جماعت اسلامی کے تحت عظیم الشان کراچی عوامی مارچ
عروس البلاد کراچی مسائل کا جہنم ہے۔ یہاں زندگی اپنی فطرت سے بہت دور ہے۔ شہر کے در ودیوار اپنی تباہی وبربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے اس شہر کی اہمیت بہت زیادہ ہے، لیکن اس کی یہ خوش نصیبی ایسا لگتا ہے بدنصیبی بن گئی ہے، اور یہ شہر عالمی سازشوں کا گڑھ بن گیا ہے۔کراچی شہر تجارتی و کاروباری چہل پہل میں اپنی مثال آپ تھا، یہ روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا… لیکن اب یہ بلدیاتی مسائل، اقتصادی سہولتوں، سماجی، سرکاری، انتظامی اور معاشی امور کی انجام دہی کے لحاظ سے دنیا کا بدترین شہر ہے۔ ماضی کا خوب صورت شہر افسوسناک زوال کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ اس کا چہرہ بدانتظامی سے مسخ ہوکر… صوبائی، وفاقی، شہری، فوجی اور سول حکومتوں کی اجتماعی بے حسی اور سفاکی کا شکار ہوکر آج دیدۂ عبرت نگاہ بن چکا ہے۔ ماضی میں یہاں روزانہ کی بنیاد پر موت بڑی تعداد میں ملتی تھی، اب وہ ملنا تو کم ہوئی ہے لیکن لوگوںکو جھولی جھولی بھر بھر کے اذیت دینے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اس شہر کو برباد کرنے میں عالمی ایجنڈے اور ضرورت کے تحت اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے۔ یہ اس شہر کے لوگوں کو اذیتیں، تکلیفیں اور موت بھی دیتے رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کاکمال یہ ہے کہ مگرمچھ کی طرح آنسو بھی خوب اور تواتر سے بہاتے ہیں۔ اس شہر کو اگر کسی نے اپنا سمجھا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کے کارکنان نے اپنا وقت، پیسہ اور جان دے کر شہر اور اس کے لوگوں کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ جماعت اسلامی کو میئر عبدالستار افغانی کے دور میں خدمت کا موقع ملا تو اس نے یہاں کے لوگوں کو بڑے بڑے پروجیکٹس اور منصوبے دیے، جب نعمت اللہ خان کو موقع ملا تو انہوں تباہ شدہ شہر کو ایک بار پھر کم وسائل اور کم اختیارات کے باوجود جذبے، لگن اور ایمان داری کی طاقت سے ایک پُررونق شہر میں تبدیل کردیا۔ لیکن پھر جب ’’اپنے لوگوں‘‘ کے پاس یہ اختیارات آئے تو اس کی تباہی وبربادی کے دن دوبارہ شروع ہوگئے اور اس کا تسلسل جاری ہے۔ امید تھی کہ ’’نئے پاکستان‘‘میں عمران خان کے دعووں کے مطابق کچھ تبدیلی آئے گی۔ شہر کے لوگوں نے انہیں ووٹ بھی دیے، خود عمران خان کو اس امید پر جتایا کہ وہ اس شہر کے آنسو پونچھیں گے، لیکن لوگوں کو جتنی تیزی سے موجودہ حکومت سے مایوسی ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایسے میں جماعت اسلامی نے پورے ملک میں آئی ایم ایف کی غلامی، بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف جو منظم تحریک سراج الحق کی قیادت میں شروع کی ہے وہ کراچی کے شہریوں کے لیے بھی امید کا پیغام ہے۔ صوبے اور ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کراچی کو اس کے حقوق اور اختیارات کی فراہمی… بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی خستہ حالی اور صفائی ستھرائی سمیت شہریوں کو درپیش بے شمار مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی میدان میں ہے۔ شروع کی گئی اس تحریک ’’کراچی کو عزت دو، حقوق دو‘‘ کے سلسلے میں اتوار 30 جون کو سہراب گوٹھ سے مزارِ قائد تک عظیم الشان ’’کراچی عوامی مارچ‘‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اپنے کلیدی خطاب میں عظیم الشان مارچ کے انعقاد پر اہلِ کراچی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کا مارچ اور یہ زبردست احتجاجی کارواں نہ صرف اہلِ کراچی بلکہ کراچی سے چترال تک ملک کے 22کروڑ عوام کے لیے ہے۔ آج ملک اور قوم ایک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، شدید مایوسی اور مشکلات سے دوچار ہیں۔ روشنی کی کوئی کرن اور امید نظر نہیں آتی۔ مایوسی کی اس گھٹاٹوپ رات میں جماعت اسلامی امید کا روشن چراغ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ میں قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا، لیکن افسوس کہ آج عمران خان قوم سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں، عوام آج جن مشکلات کا شکار ہیں وہ حکمرانوں اور موجودہ حکومت کی نااہلی و نالائقی کی وجہ سے ہیں۔ ہم پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ اپنے پلیٹ فارم سے تھرڈ آپشن کے طور پر عوام کے درمیان موجود رہیں گے۔ موجودہ حکومت وینٹی لیٹر پر ہے اور اب اس حکومت سے عوام کو کوئی امید اور توقعات نہیں۔ جماعت اسلامی ملک میں آئی ایم ایف کی حکومت قبول اور تسلیم نہیں کرتی، ہم آزاد اور خودمختار قوم ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ سینیٹر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اہلِ کراچی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے آج جوق درجوق گھروں سے نکل کر عوامی مارچ میں شرکت کرکے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کے 22کروڑ عوام کی ترجمانی کی۔ آج ملک میں بے شمار مسائل ہیں… بجلی، پانی کا مسئلہ ہے، اور اب تو سانس لینے کا بھی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کا کوئی معاشی وژن نہیں ہے، مرغی کے انڈے اور بکری کے بچے فروخت کرکے معیشت کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ حکمرانوں کی زبان ہی نہیں پھسلتی بلکہ ان کی سوچ بھی پھسل گئی ہے۔ غزوۂ احد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ اس کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے کہاکہ سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر ملک میں سینماؤں کی تعداد میں اضافے کی بات کرتا ہے۔ حکمران بتائیں کہ قوم کو تعلیم کی ضرورت ہے یا سینماؤں کی؟ سینماؤں کی تعداد میں اضافہ کرکے عوام کے کون سے مسائل حل ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بھی کچھ نہیں کیا، وعدہ تو کیا تھا مگر عملاً عوام کو بے وقوف بنایا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے دوستی نہیں ہوسکتی، سودی معیشت کی موجودگی میں ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ موجودہ بجٹ میں بھی سود کی ادائیگی کے لیے اربوں روپے رکھے گئے ہیں، سودی معیشت سے نجات کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ عوام کے مسائل صرف جماعت اسلامی اور اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ نظام ہی سے حل ہوسکتے ہیں۔ آج کا مارچ آخری مارچ نہیں، یہ تحریک کا نقطۂ آغاز ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا نیب کی قیادت یا حکومت سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے، ہم عوام کے مسائل کے حل کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے 50لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا، لیکن 50 لاکھ ٹینٹ بھی نہیں دیے۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کو تو روزگار مل گیا ہے، ان کے دو وزیر کابینہ میں ہیں اور ایک اور وزیر کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں کراچی کے مسائل کے لیے بات کرنی چاہیے تھی، مگر وہ تو صرف اپنے لیے مزید وزارت کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے، ملک کی نظریاتی و معاشی شہ رگ ہے۔ کراچی میں K-4کا مسئلہ برسوں سے حل نہیں ہورہا ہے اور عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ گرین لائن کا منصوبہ ادھورا پڑا ہے۔ بلدیاتی حکومت کے جانے کا وقت قریب ہے اور اب ’’کراچی کو پانی دو‘‘ کی باتیں کررہے ہیں۔ پانی سے محروم عوام ٹینکر سے مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ آج پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے بھی پریشان اور شرمندہ ہیں۔ عام آدمی، مزدور،کسان اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے 100دن کی مہلت مانگی اور پھر چھ ماہ انتظار کرنے کا کہا، اب ایک سال ہوگیا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارا پہلا دورِ حکومت ہے، ہم اگلے دورِحکومت میں حالات بہتر کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی میں جماعت اسلامی کے عوامی مارچ کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم نے پانی دو کے بینر شہر میں لگائے، عوام اُن سے پوچھتے ہیں کہ شہری حکومت ان کی ہے اور وہ وفاقی حکومت کا بھی حصہ ہیں، ان کو یہ بینر لگاتے ہوئے شرم نہیں آئی؟کراچی کے عوام کہاں جائیں؟ کراچی کے عوام کے مسائل کون حل کرے گا؟ بلدیاتی حکومت کہتی ہے کہ اس کے پاس اختیار نہیں، صوبائی حکومت مسائل حل کرے گی۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ بلدیاتی حکومت کے پاس اختیارات اور وسائل ہیں، وہ مسائل حل کرے گی۔ دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں اور ذمہ داری دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ مسئلہ کون حل کرے گا؟ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکمران جھوٹے ہیں، انہوں نے عوام سے وعدے بھی جھوٹے کیے، عوام کو کچھ نہیں دیا، جماعت اسلامی عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اس موقع پر انہوں نے تکرار کے ساتھ یہ جملہ دہرایا ’’جھوٹے لوگ جھوٹے وعدے‘‘۔
امیر جماعت اسلامی نے اپنے پُرزور خطاب میں مزید کہاکہ حکمرانوں کی نااہلی و نالائقی نے عوام کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ان حکمرانوں کی نالائقی کی قیمت عوام اور مزدور کیوں ادا کریں؟ موجودہ حکومت پہلے تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتی رہی، لیکن پھر اس نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرلیا اور اس کی مرضی سے بجٹ بنایا گیا۔ ڈیزل، پیٹرول تو باہر سے آتا ہے لیکن حکمران بتائیں کہ انہوں نے چینی، چاول سمیت دیگر اشیاء کو کیوں مہنگا کیا؟ اس لیے کہ وہ شوگر مافیا کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ سپریم کورٹ چینی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لے۔ ہم جو چیزیں یہاں سے باہر بھیجتے تھے ان پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 12جولائی کو عوامی تحریک کے سلسلے میں ملتان میں عوامی مارچ ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی نے عوام سے اپیل کی کہ عوام ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ یہ جدوجہد خون کے آخری قطرے اور آخری سانس تک جاری رہے گی۔
مارچ سے امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں شدید معاشی بحران ہے، ڈالر مسلسل بڑھ رہا ہے، روپے کی بے قدری نے مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہے، حکومت نے ٹیکسوں کی بھرمار کردی ہے، صوبائی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، وفاقی حکومت کا بھی کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے، وفاقی حکومت نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے تھے ان میں سے کچھ نہیں ملا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ کراچی ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیاگیا ہے، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔کوئی حکومت اور پارٹی کراچی کو اون کرنے پر تیار نہیں،کراچی سے ووٹ لینے والے ووٹ لے کر عوام کو بھول جاتے ہیں۔ موجودہ مینڈیٹ لینے والوں اور حکومت بنانے والوں نے بھی کراچی کے ساتھ ماضی جیسا سلوک کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے ’’کراچی کو عزت دو، عوام کو حقوق دو‘‘ کی تحریک کا آغازکردیا ہے، آج کا یہ عظیم الشان مارچ اس تحریک کا نقطۂ آغاز ہے، سہراب گوٹھ تا مزار قائد ہونے والے عظیم الشان مارچ میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ساتھ عوام نے بھرپور انداز میں شرکت کرکے حکمران جماعتوں اور حکومتوں کو مسترد کردیا ہے جن میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی شامل ہیں۔ آج ہم اعلان کرتے ہیں کہ آج سے شروع ہونے والی تحریک مسائل کے حل تک جاری رہے گی۔ ہم کراچی کو اس کا کھویا ہوا مقام، عزت، وقار اور عوام کے حقوق دلوائیں گے۔ عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور اس تحریک کا حصہ بنیں۔
مارچ میں منظور ہونے والی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پانی کی مسلسل فراہمی کے لیے K-4 منصوبہ فوری شروع کیا جائے، اور کراچی میں ٹینکر مافیا سے نجات دلاکر کراچی کے تمام علاقوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ بجلی کی مسلسل اور بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے، ’کے الیکٹرک‘ مافیا کو کنٹرول کیا جائے، اور اووربلنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ کراچی سے کچرے کی صفائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کیے جائیں، اور بلدیاتی اداروں کی نااہلی دور کی جائے۔ کراچی کی سڑکوں کی تعمیرنو کی جائے اور اس کام کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں۔ کراچی میں کم از کم ایک ہزار بسوں پر مشتمل بسوں کا فلیٹ فوری چلایا جائے۔ گرین بس منصوبہ فوری مکمل کیا جائے۔ سرکلر ٹرین کا منصوبہ فوری شروع کیا جائے تاکہ ٹرانسپورٹ کے مسائل کو کم کیا جاسکے۔ کراچی کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے کم از کم ایک لاکھ ملازمتوں کا اعلان کیا جائے۔ کراچی کے عوام اور تاجروں پر سے ظالمانہ ٹیکس واپس لیا جائے اور ایف بی آر کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نجات دلائی جائے۔ شہر میں بڑے ٹرالروں کا داخلہ بند کیا جائے۔ پاکستان اسٹیل کے ریٹائرڈ ملازمین کے تمام واجبات فوری طور پر ادا کیے جائیں۔
’’کراچی کو عزت دو‘‘ مارچ سے نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، امیر ضلع جنوبی و رکن سندھ اسمبلی سید عبدالرشید اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ مارچ کے اختتام پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے دعا کرائی۔
جماعت اسلامی کراچی کی اس شہر کی خدمت کے لیے بلاشبہ ایک تاریخ ہے، اور اس کی تعمیر و ترقی میں اس کا خون بھی شامل ہے۔ وہ اپنے فرض سے کبھی غافل نہیں رہی۔ اس کے کارکنان ہر مشکل وقت میں اپنے شہر کے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اس کے منتخب لیڈر چاہے ماضی میں نعمت اللہ خان ہوں، محمد حسین محنتی ہوں،نصراللہ شجیع ہوں، یونس بارائی ہوں، یا حالیہ انتخابات میں لیاری سے منتخب ہونے والے ایم پی اے سید عبدالرشید ہوں، یہ اپنے گلی محلوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اور آج پھر ان کے مسائل کے حل کے لیے ان سے دو قدم آگے موجود ہیں، اور جماعت اسلامی اس وقت پورے ملک کی طرح شہر کراچی کے تشخص اور اس کے لوگوں کے جائز حقوق دلوانے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے لوگ بھی اپنی حالت پر رحم کھاکر اس کا ساتھ دیں اور’’اپنے اپنے‘‘کا نعرہ لگانے والی ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اب نئے آزمائے ہوئے لوگوں سے دھوکا کھانا بند کریں۔ بار بار دھوکا کھانے سے بہتر ہے کہ جن لوگوں نے آپ کی بے غرض خدمت کی ہے اُن کو مضبوط کریں، اور یہ کام شہر کے نوجوان بہ خوبی کرسکتے ہیں، کیونکہ اس شہر کو مزید تباہی سے اگر کوئی بچاکر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے تو وہ یہاں کا نوجوان طبقہ ہی ہے، جو جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر شہر میں حقیقی اور پائیدار تبدیلی کو ممکن بناسکتا ہے، اور اس طرح ’’جہنم ‘‘کا نمونہ بنے شہر کو امن وسکون اور راحت کا شہر بنایا جاسکتا ہے۔