گزشتہ شمارے (28 جون تا 4 جولائی) میں عبدالمتین منیری نے بھارت کے ایک بڑے عالم مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی، سابق استاد دارالعلوم دیوبند، حال پروفیسر دہلی یونیورسٹی کا تبصرہ ہمارے کالم پر ارسال کیا ہے۔ سب سے پہلے تو اتنے بڑے عالم کی ہماری ناپختہ اور کچی پکی تحریروں پر توجہ اور انہیں کسی تبصرے کے قابل سمجھنا ہی ہمارے لیے باعثِ شرف ہے، جس کا شکریہ۔ ہم نہ عالم نہ استاد، تاہم مؤدبانہ عرض ہے کہ ان کا پہلا اعتراض ہے ’’جاری و ساری میں ’ساری‘ کو غلط کہنا اور اس کا معنی سرایت کرنے والا قرار دینا بجائے خود غلط ہے۔ ایسا کہنا عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے جہاں سے یہ لفظ آیا ہے۔ ساری کا معنی عربی میں وہی ہے جو جاری کا ہے۔‘‘
محترم، ہمارے مذکورہ کالم کو ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔ ہمیں عربی دانی کا کوئی دعویٰ نہیں۔ دارالعلوم دیوبند کو صرف اندر سے دیکھنے کے لیے جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اساتذہ کرام سے محض ملاقات ہوئی تھی، استفادہ نہیں کرسکے۔ ہم نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ ’ساری‘ غلط ہے۔ لغت کے حوالے ہی سے لکھا کہ ’’ساری عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے اثر کرنے والا، سرایت کرنے والا‘‘۔ پروفیسر صاحب اسے غلط قرار دیتے ہیں۔ اب وہ غلط قرار دے رہے ہیں تو مان لیتے ہیں، لیکن لغت میں یہی ہے جو ہم نے لکھا ہے۔ نوراللغات، مرتبہ مولوی نورالحسن نیّر (مرحوم) نے ’ساری‘ کا مطلب لکھا ہے ’’سرایت کرنے والا، اثر کرنے والا‘‘۔ سند میں ایک شعر ’رشک‘ کا دیا ہے:
سارے امراض ہوں اے شافیِ مطلق اچھے
مرضِ عشق دلوں میں یونہی ساری رکھنا
ممکن ہے کہ مولوی نورالحسن کو عربی نہ آتی ہو، اس میں ہمارا کیا قصور! علمی اردو لغت (وارث سرہندی) اور فیروز اللغات میں بھی ’ساری‘ کا مطلب سرایت کرنے، اثر کرنے والا دیا ہے۔ اب بتائیے ہم کیا کریں! ہماری تو ساری علمیت ان لغات ہی کی مرہونِ منت ہے۔ یہ لغات بھارت میں بھی دستیاب ہیں، ان کی اصلاح کی مہم چلائیں۔
بہت ہی محترم پروفیسر عبیداللہ قاسمی کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’قصائی‘‘ املا کو غلط کہا گیا ہے۔ یہ شرارت بھی اردو لغات کی ہے جو کہتی ہیں کہ اصل لفظ قصائی نہیں ’قسائی‘ ہے، اور بطور سند مرزا سودا کا شعر بھی دیا تھا۔ گوشت فروش کو قصاب ہی کہنا چاہیے، اس سے کسی کو اختلاف نہیں، لیکن ’’قصائی‘‘ املا غلط ہی ہے، اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ ’قسائی‘ عربی لفظ ’قساوت‘ ہی سے ہے۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ قسائی کو قساوت سے مشتق کہنے میں مسلمانوں کی ایک برادری کی توہین محسوس ہوتی ہے تو کیوں نا انہیں قصاب کہا جائے۔ برسوں پرانی بات ہے کہ لاہور میں انجمنِ قریشیاں (گوشت فروشوں) کی طرف سے دکانوں پر یہ اپیل لگائی گئی تھی کہ ’’ہمیں قسائی نہ کہا جائے، قصاب کہا جائے‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں قسائی کہلوانے میں توہین محسوس ہوتی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ عرب قسائی کا لفظ قساوت ہی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جدہ سے شائع ہونے والے اخبار ’اردو نیوز‘ کے مدیراعلیٰ مختارالفال سے جب ہم نے ایک ساتھی کے ساتھ ان کے سلوک پر توجہ دلائی تو ان کا جواب تھا ’’دیکھو ہاشمی، میں قسائی نہیں ہوں‘‘۔ اور یہ لفظ انہوں نے گوشت فروشی کے معنوں میں استعمال نہیں کیا تھا بلکہ قساوت کے حوالے سے کہا تھا۔ ہم پھر اعتراف کریں گے کہ ہمیں عربی زبان سے واقفیت نہیں، اور ایک بہت بڑے عالم کے فیصلے سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں، تاہم اتفاق بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک گزارش بھی ہے کہ حضرت عبیداللہ قاسمی اپنے تبصروں سے نوازتے رہیں، ہماری اصلاح ہوتی رہے گی۔
گزشتہ دنوں ایک صاحب نے دعوت نامہ بھیجا جس میں درج تھا کہ ان کی بیٹی ’’رشتۂ ازواج‘‘ میں منسلک ہورہی ہیں۔ محترم نے 42 سال مکہ مکرمہ میں گزارے ہیں، یہ بڑی سعادت کی بات ہے، تاہم اس عرصے میں عربی تو خوب آگئی ہوگی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ازواج، زوج کی جمع ہے، یعنی بیویاں۔ اب ذرا رشتہ ازواج پر غور کریں۔ بہرحال شادی تو ہوگئی لیکن اچھا ہوتا کہ ’رشتہ ازدواج‘ میں منسلک کرتے۔
زوج کے حوالے سے یاد آیا کہ ہم لوگوں نے اس کی مونث ’زوجہ‘ بنالی ہے جو غلط ہے۔ زوج عربی میں شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عورت، مرد کے جوڑے میں سے ہر ایک کو زوج کہتے ہیں۔ اردو میں زبانوں پر زوجہ بمعنی بیوی ہے، مثلاً زوجہ منکوحہ، زوجہ مطلقہ۔ زوج سے زوجیت مصدر بنالیا گیا ہے۔ نکاح کے موقع پر بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں کو زوجیت میں لیا۔
کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ ہم خود غلط ادا کرتے ہیں، مثلاً فگار، فگن وغیرہ۔ ان دونوں کے حروف اوّل بالکسر ہیں یعنی فِگار بروزن نگار، اور فِگن فارسی کا لفظ ہے، افگن کا مخفف۔ ہم اسے ’ف‘ پر زبر کے ساتھ بولتے رہے۔ اسی طرح فِلاسفر ہے۔ یہ انگریزی کا لفظ ہے اور ’ف‘ بالکسر ہے، لیکن زبانوں پر ’ف‘ پر زبر کے ساتھ رائج ہے۔ ’فکر‘ بروزن ذکر ہے، یعنی ’ک‘ ساکن ہے، لیکن عام لوگ ’ک‘ پر زبر کے ساتھ بولتے ہیں۔ فکر عربی کا لفظ ہے، جمع افکار ہے۔ یہ لکھنؤ میں مذکر مستعمل ہے جیسے ’’فکر بڑھتا ہے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے‘‘۔ عربی میں ’فکرت‘ کا مطلب ہے بے معنی اندیشہ۔ قاآنی(ایرانی شاعر) نے بکسراول و فتح دوم کیا ہے یعنی بروزن نظر۔ ایک استاد کا شعر ہے:
قرار آ ہی گیا، غم میں جی سنبھل ہی گیا
وہ دن کہ جو تھا فکر جان جانے کا
دہلی میں مذکر اور مونث دونوں طرح مستعمل ہے، جیسے ’’علالت کی خبر سن کر فکر پیدا ہوگئی‘‘۔ استاد ناسخ کا شعر ہے:
کیوں دلا فکر پڑی آن خدا حافظ ہے
کوئی ہرگز نہیں نقصان، خدا حافظ ہے
شعراء حضرات فکرِ سخن کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تعلق اس بات سے ہے کہ فکر کی نوعیت کیا ہے۔ اندیشہ زیادہ ہے تو فکر کو مذکر کرلیں۔ خیال رہے کہ یہ بات ازراہِ تفنن لکھ دی ہے، اس کا عربی دانی سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارے ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے اینکرز تو بڑے اطمینان سے غلط سلط تلفظ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ایک بہت بڑے چینل کی بہت زیادہ بولنے والی اینکر تو مشکل کے ’ک‘ کو بھی بالفتح کردیتی ہیں یعنی مشکَل۔ لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کے طولِ کلام کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ وہ تو انگریزی کے لفظ منِٹ (60 سیکنڈ والا) کو بھی منٹ MINT کہتی ہیں۔ یعنی جو سلوک اردو سے ہے وہی انگریزی سے۔ اس میں کوئی امتیاز نہیں۔ ویسے MINT ٹکسال کو کہتے ہیں جہاں کبھی سکے ڈھلتے تھے، اب صرف نوٹ چھپتے ہوں گے۔