا مفہوم؟ اوریہ کہ تم کسی بھی مقصد کے لیے قربانی کیوں دو؟ یاسرنگوں بھی کیوں کرو؟ حقیقت یہ ہے کہ جب زندگی کوکوئی خطرہ ہی نہ رہے توپھرسوائے عیش وعشرت اورآرام کوئی کچھ بھی کیوں کرے؟
یہ درد والم اور آزمائش ہی اقدارکی کرنسی ہے۔ احساسِ زیاں نہ رہے توقدر وقیمت کا تعین ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہی تکلیف اور آزمائش انسانی جذبے کا قلب ہے۔ منفی جذبات درد والم سے ہی جنم لیتے ہیں۔ آزمائش دور ہونے سے مثبت جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ جب ہم آزمائش سے گریز کرتے ہیں توجذباتی ردعمل حدود پامال کردیتا ہے۔ جتنا ہم آزمائشوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنے کے اہل ہوتے ہیں اُتنا ہی عمدہ جذباتی ردعمل ظاہرکرتے ہیں۔ جتنا ہم خود پرقابو رکھتے ہیں، صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُتنا ہی سنجیدگی اور متانت ہماری شخصیت میں مستحکم ہوتی ہے۔ مادی خوشی کی تلاش شخصی خوبیوں سے محروم کردیتی ہے۔ یہ مادی مسرت کی خاطر انسانی شعور کی قربانی ہے۔
قدیم فلسفی اس حقیقت سے واقف تھے۔ ارسطو، افلاطون، اور رواقی سلسلے کے فلسفیوں نے ’’مادی مسرت‘‘ پرنہیں بلکہ زندگی پر بات کی ہے، کردار پر بات کی ہے، آزمائشوں اور تکلیفوں پر استقامت کی بات کی ہے، صبر اور قربانی کی بات کی ہے۔ بہادری، دیانت داری، اور عاجزی اعلیٰ کردار کی خصوصیات قرار دی ہیں۔
دورِ تنویر میں آکر پہلی بار جدید فلسفیوں اور امریکی صدر تھامس جیفرسن وغیرہ نے زندگی کو ’خوشی کی تلاش‘ میں سرگرداں کردیا۔ سائنس اور بے انتہا دولت نے غلط فہمیوں کا طویل سلسلہ قائم کیا۔ یہ تکلیفوں اور آزمائشوں میں کمی کو ان کا خاتمہ سمجھ بیٹھے۔ آج بھی مغرب کے بہت سے دانشور یہ غلطی دہرا رہے ہیں۔ یہ قطعی طور پر بھول کررہے ہیں۔ انسان کی ترقی مال ودولت میں اضافے سے نہیں ہوتی۔ انسان کی ترقی کردار میں ترقی سے مشروط ہے، اور ہمارے کردار کی ترقی تکلیف اور آزمائش سے ہمارے تعلق کی نوعیت پر ہے۔ یہ تکلیفیں اور آزمائشیں ہی زندگی کو بامعنی بناتی ہیں۔
حواشی
1) رئیس المؤرخین عبدالرحمان ابن خلدون علم سماجیات کے بانی ہیں۔ اس حوالے سے مغرب کی علمی بددیانتی عام ہے۔
2) یہ مثال لادین مغرب کے لیے ہوسکتی ہے۔ قرآن حکیم اور اسلامی تعلیمات قدیم و جدید سائنس اور ممکنہ اکتشافات سے حتمی طور پرماورا ہے۔ یہ جدید سائنس کا تعصب ہے، جو ’العلم‘ اور سائنس کے ماہرین میں حائل ہے۔ قرآن فرقان کے مطالعے سے محرومی سائنس دانوں کی بہت بڑی محرومی ہے۔ یہ عموماً قرآن کو بائبل کی سی کتاب سمجھتے ہیں۔ مذہب پر مغرب کی ساری تحقیقات کھنگال جائیے، آپ کو شاید ہی قرآن کی کوئی آیت درست تناظر اور درست ترجمے کے ساتھ نظر آئے۔ قرآن کا عام سمجھنے والا بھی واضح طور پر محسوس کرتا ہے کہ مغرب کا مطالعہ قرآن سرسری نوعیت کا بھی نہیں ہے، اور جہاں کہیں یہ مطالعہ ہوا بھی ہے تو تعصب کے دبیز پردے اس پر ڈال دیے گئے ہیں۔
3)’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ (اِسی فکر میں) تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔ ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ پھر (سُن لو کہ) ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے (اِس روش کے انجام کو) جانتے ہوتے (تو تمہارا یہ طرزِ عمل نہ ہوتا)۔ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے، پھر (سُن لو کہ) تم بالکل یقین کے ساتھ اُسے دیکھ لوگے۔ پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔‘‘(سورہ تکاثر)
4) امریکی استعماریت کی یہی تاریخ ہے، لبرل جمہوریت کی ترویج کا مطلب دراصل ہدف ریاست میں دہشت گردی اور خانہ جنگی کی فضا ممکن بنانا ہوتا ہے۔ افغانستان، عراق، شام، اور لاطینی امریکہ میں جہاں جہاں بھی واشنگٹن نے مداخلت کی، بستیاں اجڑ گئیں، لوگ پناہ گزین ہوئے، اور بربادی پھیلی۔ آج میانمر جس کی اکثریتی آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے، اُسی امریکی آشیرباد سے مسلمان بستیوں میں آگ لگارہی ہے، آج بھی شعلے بھڑک رہے ہیں، مگرمغربی صحافی آج بھی تاریخ کے غلط رخ پر ہی کھڑے ہیں۔ آج بھی مصر میں فرعون السیسی امریکی سرپرستی میں نگوڈیم سے زیادہ سفاک اوربے لگام ثابت ہورہا ہے۔