مجلہ : ماہنامہ ’’تعمیر افکار‘‘ کراچی،اشاعت ِخاص (حصہ اوّل)۔ بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمتہ اللہ علیہ
صدرِ مجلس : سید فضل الرحمن
مدیراعلیٰ : حافظ حقانی میاں قادری
مدیر : سید عزیز الرحمن
صفحات : 464 قیمت:850 روپے
ناشر : زوار اکیڈمی پبلی کیشنز
اے18/4، ناظم آباد نمبر4 کراچی 74600
فون021-36684790
ای میل : info@rahet.org
ویب گاہ : F zawwaracademypubications
F resarch academy for higher education& technology
ماہنامہ ’’تعمیر افکار‘‘ کراچی اسلامی افکار کا ترجمان علمی، ادبی اور تحقیقی مجلہ ہے جس کی ایک روشن علمی تاریخ ہے۔ اس کے بہت سے خاص نمبر بھی بڑے اہتمام اور محنت سے شائع کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک تعزیتی اشاعتِ خاص سید عزیزالرحمن صاحب نے مرتب کی تھی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے متعلق اس سے زیادہ کیا لکھا جائے کہ وہ آیت من آیات اللہ تھے، منبع خیر تھے، استاد تھے، اور ایسے استاد تھے جنہوں نے بے شمار طالب علموں کی زندگیوں کو سنوارا، تربیت کی۔ بے نظیر محقق اور صدیوں زندہ رہنے والے اسلامی مصنف تھے۔ ان کو یاد کرنا خود اپنے آپ کو یاد کرنا ہے۔ اس اشاعتِ خاص سے پہلے 2016ء کی اشاعت بھی 304 صفحات پر مشتمل تھی، اور ہم نے اس کا تعارف بھی فرائیڈے اسپیشل میں کرایا تھا۔ دو حصوں پر مشتمل یہ اشاعت جس کا پہلا حصہ منصۂ شہود پر آیا ہے، ایک یادگار دستاویز ہے۔ ڈاکٹر سید عزیزالرحمن تحریر فرماتے ہیں:
’’کچھ شخصیات کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہوتا ہے، ہرگزرتے دن کے ساتھ ان کی یادیں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں، اور ان کی شخصیت کے پرت بھی واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شاید اس میں انسان کے قلبی جذبات اور تعلق کا بھی کردار ہو۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا معاملہ بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ ستمبر 2010ء میں اچانک ان کا انتقال ہوا، تب بھی وہ متعارف شخصیت تھے۔ بھرپور علمی اور عملی تعارف کے حامل تھے اور وسیع حلقے میں پڑھے اور سنے جاتے تھے، مگر ان کے انتقال کے بعد ان کے حلقے میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کی عربی، اردو میں کئی ایک کتب اُن کے انتقال کے بعد منظرعام پر آئیں۔ ان کے محاضرات کی جانب عوام و خواص کی دلچسپی بڑھی، لوگ انہیں تلاش کر کرکے پڑھنے اور سننے لگے۔ اور جب ڈاکٹر صاحب کی متروکات کی تلاش شروع ہوئی تو چیزیں سامنے آتی چلی گئیں، خود ہمارے ہاں سے ان کی کئی کتب مرتب ہوکر شائع ہوئیں۔ جو اس سے قبل ان کی حیات میں شائع ہوچکی تھیں ان میں بھی اضافے ہوئے، اور خصوصیت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے محاضرات سے دلچسپی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد ہی، آپ کے حوالے سے بھی تحریریں سامنے آنے کا رجحان شروع ہوا۔ اس ضمن میں سب سے پہلا مجموعہ پیش کرنے کا شرف ماہنامہ الشریعہ نے حاصل کیا، پھر معارف اسلامی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ایک شمارہ ڈاکٹر صاحب کی یاد میں مختص کیا۔ کئی ایک مجلات نے اپنے گوشے مخصوص کیے، تعزیتی نشستیں ہوئیں، یوں یادِ غازی لو دیتی رہی، اور آپ کی تحریریں رہ نمائی فراہم کرتی رہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مندوں اور متعلقین کی ایک کوشش یہ بھی رہی کہ اس حوالے سے کوئی علمی کانفرنس یا سیمینار بھی منعقد ہوسکے۔ یہ شرف دعوۃ اکیڈمی کو حاصل ہوا، اور اس کے سربراہ جناب ڈاکٹر سہیل حسن نے اس سلسلے کی بنیاد رکھی۔ یہ اس سلسلے کا پہلا قدم تھا، پھر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے بھی ڈاکٹر صاحب کی یاد میں ایک نشست کا اہتمام کیا، جو زیادہ تر آپ کی یادوں پر مشتمل تھا۔ اس موقع پر بھی اعلان کیا گیا کہ اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے گا۔ یوں ابھی کام باقی ہے اور لگتا ہے کہ کام بڑھتا جارہا ہے۔ اس نمبر کی خواہش مجلہ تعمیر افکار کے منتظمین کے ذہن میں روزِ اوّل سے موجود تھی، البتہ اس کا وقت اللہ کے ہاں متعین تھا، مدیراعلیٰ و بانی مجلہ برادرِ بزرگ ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری اس کے بارے میں پوچھتے بھی رہے اور بار بار یاد بھی دلاتے رہے، مگر کام کی تکمیل تو کیا عرصے تک کام کا آغاز بھی نہیں ہوسکا۔
گزشتہ برس کسی موقع پر فیس بُک پر ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے ایک مختصر سی پوسٹ نظر سے گزری، جو اپنے اختصار کے باوجود دلچسپ بھی تھی اور توجہ طلب بھی۔ یہ پوسٹ ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی ہالہ غازی فاروقی کے قلم سے تھی، راقم نے رابطہ کرکے اُن سے گزارش کی کہ اس پوسٹ کو تحریر بنا دیجیے۔ چند ہی روز میں یہ تحریر موصول ہوئی تو اسے دیکھ کر خیال ہوا کہ ستمبر کا شمار ابھی شائع نہیں ہوا، اس شمارے کو ڈاکٹر صاحب کی یاد میں مخصوص کردینا چاہیے۔ اپنے ایک دو مضمون نکالے، چند دوستوں سے درخواست کی، ڈاکٹر صاحب کے غیر مطبوع خطبے تلاش کیے، چند ہی روز میں دوسو سے زائد صفحات جمع ہوگئے۔ اُس وقت پہلی بار ڈاکٹر صاحب کی یاد میں تعمیر افکار کی اشاعت کے حوالے سے فیس بُک پر پوسٹ ڈالی گئی۔ اس پوسٹ پر ردعمل بھی خلافِ توقع نہایت غیر معمولی تھا، اور تعاون کی صورتیں بھی غیر معمولی رہیں۔ مثلاً مولانا بخت برشوری سے ملاقات ہوئی اور ڈاکٹر صاحب اور ان کی تحریروں کا ذکر آیا تو انہوں نے اپنی گہری عقیدت کا ذکر کرکے اس سلسلے میں ہاتھ بٹانے کی پیش کش کی، ہم نے فیصل مسجد کے خطباتِ جمعہ ان کے حوالے کردیئے، یوں یہ خطبات اس نمبر کی اشاعت سے قبل ہی شائع ہوکر منظرعام پر آگئے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کی دوسری تحریریں بھی وہ کاغذ پر منتقل کررہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے اہلِ خانہ کا شکریہ کہ ان کے توسط سے کئی اہم اور غیر مطبوع نوادرات حاصل ہوئے، ان میں ڈاکٹر صاحب کی ڈائری کے اوراق بھی شامل ہیں۔ سب کے لیے عاجزانہ اور نیازمندانہ دعا کے ساتھ یہ شمارہ پیش ہے۔ یہ پورا سلسلۂ اشاعت دو جلدوں میں متوقع ہے، دوسری جلد میں ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے حوالے سے مضامین اور آپ کی اپنی علمی تحریریں اور محاضرات شامل ہوں گے۔ سردست اس کی ضخامت اسی قدر ہے جس قدر کہ یہ اشاعت پیش کی جارہی ہے۔ حصہ دوم بھی جلد پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ۔
اس اشاعت میں تاخیر کی بہت سی وجوہات ہیں، دفتری اور انتظامی مصروفیات، کچھ کام کے اور اکثر لایعنی اسفار، افرادِ کار کا نہ ہونا اور آخر میں کاغذ کا شدید بحران، جس نے اس اشاعت کی لاگت میں بھی غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس فریضے کے اہم حصے کی ادائیگی سے آج ہم سبک دوش ہورہے ہیں، الحمدللہ۔
اس اشاعت کی وجہ سے تعمیر افکار کی عمومی اشاعت بھی متاثر رہی۔ ایک تو علمی مجلات کا ویسے ہی کوئی پرسانِ حال نہیں… نہ خریدار ہیں، نہ اشتہارات۔ پھر ان کی اشاعت بھی تعطل کا شکار ہوجائے تو رہے سہے خریدار بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔ کاش اس جانب بھی توجہ ہو اور ان مجلات کی زندگی کا کوئی سامان ہوسکے۔
ہمیں آپ کی توجہ، مشوروں اور تجاویز کا انتظار رہے گا۔ بہت بہت شکریہ‘‘۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کیا گیا ہے۔
مجلہ زوار اکیڈمی کے علاوہ کراچی میں کتب خانہ سیرت شاپ نمبر313، تیسری منزل بک مال اردو بازار کراچی۔ لاہور میں کتاب سرائے غزنی اسٹریٹ اردو بازار، اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) مرکز F-7 سے بھی دستیاب ہے۔
مشاہیرِ ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین
کتاب : مشاہیرِ ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین (بلحاظ ترتیب ِزمانی)۔
مرتب : حفیظ الرحمن احسن(مدیر ’’سیارہ‘‘ لاہور)۔
صفحات : 492 قیمت:800 روپے
ناشر : مثال پبلشرز۔ رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد
فون : +92-41-2615359,2643841
موبائل : 0300-6668284
ای میل : misaalpb@gmail.com
شوروم : مثال کتاب گھر، صابریہ پلازہ، گلی نمبر8، منشی محلہ، امین پور بازار فیصل آباد
پروفیسر غازی علم الدین حفظہ اللہ کی نئی کتاب ’’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘‘ مرتبہ حفیظ الرحمن احسن موصول ہوئی۔ اہلِ علم کے یہ خطوط لسانی مباحث، شخصی مطالعات، علمی اور ادبی موضوعات سے متعلق ہیں اور ان کو نہایت عمدگی سے خوب صورت طبع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی تحریر فرماتے ہیں:
’’پروفیسر غازی علم الدین کا نام ہماری علمی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اسم بامسمیٰ شخصیت ہیں۔ ’’علم‘‘ اور ’’دین‘‘ تو ان کے نام کا جزو ہیں ہی، لیکن ان دونوں چیزوں سے ان کی محبت اور دونوں میدانوں میں ان کی جاں فشانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’غازی‘‘ کا خلعت بھی ان کے قامت پر راست آتا ہے۔ ان کی تحریروں کی اشاعت کے آغاز کو ابھی طویل عرصہ نہیں گزرا، تاہم اردو لسانیات کے اچھوتے موضوعات، نیز تنقید و تجزیہ پر ان کے بصیرت افروز مضامین نے ان کی شہرت کو پاک و ہند کے طول و عرض سے نکال کر دیگر ممالک کے علمی مراکز تک پہنچا دیا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے اُن کی پہلی قابلِ ذکر کتاب ’’میثاقِ عمرانی‘‘ 2009ء میں پشاور سے شائع ہوئی تھی۔ پھر ’’لسانی مطالعے‘‘ (اسلام آباد، 2012ء)، ’’تنقیدی و تجزیاتی زاویے‘‘ (کراچی، 2014ء) اور ’’تخلیقی زاویے‘‘ (فیصل آباد، 2017ء) منظرعام پر آئیں۔ اس اثنا میں ان کے لسانیاتی کام کے حوالے سے ایک ’’لسانی لغت‘‘ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی سے 2013ء میں شائع کی۔ اسی مؤقر اشاعتی ادارے نے 2014ء میں ’’لسانی مطالعے‘‘ کا بھارتی ایڈیشن نکالا، اور اسی برس یعنی 2014ء میں ’’لسانی مطالعے‘‘ پر اہلِ علم کی تنقیدی آرا اور مباحث پر مبنی ایک مجموعہ بعنوان ’’اردو… معیار اور استعمال‘‘ شائع کیا جو ڈاکٹر مناظر عاشق نے ہی ترتیب دیا تھا۔ اس مجموعے میں بہت سے علم دوست حضرات کے تبصرے اور خطوط شامل ہیں۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں غازی صاحب کے محبین میں، اور وہ میرے مہربانوں میں شامل ہیں، چنانچہ میں اُن کی اس عادت سے بخوبی واقف ہوں کہ وہ اپنی مطبوعات ملک اور بیرونِ ملک اپنے وسیع حلقۂ احباب میں فراخ دلی سے تقسیم کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے نام خطوط بھی اسی کثرت سے آتے ہیں۔ ان خطوط کا بنیادی موضوع اردو زبان سے محبت، اس کی ہر لحاظ سے ترقی، اور عملی طور پر اس کو علمی اور سرکاری زبان بنانا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ان خطوں کے مندرجات کا محبان و بہی خواہانِ اردو تک پہنچانا بھی اردو کی خدمت کے مترادف ہے۔ یوں بھی غازی صاحب مزاج کے معاملے میں غالبؔ سے مماثلت رکھتے ہیں یعنی:
اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں‘‘
مرتب کتاب جناب حفیظ الرحمن احسن تحریر فرماتے ہیں:
’’سنجیدہ اور بامقصد مراسلت، اردو ادب کی ایک تابندہ روایت ہے جس کا باوقار آغاز، راقم الحروف کے علم کی حد تک، اردو اور فارسی کے نابغۂ روزگار شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک اہم نام، ایک تاریخ ساز شخصیت سرسید احمد خاں کا آتا ہے… پھر مراسلہ نگاروں کی ایک کہکشاں نظر افروز ہوتی ہے۔ مکتوب نگاری ہمارے ہاں ایک تہذیب کا درجہ رکھتی ہے۔ مکتوب، اپنوں سے گفتگو اور گفتگو سے بڑھ کر ملاقات کا ایک دلچسپ انداز ہے۔
’’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘‘ متنوع مزاج و فکر کے حامل افراد کے رنگارنگ مکاتیب پر مشتمل ہے، جن میں مشاہیر ادب نے غازی صاحب کی تصانیف، لسانی نظریات اور اسلوب کے بارے میں کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس مجموعے کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں شامل زیادہ تر خطوط لسانی مباحث (اردو زبان کے تعلق سے)، شخصی مطالعات، علمی اور ادبی موضوعات پر مبنی ہیں۔ یہ مجموعہ طویل اور مختصر خطوط پر مشتمل، ایک قیمتی ارمغانِ علمی کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیادہ تر خطوط سنجیدہ اور ذمہ دارانہ اظہارِ خیال پر مبنی ہیں جن میں تحسین، تنقید، تحقیق و تدقیق اور تجزیہ و محاکمہ کی رنگارنگی پائی جاتی ہے، جو اس کتاب کو ایک منفرد حیثیت عطا کرتی ہے۔ بیشتر خطوط بے حد علمی ہیں جو بین السطور بہت اہم معلومات منظرعام پرلاتے ہیں۔ چوں کہ یہ اہلِ قلم کے خطوط ہیں، اس لیے ان کی حیثیت تاریخی بھی ہے اور ادبی بھی۔ ان میں ضمناً بعض ایسے امور بھی زیر بحث آگئے ہیں جن کا تعلق ہماری علمی، ادبی اور سماجی زندگی اور اس کی عصری تاریخ سے بھی ہے۔ غازی صاحب نہایت درجہ خوش نصیب قلم کار ہیں جن کی تحریروں کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے، جس کا ثبوت یہ مکاتیب ہیں:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشذہ
پیش نظر کتاب جہاں غازی صاحب کی لسانی، تنقیدی اور تحقیقی کتابوں اور ادارتی کاوشوں کی اہمیت و افادیت اجاگر کرتی ہے وہاں میرے نزدیک ان خطوط کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ اُن کی علمی اور ادبی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ یہ خطوط اُن کی علمی شخصیت کی شناخت کے گواہ ہیں۔ مکاتیب کے مضامین و موضوعات اور مکتوبات نگاروں کا تنوع، ہر ایک:
دامنِ دل می کُشد کہ جا ایں جاست
لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ غازی صاحب کو اپنے ادبی سرمائے میں مزید اضافہ کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ مرزا غالب کی طرح صرف دو ایک شعری مجموعوں پر کفایت نہیں کرلینی چاہیے… البتہ جو کچھ غالب نے تخلیق کیا، اردو ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بلاشبہ وہ دنیا کے عظیم شاعروں میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں، اور یہ بات اہلِ نقد کے ہاں مسلّم ہے۔ ہماری گزارش تو غازی صاحب سے ہے کہ ہماری اس آرزو کی تکمیل کا سامان ضرور کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیقِ خاص سے نوازے (آمین)۔ پیش لفظ، مقدمہ اور حرفے چند کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار دلوی اور پروفیسر ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے کتاب اور مکتوب الیہ (غازی علم الدین) کے بارے میں جچی تلی رائے اور پُرخلوص جذبات کا اظہار کیا ہے۔ یہ تینوں فاضل حضرات، اردو ادب کی معتبر اور نامور شخصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضلِ خاص سے نوازے (آمین)‘‘۔
بہت سے خطوط بیش قیمت علمی معلومات کے حامل ہیں۔ خاص طور سے پروفیسر ظفر حجازی صاحب کے خطوط شائستہ اور شگفتہ علمی تنقید کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے اور رنگین سادہ سرورق سے مزین ہے۔