حکومت اور اپوزیشن کشیدگی اور نئے پاکستان میں وفاداریاں تبدیل کرنے کا کھیل

پنجاب سے گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی ایک سیاسی ڈویلپمنٹ نے اب پنجاب ہی نہیں پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اپوزیشن بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آئی ہے اور حکومت نے بھی اپنے تیر و تفنگ تیز کرلیے ہیں۔ یہ سیاسی ڈویلپمنٹ اُس وقت منظرعام پر آئی جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے 14 ارکانِ صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات نہ صرف خفیہ تھی بلکہ اسے اپنی اپنی قیادتوں سے بھی چھپایا گیا تھا۔ سیاسی رہنمائوں اور خصوصاً مخالف سیاسی رہنمائوں کا کسی مخالف سیاست دان یا رہنما سے ملنا جمہوریت میں کوئی بری بات نہیں۔ یہ گھر، نجی تقریبات، اسمبلی کے اجلاسوں اور اسمبلی کیفے ٹیریا میں ملتے رہتے ہیں، جہاں سیاسی موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی ہے، ایک دوسرے پر تنقید اور طنز بھی کیا جاتا ہے اور اپنی اپنی قیادتوں سے موجود شکایات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ان ملاقاتوں کا پہلے سے کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا، نیز یہ اعلانیہ اور کھلی ہوتی ہیں، اس لیے کسی کو ان پر اعتراض نہیں ہوتا۔ ایسی ملاقاتوں سے صرف میڈیا کو دور رکھا جاتا ہے تاکہ بے تکلفی میں ہونے والی گفتگو اخباری خبروں کا موضوع اور ملنے والے سیاست دانوں کے لیے مشکلات کا باعث نہ بنے، اور میڈیا اپنی من پسند قیاس آرائیوں سے باز رہے۔ لیکن زیرِبحث ملاقات کو میڈیا کے علاوہ سیاسی ساتھیوں بلکہ اپنی اپنی قیادتوں سے بھی خفیہ رکھا گیا، اس خفیہ نفسیاتی کوشش نے اس ملاقات کو اہم بنادیا، بعد میں ہونے والے تبصروں اور قیاس آرائیوں نے مزید مہمیز کا کام کیا۔ ایک اہم سیاسی ذریعے کے مطابق بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے اپوزیشن کے 37 ارکان ملے تھے جو پرواز کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی نے نہ صرف چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے کوششیں کرنے کا اعلان کردیا بلکہ اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ بھی کردیا، اور اسے کوئی غیر معمولی مطالبہ کہنے کے بجائے یہ کہا کہ جمہوریتوں میں وسط مدتی انتخابات کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف حکومت نے اپنے وزرا کو بیان بازی کے لیے مزید چوکس کرکے میدان میں اُتار دیا۔ خود وزیراعظم قومی اسمبلی کے اندر اور بعض دوسرے فورمز پر زیادہ جارحانہ انداز میں سامنے آئے۔ تاہم اصل چوٹ حکومت نے تب ماری جب اپوزیشن کے 15 ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی، اور شاید اُن کے روکنے کے باوجود حکومتی مشیروں نے اس خبر کو لیک کرنا ضروری سمجھا، جس کے بعد سے ملاقات کی تصدیق و تائید کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ایم پی اے یونس انصاری نے کھلے عام دعویٰ کیا کہ اُن کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی، جبکہ جلد ہی سندھ سے ارکانِ اسمبلی کا ایک بڑا گروپ وزیراعظم سے ملاقات کرنے والا ہے۔ تاہم یونس انصاری کے بھائی اشرف انصاری ایم پی اے، رکن قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ، کامونکی سے رکن قومی اسمبلی چودھری ذوالفقار علی بھنڈر، اور شیخوپورہ سے رکن پنجاب اسمبلی محمود الحق نے وزیراعظم سے ملاقات کی دوٹوک تردید کی ہے۔ جبکہ یونس انصاری ایم پی اے، مولانا غیاث الدین، میاں جمیل احمد شرقپوری نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کرنے والوں میں خانقاہ شریف بہاولپور کے رکن پنجاب اسمبلی شعیب اویسی کا نام تو آیا ہے، جبکہ اُن کے چچا اور مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں نجیب الدین اویسی کا کہیں نام نہیں آیا۔ تاہم اُن کے قریبی اور خاندانی ذرائع نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ وزیراعظم سے شعیب اویسی کے ساتھ میاں نجیب اویسی نے بھی ملاقات کی ہے۔ جن ارکان نے ملاقات کی تصدیق کی ہے اُن کا کہنا ہے کہ اپنے حلقوں کے مسائل کے حل کے لیے وہ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم سے ملے ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے چار یا پانچ لیگی ارکان کی ملاقات کو تسلیم کیا ہے، تاہم انہوں نے کہا ہے کہ استعفیٰ دیے بغیر لوٹا بننے والے ارکانِ اسمبلی کے گھروں کا اُن کے ووٹرز گھیرائو کریں گے، جبکہ یہ ارکان نااہل بھی ہوسکتے ہیں۔ اُن کی رائے میں مسلم لیگ (ن) میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں بن رہا۔ جبکہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی فارورڈ بلاک کے حوالے سے کیے جانے والے سوال کا جواب یہ کہہ کر ٹال گئے کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے اپوزیشن ارکان کو توڑنے کا کام تیز کردیا ہے، جبکہ اپوزیشن اپنے ارکان کو روکنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، جس میں شاید وہ بہت زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ ملک کے معاشی، سیاسی اور سفارتی حالات کے دگرگوں ہونے کے باوجود اب تک مقتدر حلقے تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کے خواہشمند ارکان اسمبلی نے بھی یا تو مقتدر حلقوں کے اشارے پر، یا اپنی معلومات اور اندازوں پر (جو زیادہ غلط نہیں ہیں) اپنی کچھاریں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی امور پر آئی ایس پی آر کے بیانات اور ملک کی معاشی صورت حال پر آرمی چیف کے ریمارکس سے ان لوگوں نے یقینا یہی اخذ کیا ہوگا۔ باقی دِلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی پوری تاریخ ہے۔ اس عمل کو اپوزیشن نے لوٹا کریسی کا نام دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ اپوزیشن جماعتوں کے ٹکٹوں پر منتخب ارکان ہی وفاداریاں بدلتے ہیں، جبکہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے فوری طور پر یہ کام کرلیتے ہیں۔ اب تو شاید قانونی مجبوری بھی ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ جس حلقے کے عوام نے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو مسترد کرکے ایک آزاد امیدوار کو کامیاب کرایا ہے، گویا اس حلقے کا مینڈیٹ سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے، اُس حلقے کا منتخب رکن چند دن بعد ہی ایک سیاسی جماعت کس طرح جوائن کرلیتا ہے جس کے خلاف وہ زہر اگل کر اس جماعت کے خلاف عوام کا مینڈیٹ لے کر آیا ہے۔ فاٹا کے ارکان ابتدا ہی سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہوکر ہمیشہ حکمران جماعت میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ وفاق میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت بنتے ہی آزاد کشمیر میں بھی اس پارٹی کی حکومت بن جاتی ہے چاہے اس وقت وہاں کسی اپوزیشن جماعت کی ہی حکومت کیوں نہ ہو۔ 1950ء کے آخری برسوں میں راتوں رات بننے والی ڈاکٹر خان کی ری پبلکن پارٹی نے مغربی پاکستان میں اپنی حکومت بنالی تھی اور ارکانِ اسمبلی کی اکثریت اُس میں شامل ہوگئی تھی یا شامل کرادی گئی تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کی جائز مشترکہ منتخب حکومت بنی تھی، لیکن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی پارٹی نے ان حکومتوں کو توڑ کر لوٹا کریسی کی بنیاد پر وہاں اپنی حکومتیں بنالی تھیں۔ اور آزاد کشمیر میں بھی سردار عبدالقیوم خان کی منتخب حکومت ختم کرکے پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت بنالی تھی۔ 1988ء میں پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے جناب آصف علی زرداری نوٹوں سے بھرے بریف کیس لے کر لاہور آبیٹھے تھے، جبکہ نوازشریف نے بھی نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول کر یہاں نہ صرف اپنی حکومت بنالی تھی بلکہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بڑا ٹف ٹائم بھی دیا تھا۔ چھانگا مانگا اور میریٹ ہوٹل آپریشنز کی اصطلاحیں نوازشریف ہی کے دور میں وجود میں آئی تھیں جب ارکانِ اسمبلی کو اغوا کرکے وہاں قید رکھا گیا تھا تاکہ لوٹے نہ بن سکیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بلوچستان میں سب سے زیادہ نشستیں قاف لیگ کی تھیں مگر ارکان کو توڑ کر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنائی گئی۔ اور پھر حال ہی میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرکے BAP کی حکومت بنائی گئی، اسی پارٹی کا چیئرمین سینیٹ بھی منتخب کرا لیا گیا جس کے خلاف اب مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی متحرک ہوگئی ہے، حالانکہ پیپلز پارٹی نے صادق سنجرانی کی بھرپور حمایت کی تھی، بلکہ اپنے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی منتخب کرالیا تھا۔
اس وقت کی سیاسی کشیدگی میں صورت حال یہ ہے کہ سرِدست اپوزیشن کی سینیٹ میں اکثریت ہے، لیکن جس طرح حکومت قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے ارکان توڑ رہی ہے وہ اپوزیشن سینیٹرز کو بھی ضرور توڑے گی۔ تاہم اس کے نتیجے میں پہلے سے قائم ایک بری روایت مزید مضبوط، اور جمہوریت، جمہوری اقدار اور اصولی سیاست مزید کمزور ہوگی۔ چیئرمین سینیٹ گھر جائیں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن ارکان لوٹا کریسی کا شکار ہوں، اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ پہلے سے معاشی، سفارتی اور سیاسی اُلجھنوں میں گھرا ہوا ملک مزید افراتفری اور بے یقینی کی نذر ہوجائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کو اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔ یہاں صرف جماعت اسلامی نے اس گند میں اپنے کپڑے بچانے کا فیصلہ کیا ہے جو قابلِ ستائش ہے۔