ہمارا تعلیمی زوال ،ظالم والدین، مظلوم بچے

پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے ایک دیہی علاقے میں امتحان کے موقع پر اٹھارہ طالبات کو نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ اطلاع ان لوگوں کے لیے تعجب خیز ہوگی جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے دیہات میں سیدھے سادے لوگ رہتے ہیں، اور شہروں کی بے ایمانی دیہات میں نہیں ہے۔
دیہاتی لڑکیوں کے متعلق تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ کمرہ امتحان میں چالاکیاں دکھا سکتی ہیں اور نقل کا آرٹ شہروں سے نکل کر دیہات میں، اور طلبہ سے گزر کر طالبات میں ترقی کرگیا ہے۔ تعلیمی امتحانی شعبے میں بہت کچھ بدعنوانیاں ہیں، اس کی خبریں اخبارات میں آرہی ہیں، مگر جہاں تک طلبہ کی نقل سازی کا تعلق ہے، اس پر غور ہونا چاہیے کہ آخر یہ نقل کیوں کرتے ہیں؟
اصل بات یہ ہے کہ تعلیم کی بنیاد پرائمری تعلیم ہے، اور ہمارے پاس یہ بنیاد ہی بے بنیاد ہے۔ عام اسکولوں میں بچوں کو یونہی پاس کرکے اگلی جماعتوں میں بھیج دیا جاتا ہے، اور بڑی جماعتوں میں پہنچ کر دو ہی چیزیں ممکن ہیں، یا رٹّا لگائیں یا نقل کریں۔
حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے پرائمری پاس طلبہ میں صرف 34 فیصد بچے سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں، باقی نے جو رٹّا لگایا ہوا ہے وہ رٹ دیتے ہیں، اور 80فیصد پرائمری پاس بچے ایک درخواست یا خط بھی نہیں لکھ سکتے۔
تعلیم کے نام پر بچوں پر بے حد ظلم ہورہا ہے۔ ایک طرف سرکاری اسکول ہیں، یہاں قومی زبان اردو کے اسباق بھی رٹّا لگا کر پڑھائے جاتے ہیں۔ اور جو گورنمنٹ اسکول ہیں وہ بھی بند کیے جارہے ہیں اور تعلیم کو تجارت بنادیا گیا ہے، جس کے پاس پیسہ ہے وہ اپنے بچوں کے لیے تعلیم خریدلے۔
نام نہاد انگلش اسکولوں کی یہ حالت ہے کہ یہ بھاری فیسیں لیتے ہیں اور بچے انگلش تو کیا اردو بھی صحیح لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ابتدائی جماعتوں میں ہی مشکل کتابوں کی بھرمار ہے۔ مائیں اگر تعلیم یافتہ ہیں تو وہ بچوں کے لیے اور بھی مصیبت ہیں کہ اپنے بچوں کو ہر وقت نفسیاتی دبائو اور جبر کی حالت میں رکھتی ہیں کہ بیٹا تم کو اچھے نمبروں سے پاس ہونا ضروری ہے، دیکھو فلاں کے بچے سے کم نمبر نہیں ہونے چاہئیں۔ ہر تعلیم یافتہ ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا بچہ اوّل، دوم آئے اور نمایاں نمبروں سے کامیاب ہو۔ اس کے لیے وہ خود بھی بچے کے ساتھ ساری شام مغزی ماری کرتی ہے اور بچوں کے دل و دماغ پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، اس کی وجہ سے ان کی نفسیات میں خلل پیدا ہورہا ہے، وہ خوف کا شکار رہتے ہیں۔ والدین کا یہ طریقہ صحیح نہیں، اس سے بچے پڑھ تو جائیں گے مگر زندگی میں ان کی نفسیات نارمل نہیں ہوگی۔ بچوں کو امتحان کے لیے تیار ضرور کرنا چاہیے لیکن امتحان کو ان کے لیے ہوّا نہیں بنانا چاہیے۔
تعلیمی نفسیات کے ماہرین کی نظر میں تو امتحان ہی غلط چیز ہے، اور بچے کی تعلیم قبل از وقت شروع کردینا بھی صحیح نہیں۔ امتحان بچے کی قابلیت اور صلاحیت ناپنے کا صحیح پیمانہ بھی نہیں۔ ماہرین کی یہ باتیں ہم تسلیم نہ کریں تب بھی ان کا یہ مشورہ ضرور مان لینا چاہیے کہ تعلیم کے نصاب کو مختصر اور آسان کیا جائے۔ بلاشبہ انگریزی ضروری ہے، اس کی تعلیم کا خاص اہتمام ہونا چاہیے، لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ لندن میں چھپی ہوئی موٹی اور مشکل کتابوں سے ابتدا کی جائے جو بچے کے ذہن کے لیے بہت بوجھ ہے۔ ان کتابوں کے الفاظ کے معانی اگر انہیں پڑھانے والے اساتذہ سے پوچھے جائیں تو وہ بھی نہیں بتاسکتے۔
بچوں پر یہ ظلم بند ہونا چاہیے، ان کے لیے مختصر اور آسان نصاب ہو جسے وہ سمجھ بوجھ کر پڑھیں۔ غیر ضروری کتابوں اور نصاب کا بوجھ ان پر نہ لادا جائے۔
ننھے منے بچوں کے بھاری بستوں کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت کا اظہار ہر حکمران نے کیا، لیکن اس میں کبھی کمی نہیں ہوئی۔ کتابوں کاپیوں کا یہ بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے اور نام نہاد انگلش اسکولوں کے بچے انگلش تو کیا اردو بھی صحیح پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا برا حال ہے، جب تعلیم ہی صحیح نہیں تو طلبہ نقل نہ کریں تو کیا کریں! نقل ہوتی ہے، خوب ہوتی ہے، اور بعض اوقات پستول کی نوک پر ہوتی ہے۔ اساتذہ اسے روکنے کی ہمت نہیں کرسکتے، اور طلبہ کا امتحانی عملے سے بھی سازباز کا سلسلہ رہتا ہے۔
ویسے تو ہم ہر شعبہ زندگی میں زوال کا شکار ہیں، لیکن جو تعلیمی زوال ہے اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2005ء تک چالیس فیصد بچے ایسے ہوں گے جو اسکول نہیں جارہے ہیں، جبکہ 1995ء میں اسکول نہ جانے والے بچوں کا یہ تناسب 27 فیصد تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم راہِ جہالت پر تیزی سے گامزن ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی بڑا تعلیمی زوال ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں 56 ملین بچے اسکول نہیں جاتے، اس میں 30ملین بھارت کے بچے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حالت بھارت اور پاکستان دونوں سے بہتر ہورہی ہے۔ پاکستان دنیا میں آمدنی کے اعتبار سے 61 ویں نمبر پر ہے لیکن تعلیمی اعتبار سے اس کا نمبر 99 واں ہے، پاکستان کے بعد انگولا اور دوسرے افریقی ممالک کا نمبر ہے، انگولا کا تعلیمی نمبر سوواں ہے، اس سے آگے ایتھوپیا اور دوسرے افریقی ملک ہیں، اور بہت جلد ہم جہالت میں افریقی ملکوں کے ہم پلہ ہوجائیں گے۔ مسئلہ صرف خواندگی کا نہیں ہے، محض معمولی درجے میں خواندگی کو علم نہیں کہا جاسکتا۔ جو حقیقی علم ہے وہ اسکولوں، کالجوں میں مفقود ہوگیا ہے۔ اس وقت ہمیں زیادہ ضرورت فنی تعلیم کی ہے۔ وہ تعلیم جو انگریز نے کلرک سازی کے لیے شروع کی تھی اب بے کار ہوگئی ہے۔ ملک کو کلرکوں کی نہیں، ٹیکنیکل افراد کی ضرورت ہے۔ تعلیم کو بھی اس لحاظ سے فنی ہونا چاہیے، ورنہ ڈگریاں لے کر نوجوان گھومتے رہیں گے اور ملازمتوں کے دروازے اُن کے لیے بند ہوں گے۔
یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اچھے اسکول قائم کرے اور ان میں اچھی تعلیم کا انتظام کرے۔ لیکن حکومت اچھے اسکول تو کیا جو اسکول ہیں وہ بھی بند کررہی ہے، ان کی جگہ نیلام کی جارہی ہے، کالج بھی بیچے جارہے ہیں اور تعلیم کو تجارت بنادیا گیا ہے۔ امیر لوگ اچھی تعلیم بھاری فیس دے کر خرید سکتے ہیں، لیکن غریب کیا کریں؟ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں تو بھی وہ جاہل ہی رہتے ہیں، صرف حرف شناس ہوجاتے ہیں۔ گلیوں محلوں کے چھوٹے چھوٹے اسکولوں کی فیس بھی متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہے۔ حکومت طرح طرح کے ٹیکس وصول کرتی ہے، اس میں تعلیم کے نام پر اقرا ٹیکس بھی شامل ہے، لیکن حکومت تعلیم پر خرچ برائے نام کرتی ہے۔ اور اب تو وہ تعلیم کو کمرشل تعلیمی اداروں کے حوالے کررہی ہے کہ وہ جانیں اور قوم، ہماری اب کوئی ذمے داری نہیں رہی۔ ان حالات میں والدین کیا کریں؟ اگر وہ بچوں کو اسکول اور بہت اعلیٰ معیار کے اسکول میں بھیج دیں لیکن خود ان کی پڑھائی لکھائی کو نہ دیکھیں تو یہ بھی غلط ہوگا۔ بچوں کی تعلیم میں والدین کو خصوصاً مائوں کو ضرور دلچسپی لینی چاہیے، لیکن یہ غلط ہے کہ تعلیم کو عذاب بناکر بچے کے دل و دماغ پر مسلط کیا جائے۔ اُس کو اپنی فطری استعداد اور رفتار سے پڑھنے دیں، زیادہ تیز دوڑانے کی کوشش نہ کریں۔ اس کوشش میں بچے کی صحت اور نفسیات دونوں کے لیے خطرہ ہے، اور یہ خطرہ آپ ہرگز مول نہ لیں۔
(2تا8 اپریل1999ء)