ڈاکٹر محمد ساعد

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
چند روز قبل برادرم پروفیسر ظفر حجازی نے یہ افسوس ناک خبر دی کہ ڈاکٹر محمد ساعد انتقال کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!۔
ڈاکٹر محمد ساعد کون تھے؟
خدشہ ہے کہ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ تحریکِ اسلامی کی جدوجہد میں شریک رہنے والے اس شخص سے ہمارے پچاس فی صد (یا کچھ کم و بیش) قارئین واقف نہ ہوں گے۔
غالباً۱۹۷۸ء کے موسم گرما میں ان سے شناسائی ہوئی، اور پہلی بار ملاقات بھی۔ وہ تنظیم اساتذہ پاکستان صوبہ سرحد کے صدر تھے۔ ۲۷ تا ۲۹ جولائی ۱۹۷۸ء انھوں نے سیدو شریف میں تنظیم کی کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس منعقد کرائی۔ راقم گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا۔ مجھے بھی کانفرنس میں مقالہ پیش کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ (یہ الگ بات ہے کہ مقالہ پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آئی، کیوں کہ مقالہ نگار کثیر اور وقت کم۔ فقط بہت اہم شخصیات کو موقع دیا گیا)
یہ بڑی یادگار کانفرنس تھی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس میں جناب ریاض الخطیب (پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر) اور جسٹس عبدالحکیم (گورنر صوبہ سرحد) نے بھی خطاب کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد ساعد نے بھی لمبی تقریر کی تھی۔ کانفرنس میں بھی بہت سے دوست شریک ہوئے۔ پروفیسر نصیر الدین ہمایوں، پروفیسر ظفر حجازی، پروفیسر ملک محمد حسین… (ملک صاحب نے کانفرنس کے اختتام پر، ایک روز ہمیں بحرین اور کالام کی سیر کرائی تھی۔)
ڈاکٹر محمد ساعد نے کراچی یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی تھی۔ بطور اُستاد اُن کا تقرر پشاور یونی ورسٹی میں ہوا۔ قاضی حسین احمد اُس وقت فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔ یوں قاضی صاحب مرحوم اُن کے شاگرد تھے، بلکہ ایک روایت کے مطابق قاضی صاحب کو جغرافیے کے مضمون کی طرف مائل کرنے میں بھی ساعد صاحب کا دخل تھا۔ قاضی صاحب اپنے استاد کا ہمیشہ احترام کرتے تھے۔ بعد ازاں قاضی صاحب خود جغرافیے کے استاد بنے اور سیدو شریف کالج میں لیکچرر رہے۔
پی ایچ ڈی کی ڈگری ساعد صاحب نے برطانیہ کی لیڈز یونی ورسٹی سے حاصل کی تھی۔ اپنے مضمون پر بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انتظامی قابلیت اور اپنے مضمون میں مہارت کے سبب ایک بار پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے اُن کا نام تجویز ہوا، مگر جماعت اسلامی سے تعلق آڑے آیا اور وہ استحقاق کے باوجود، اہم خدمت انجام دینے سے محروم کردیے گئے۔ تعلیمی اُمور و مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی تعلیمی کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔
اشتراکی روس کے انہدام کے بعد، وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں میں قرآن پاک اور اسلامی لٹریچر کی بہت مانگ تھی۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے پشاور میں انسٹی ٹیوٹ فار ریجنل اسٹڈیز (IRS) قائم کیا تھا، عملاً اس کے ناظم ڈاکٹر محمد ساعد تھے۔ اشتراکی روس نے وسطی ایشیا کے مسلمانوں پر ایک بڑا ظلم یہ کیا (جیسا کہ ترکی میں اتاترک نے اپنی قوم کے ساتھ کیا) کہ رسم الخط تبدیل کردیا۔ اشتراکیت کے چنگل سے رہائی کے فوراً بعد روسی(سرے لک) رسم الخط سے چھٹکارا پانا فوری طور پر ممکن نہ تھا۔ اس لیے انسٹی ٹیوٹ نے سرے لک رسم الخط میں قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کے تراجم تیار کرکے وسطی ایشیا کی ریاستوں میں بھیجنا شروع کردیے۔ ڈاکٹر محمد ساعد نے خود بھی سرے لک رسم الخط سیکھ لیا تھا۔ یہ خدمت وہ کئی برس تک انجام دیتے رہے۔ وہاں تراجم کی شدید ضرورت تھی، چنانچہ انسٹی ٹیوٹ نے غالباً تاشقند یا بشکیک میں ایک چھاپہ خانہ قائم کروایا جس میں حکومتِ پاکستان، خصوصاً محمود احمد غازی مرحوم کا تعاون بھی شامل تھا۔
ایک مدت تک وہ صوبہ سرحد جماعت کے نائب امیر رہے (پروفیسر محمد ابراہیم امیر صوبہ تھے)۔ ’’تفہیم القرآن‘‘ میں بعض مقامات اور جنگوں وغیرہ کے نقشے شامل ہیں۔ یہ نقشے ڈاکٹر محمد ساعد صاحب کے تیار کردہ ہیں۔ ابتدا میں تفہیم میں شامل نقشوں کی صحت میں کچھ کمی تھی، ساعد صاحب خود سعودی عرب گئے اور فنِ جغرافیہ کی مدد سے متعلقہ مقامات کے نئے اور صحیح تر (Accurate) نقشے تیار کیے۔ علمی تحقیق کے حوالے سے یہ اُن کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
کئی برس ہوتے ہیں راقم پشاور گیا تو ملاقات کے لیے اُن کے مکان پر حاضری دی۔ افغان جنگ ختم ہوچکی تھی، وسطی ایشیا کی ریاستوں میں حالات کچھ متغیر ہوگئے تھے، یا شاید کچھ اور وجوہ سے اُن دنوں انسٹی ٹیوٹ غیر فعال تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی صحبت کے آخر میں مجھے ساعد صاحب سے مذاق سوجھا۔ حیات آباد میں اُن کے مکان پر حاضری دی تھی۔ اس کا نمبر ۴۲۰ تھا اور گلی نمبر ۱۱۔ میں نے کہا: ساعد صاحب! مکان کے نمبر کی مناسبت سے گلی کا نمبر دس ہونا چاہیے تھا۔ ساعد صاحب نے قہقہہ لگایا اور سب نے لطف لیا۔
ساعد صاحب پاکستان کی سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ کبھی کبھی وہ منصورہ لاہور آتے تو ملاقات ہوجاتی تھی۔آخری ملاقات کئی ماہ، بلکہ شاید سال بھر پہلے ہوئی تھی۔
غالباً نومبر ۲۰۱۸ء میں جماعت کے اکابر نے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل لینگویجز کی تجدید اور اُسے فعال بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد اقبال خلیل صاحب نے راقم کو بھی فنڈ ریزنگ سیمینار میں شریک ہوکر مقالہ پڑھنے کی دعوت دی۔ راقم نے اسلامی تحقیقی مراکز کی اہمیت پر مقالہ لکھ لیا۔ خیال تھا کہ پشاور جاؤں گا، ساعد صاحب سے ملاقات بھی ہوگی۔ مگر افسوس ہے، نہ جاسکا۔ ساعد صاحب کی زیارت اور ملاقات کا موقع کھودیا۔ (مقالہ سیمینار میں بھیج دیا تھا، پڑھ کر سنایا گیا۔)
حق تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے۔آمین!
تنظیم اساتذہ پر واجب ہے کہ ڈاکٹر محمد ساعد کے کارنامے کو اجاگر کرے۔