حج کیا ہے؟

حضرت دائودؑ کی دعا

حضرت دائودؑ نے یہ دعا اُس وقت مانگی جب ان کے ایما پر طالوت اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر جالوت کے مقابلے پر نکلا اور پھر اسے ایک بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا، تب اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی کہ حضرت دائودؑ نے جو اُس وقت تک ابھی ایک کم سن نوجوان تھے، جالوت کو سرِ میدان قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یعنی حضرت دائودؑ کو ان کا سردار بنادیا۔
’’اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جمادے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔(البقرہ: 250)

تحریر: عمر عبید حسنہ۔ترجمہ: خالد محمود
اسلام کی بنیاد جن عبادات پر قائم ہے وہ ساری کی ساری اعتقادی، عقلی اور قلبی عزائم کی عملی تعبیر ہیں۔ یہ دنیوی مصائب و آلام کی تندی و ترشی سے نجات حاصل کرنے کی ازلی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ شاہراہِ حیات کے یہی وہ مقامات ہیں جہاں سے انسان اپنا زادِ راہ حاصل کرتا ہے۔
یہ بات ہر قسم کے شکوک سے مبّرا ہے کہ ہر اسلامی عبادت کا دینِ اسلام میں اپنا مقام، اپنی اہمیت اور اپنے فوائد ہیں (اور اس حیثیت میں وہ دوسری عبادات سے الگ تھلگ نہیں)۔ ان تمام عبادات میں سے حج اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ ساری عمر میں (صاحبِ استطاعت مسلمان پر) ایک بار فرض ہے، تاکہ وہ خدا کے گھر، نزولِ وحی کے مقامات اور نبوی اماکن و مقامات کی طرف سفر کریں اور اپنی عمر کے کچھ ایام اس زمان و مکان کے حصار میں بسر کریں جو اسلام کی ابتدائی تحریک کا قلعہ ثابت ہوئے۔ اس تحریک کے ابتدائی خطوط غارِ حرا سے نمایاں ہوئے۔ پھر امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ دعوت اور تحریک تمام بنی نوعِ انسان تک پہنچی۔ گویا مسلمانوں سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اوّلین ماخذ کی طرف پلٹیں۔ یہ مطالبہ اور اس کی اہمیت ہروقت موجود ہے۔
ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کو تعمیر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خالص توحید کی بنیادوں پر ایک گھر بنانے اور اسے نفسی، سیاسی، اقتصادی غرضیکہ ہر قسم کے شرک سے پاک کرنے، نیز لوگوں کو حج کے لیے بآواز بلند ندا کرنے کا حکم دیا، تاکہ وہ اپنے ہی لیے نفع رساں مقامات پر حاضر ہوں اور ان معلوم و متعین دنوں میں اللہ کو یاد کریں۔
حج کی ادائیگی کے لیے ایسے سربرآوردہ اور نمایاں حضرات بھی حاضر ہوتے ہیں جو اپنے سینوں میں مسلمانوں کا درد لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ معاملات کو نہایت غور سے اور قریب سے دیکھتے ہیں۔ پھر وہ سارے الگ الگ اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ یقیناً اس میں اجتماعی بھلائی کے سامان اور حکمت پوشیدہ ہے۔
اسلام نے حج کو جہاد کا ایک دروازہ قرار دیا ہے۔ حج کے لییے سفر، سفرِ جہاد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیوں کا ایک دیدار بھی ہے اور دینی منافع کا حصول بھی۔ اگر اس سفر کے لیے یہ لازم اور فرض کرلیا جائے کہ وہ مکمل اور بلند مقاصد اور احساسِ امانت و ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا جائے گا تو یہ سفر ایک تحریک بن جاتا ہے۔ لیکن باعثِ افسوس ہے کہ عام طور پر مسلمان حج کے مقاصد سے، اس کے مناسک سے، اس کی حکمتوں سے اور اس طرح کے منافع سے بہت پیچھے نظر آتے ہیں۔ حج محض چند اشکال، چند رسوم و اعمال یا چند حرکات کا مجموعہ نہیں ہے، لیکن اس کی روح پیش نظر نہ ہو تو ایسا ہی دکھائی دے گا۔ یہ وہی پسماندگی اور بے مقصدیت ہے جو ہمارے تمام مظاہر حیات میں منعکس ہوچکی ہے، حتیٰ کہ ہماری عبادات میں بھی سرایت کرکے انہیں ان کے معانی اور مقاصد سے دور لے جارہی ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان عبادات کی کوئی اہمیت نہیں مانتے، نہ انسانی زندگی میں ان کی افادیت سمجھتے ہیں۔ اور یہ کیفیت اس درجے کو پہنچ چکی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی اور سلسلے میں اپنے مال کو خرچ کرنا زیادہ نافع اور مفید ہے، بجائے اس کے کہ اسے دین کے کسی حکم کی تعمیل میں خرچ کیا جائے۔
حج کے معاملے میں اس ذہنی فساد کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے مطلوب مقاصد کے حصول کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ لاکھوں انسان جاتے ہیں اور بیشتر جیسے جاتے ہیں، صفات کے لحاظ سے ویسے ہی واپس آجاتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم اس عظیم خطرے کا احساس کرسکتے ہیں جو ممکن ہے کہ تبدریج حج کو اس کے دینی مقاصد اور اس میں مخفی مسلمانوں کے دنیوی فوائد سے ہی خالی کردے، اور مسلمان ایک جگہ اس طرح جمع ہوکر بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں جس طرح دنیا کی کوئی ملّت یکجا نہیں ہوتی اور نہ ہوسکتی ہے۔
ملکوں کے باہمی تصادم، حکام کے باہمی افتراق، آپس کے اختلاف اور ہمارے انتشار اور تفریق کے لیے استعمار کی چالوں جیسے موانع کے باوجود حج کا سالانہ اجتماع یہ واضح کردیتا ہے کہ مسلمانوں کا اپنے دین پر ایمان حکومتوں کے افتراقی فلسفوں سے کہیں زیادہ قوی ہے، اور ان کا عقیدہ مروجہ سیاستوں سے زیادہ پائیدار ہے۔ سو تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے حج کو ایسا فرض بنایا ہے جو کسی حکومت کے اختیار یا ظالم حاکم کے منع و استبداد کا تابع نہیں۔
حج ایک ایسی عبادت اور سفر ہے جو:
(1) حج کرنے والوں کو اس روشن ماضی سے جوڑ دیتا ہے جو ابوالانبیا سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سپرد کردینے سے عبارت ہے۔
(2) ایک فرد اپنی ایک ایک کوتاہی اور ایک ایک غلطی کے احساس کے ساتھ آتا ہے اور بہتر زندگی کے لیے اعراض کناں حضورِ حق جھک جاتا ہے۔
حج اپنے ماضی کو تمام معاصی سمیت ترک کرکے نئی زندگی شروع کرنے والے نئے مسلمان کی ولادتِ ثانیہ ہے۔ وہ مستقبل کی جانب ایک ایسا سفر ہے جس میں خطاکار ماضی سے یکسر مختلف زندگی کا عزم ہوتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے حج کیا اور اس دوران غلط باتوں اور معاصی سے دور رہا، وہ اس کی ماں کے اسے جننے کے دن کی طرح گناہوں سے بالکل پاک واپس آئے گا۔ (متفق علیہ)
حج صرف نفس کی حد تک ماضی کی طرف متوجہ ہونے کا اور اس کے محاسبہ کا ہی نام نہیں، بلکہ اس میں انسان اپنی تاریخ کے مطالعے کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے۔ یہ سفر زمانے کی وسعتوں کو سمیٹ لیتا ہے۔ ابتدائے اسلام کی نشانیاں نمایاں ہوجاتی ہیں، جیسے دعوت، ہجرت، حرکت، ایثار، جہاد، قربانیاں، فتنوں کا مقابلہ، معاہدات، فتح، شکست، حقائق، تعلیمات۔
ا.سی طرح حج دوسرے بہت سے منافع کے ساتھ عالم گیر اسلامی اخوت کی دولت بھی عطا کرتا ہے۔ یہ اپنے اجتماعی تشخص کا ایسا مظاہرہ ہوتا ہے جس کی مثال سوائے حج کے دنوں کے انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ سفر اور ایک خاص علاقے میں اجتماع، جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اسے ان کا اختیاری معاملہ نہیں ٹھیرایا، اس کی اہمیت ان اقوام سے پوچھو جو اس نعمت کی روح سے محروم ہیں۔
آج کل ہم اپنے ہی تاریخ، جغرافیہ کے ماہرین اور علوم معاشرت و دین کے اپنے ہی دانشوروں کی تقریبات کی خبریں اکثر سنتے ہیں اور ان اجتماعات میں اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ تاریخی تعمق حاصل کرنا چاہیے اور ظہورِ حوادث کے وقت کے احوال و اسباب کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ حقیقت غیر متعلق اقدار سے مبرا ہوکر ہمارے سامنے آجائے اور اس طرح کھوئی ہوئی آن بان دوبارہ حاصل کی جائے۔ اگر واقعی یہ مقاصد پیش نظر ہیں تو حج کیوں نگاہوں سے اوجھل ہے؟ انہی منابع و ماخذ کی طرف رجوع ہی تو ہے جو ہمارا سرمایہ ہیں۔ یہ رہنمائی کرنے والے ماضی کی طرف توجہ ہے، معاصی سے توبہ ہے اور بحیثیت مسلمان ایک نئی زندگی شروع کرنے کا آغاز ہے۔
اب ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر یہ مقاصد حاصل نہیں ہورہے ہیں، اگر ہر مسلمان کی حج کے بعد کی زندگی اس کی سابقہ زندگی سے مختلف اور اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوتی، اور اگر مسلمان ارضِ نبوت پر قیام کرنے کے بعد بھی اپنے اندر وہ حوصلہ نہیں پاتا جو قرونِ اولیٰ کے لوگوں میں تھا، تو اس کی وجہ کیا ہے؟