پروفیسر جمیل چودھری
ایکپختہ عمر کے پرجوش مولوی منبر رسول پر بیٹھ کر زورِ خطابت دکھا رہے تھے۔ہم نویں جماعت کیدوطالب علم بھی سامعین میں موجود تھے۔مولوی صاحب اکثر موجودہ صوبہ خیبر پختون خواسے جلسوں میںتقریر کرنے کے لیے میرے شہر جھنگ آیا کرتے تھے۔زورِ خطابت میں مولوی صاحب نے سید مودودی کے ساتھ ملتے جلتے ایک ایسے لفظ کا اضافہ کیا کہ انہیں دائرۂ اسلام سے خارج کردیا۔ہم طلبہ نے یقین کرلیا کہ جب ایک ذمہ دار عالمِ دین منبر رسول پر بیٹھ کرسید مودودی کے خلاف فتویٰ دے رہا ہے تو بات درست ہوگی۔بات آئی گئی ہوگئی۔اور چند سال بعد ہم بی۔اے کے آخری سال میں پہنچ گئے۔کالج میں طلبہ کے درمیان مسئلہ ختم نبوت پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔آخر ربوہ ہمارے شہر کے قریب ہی تو تھا۔شہر میں علماء بھی اس موضوع پر دھواں دھار تقریریں کرتے رہتے تھے۔کسی نے سید مودودی کا ایک چھوٹا پمفلٹ’’مسئلہ ختم نبوت‘‘ پڑھنے کے لیے دیا۔یہ پہلی تحریر تھی جو میں نے سید صاحب کی پڑھی۔بات سمجھانے کا انداز اور استدلال روایتی علماء سے بالکل مختلف لگا۔اورپھر تحریک اسلامی جھنگ کی ننھی منی لائبریری چند ماہ میں پڑھ ڈالی گئی۔تب رہائش اپنے ڈیرہ پرہی تھی۔ یہ لٹریچر اپنے کھیتوں میں موجود درختوں کے سائے میں بیٹھ کر پڑھا گیا۔ معلوم ہوا کہ اسلام تو ایک پورا نظامِ زندگی ہے، صرف مذہب نہیں ہے۔ انہی دنوں ضلع ساہیوال کے قصبے قبولہ میں ایک پروگرام میں شرکت کی۔ نمازِ فجر کے فوراً بعد ایک وسیع گھر کی چھت پر ملتان سے آئے ہوئے ایک بزرگ نے درسِ قرآن دیا۔ میری یادداشت کے مطابق اُن کا نام محمد خان ربانی تھا۔ اس درسِ قرآن کا اثر نصف صدی گزرنے کے بعد اب بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ مولویانہ طرز کے دروسِ قرآن سے بالکل مختلف۔ اور پھر اسی سال1966ء کے آخر میں سید صاحب نے جھنگ کا دورہ کیا۔ موجودہ اکابرینِ جماعت اسلامی جھنگ کے پاس تب ڈھنگ کا کوئی مکان نہیں تھا۔ سید محترم کو ایک روایتی نواب صاحب کے کھلے سے گھر میں ٹھیرایا گیا۔ ہم تقریباً10طلبہ نے ان سے ملاقات کی۔ سید محترم سفید کرتے اور کھلے پاجامہ میں تھے۔ مجھے ان کے بالکل ساتھ بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ عالمِ اسلام کے ایک بڑے انسان کو ہم اپنے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ سوالات تو ایسے ہی سطحی سے تھے جیسے کہ طلبہ کے ہوتے ہیں، لیکن جوابات خوبصورت، سادہ اردو میں اور بہت ہی مدلل۔ اسی رات نواب صاحب کے کھلے صحن میں انہوں نے جلسے سے خطاب فرمایا۔ جلسے میں بھی سید صاحب باتوں اور مسائل کو ٹھیر ٹھیر کر اور سکون سے سمجھا رہے تھے۔ ہمارے کئی ساتھیوں نے ان کی پوری تقریر نوٹ کرلی تھی۔ پُرجوش خطیبوں اور جذباتی مولویوں کے اس شہر میں ہمیں سید مودودی بالکل ہی مختلف لگے۔ بعد میں انہیں لاہور کے کئی پروگراموں میں بھی سنا۔ طلبہ کا ایک پروگرام میری یادداشت کے مطابق لاہور کے داروغہ والا علاقے میں تھا۔ مختصر خطاب کے بعد سوالات و جوابات کا مرحلہ شروع ہوگیا۔ پرچیاں آتی رہیں اور وہ مختصر و جامع جوابات دیتے رہے۔ سید صاحب کو یقین تھا کہ سوالات سے ہی علم کے خفیہ گوشے کھلتے ہیں۔ اس سے پہلے روایتی علماء کی تقریروں کے بعد سوال وجواب کا یہ سلسلہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ یہ صورتِ حال بھی میرے لیے متاثر کن تھی۔ ایسے پروگراموں میں آنے کا یہ بھی فائدہ تھا کہ تحریک کا مزید لٹریچر حاصل کیا جائے۔ مولانا محترم کا درسِ قرآن ہوتا یا تقریر، وہ سوالات و جوابات کے لیے وقت ضرور نکالتے تھے۔ لوگوں کو اطمیناں اپنے سوالوں کے مدلل جوابات سے ہی ہوتا تھا۔ جب ہم سرکاری ملازمت میں آئے تو ’’تنظیم اساتذہ پاکستان‘‘کی شکل میں تحریکِ اسلامی موجود تھی۔ سید صاحب نے اپنا آخری پبلک خطاب بھی اساتذہ کی اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے فیصل آڈیٹوریم پنجاب یونیورسٹی نہیں آسکے تھے۔ ہم اساتذہ 5۔اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور آئے تھے۔ انہیں آخری دفعہ دیکھا اور سنا۔کچھ عرصے بعد ان کی بیماری شدت اختیار کرگئی، اور وہ بفیلو امریکہ علاج کے لیے تشریف لے گئے۔ 22 ستمبر 1979ء کو امریکہ کے اسپتال میں ہی یہ سورج غروب ہوگیا تھا (ڈاکٹروں نے سید صاحب کے کمرے سے باہر آکر یہی الفاظ استعمال کیے تھے)۔ ہم ساتھیوں کی شدید خواہش تھی کہ ان کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ لیکن لوکل حکومتوں کے الیکشن میں ڈیوٹیوں کے باعث ہم اس سعادت سے محروم رہے۔ خبروں میں سنا گیا کہ قذافی اسٹیڈیم بھر گیا تھا۔ بہت سے لوگ اندر نہ جاسکے تھے۔ جھنگ سے گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور تبادلہ ہونے کے بعد ہم دوستوں نے 22 ستمبر 2003ء کو ان کی قبر پر جانے کا پروگرام بنایا۔ سید صاحب جہاں عصری مجالس کے لیے بیٹھتے تھے، دیکھا کہ وہیں دو قبریں بنی ہوئی ہیں۔ دوسری قبر ان کی بیگم کی تھی۔ قبروں پر مٹی کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ لوحِ مزار توتب لگتی اگر مزار بنتا۔ حکم رسولؐ کے مطابق کچی قبریں… لیکن ان کا سب کچھ تو پوری دنیا میں موجود ہے۔ ان کی فکر، سوچ اور تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء پر اثر ڈالا۔ دنیا میں اسلام کی موجودہ پذیرائی سید مودودی اور شیخ حسن البناء کی فکر کا نتیجہ ہے۔ بیسویں صدی میں عثمانی خلافت اپنے خاتمے سے پہلے ہی سکڑنا شروع ہوگئی تھی۔ یورپ سے ترکی دستے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ اور پھر پہلی جنگِ عظیم میں یورپ کے مردِ بیمار کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیاگیا۔ ترکوں کی اصل مادرِ وطن کو کمال اتاترک نے اپنی بہادری سے بچا کر وہاں جمہوری نظام قائم کردیا۔ بیسویں صدی میں سید مودودی، علامہ اقبال اور حسن البناء کی فکر سے ہی امید کا دیا جلتا رہا۔ بعد میں سید قطب کی فکر نے مسلمانوں کو حوصلہ دیئے رکھا۔ کیا اسلامی اصولوں کے مطابق کوئی ریاست دورِ جدید میں قائم ہوسکتی ہے؟کیا دینی قوانین کے مطابق دورِ جدید کا پیچیدہ معاشی نظام چلایا جاسکتا ہے؟ مادی اور سماجی علوم کو اسلامی تناظر میں کیسے پڑھایا جائے؟ ہم عقلی علوم میں آگے تو بڑھیں لیکن تصورِ توحید اور وحی کو ساتھ لے کر چلیں۔ مولانا کے لٹریچر میں ایسے ہی پیچیدہ اور نئے سوالات کے جوابات بڑی تفصیل سے دیئے گئے ہیں۔ کبھی اے کے بروہی جیسے آئین وقانون کے ماہر ببانگِ دہل کہاکرتے تھے کہ قرآن و سنت میں ’’دورِ جدید کے لیے آئینی اصول‘‘ نہیں ہیں۔ لیکن جب جماعت اسلامی کا مقدمہ لڑنے کے لیے انہیں جماعت کا پورا لٹریچر پڑھنا پڑا تو پھر ان کی رائے بالکل ہی بدل گئی۔ پھر وہ اسلام کے سفیر بن گئے۔ مجھے وہ تقریب اچھی طرح یاد ہے جو 1973ء میں فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ہوئی تھی۔ تفہیم القرآن 30 سالہ محنتوں کے بعد مکمل ہوئی تھی۔ معروف علمائے دین کے ساتھ مغربی لباس میں اے کے بروہی اسٹیج پر موجود تھے۔ تب تک تفہیم القرآن اور دوسرے لٹریچر کے مطالعے کے بعد دین بطور نظریۂ حیات کا تصور ان کے ذہن میں واضح ہوگیا تھا۔ مطالعے نے ان کو بدل دیا تھا۔ وہ اپنی خوبصورت انگریزی میں قرآنی آیات کی تشریح کررہے تھے۔ شاید اسی موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی واحد اسکالر ہیں جو نظریۂ پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں۔ سوشلسٹ اور لبرل طبقہ تب کافی سرگرم تھا۔ تفہیم القرآن جس نے بھی پڑھی اُس کو بدل گئی۔ الطاف گوہر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ اتنے متاثر تھے کہ تفہیم القرآن کے کچھ حصوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کرڈالا تھا۔ تفہیم القرآن کے علاوہ ’’دینیات‘‘، ’’خطبات‘‘، ’’تنقیحات‘‘، ’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’اسلامی ریاست‘‘، ’’معاشیاتِ اسلامی‘‘ اور ’’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ جس نے بھی پڑھیں وہ سید کی فکر کا گرویدہ ہوگیا۔ سید کا لٹریچر اب پوری دنیا اور مختلف زبانوں میں پھیل چکا ہے۔ لوگوں کی سمجھ میں اب یہ بات آچکی ہے کہ اسلام صرف مذہب نہیں جو چند عقائد اور عبادات تک محدود ہو، بلکہ پوری زندگی پر محیط نظام ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں دین نے کوئی ہدایت نہ دی ہو۔ سید کی فکر نے دنیا کے نامی گرامی لوگوں کو متاثر کیا۔ میاں طفیل محمد، غلام اعظم، عبدالقادر ملا، خورشید احمد، حسن البناء، سید قطب، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، امین احسن اصلاحی، ابو عمار یاسر قاضی، سید علی گیلانی اور ایسے ہی دیگر ہزاروں۔ وہ علمی لحاظ سے تحریک پاکستان کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ ’’مسئلہ قومیت‘‘ کانگریسی علماء کے جواب میں ہی لکھی گئی۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد اپنی جماعت کے کاموں کی طرف ہی توجہ دیتے رہے۔ اگر وہ عملاً مسلم لیگ کا کسی نہ کسی حد تک ساتھ بھی دیتے تو انہیں پاکستان میں کام کرنے کے لیے رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اور یہ ممکن تھا کہ پاکستان کے عوام میں ان کے پیغام کو زیادہ پذیرائی ملتی۔ مولانا محترم کی جماعت نے دینی بنیادوں پر علمی اور فکری کام تو کافی کرلیا ہے، زندگی کے تمام شعبہ جات سے متعلق جدید طرز کی کتابوں سے لائبریریاں بھر دی ہیں، لیکن یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ جماعت سیاسی لحاظ سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹتی جارہی ہے۔ آخر میں ان کا ایک قول۔ جب مولانا مودودی کو موت کی سزا سنانے کے بعد کہاگیا کہ آپ ایک ہفتے کے اندر اندر اپیل کرسکتے ہیں تو مولانا نے جواب دیا ’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیںآسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بیکا نہیں کرسکتی۔‘‘