راوی و تحریر: غلام محمد اعوان ایڈووکیٹ
۔تلخیص و تدوین: محمود عالم صدیقی
وہ پچیس چھبیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان تھا جسے قتل کے ارتکاب کے جرم میں دو دن پہلے ہی حوالات میں قید کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اُس دور کا ہے جب میں پولیس میں ملازم تھا۔ ایک روایتی پولیس والے کی طرح اُس کے ساتھ میرا رویہ خاصا سخت تھا۔ میرے اس سخت اور تکلیف دہ رویّے کے باوجود اس کے لبوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ ہمیشہ کھیلتی رہتی تھی، وہ ہمیشہ مجھ سے باادب اور نرم لہجے میں بات کرتا تھا، اور مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن میں ہی اُس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا۔
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو۔
دعا کے بعد اُس کی نظر مجھ پر پڑی تو اُس کے لبوں پر پھر وہی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ اٹھ کر میرے پاس آیا اور ہمیشہ کی طرح میرا حال احوال پوچھا۔
آج خلافِ معمول میرا لہجہ کافی نرم تھا۔
باتوں کے دوران میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا واقعی اُس نے قتل جیسا جرم کیا ہے؟ کیونکہ مجھے اُس کی معصومیت سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ قتل جیسا جرم کرسکتا ہے۔
’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ تو پھر میں ایسا گھنائونا جرم کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو پھر؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
’’جب اللہ اِس دنیا میں کسی کو اختیارات دیتا ہے ناں، تو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ اختیارات اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ وہ ان سب کو اپنا کمال اور حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے علاقے کے ایک بااثر انسان نے قتل کردیا اور اتفاق سے میں وہاں سے چند قدم ہی دور تھا۔ اُس نے الزام مجھ پر لگا دیا۔ جھوٹے گواہ بھی تیار کرلیے گئے اور میں یہاں آگیا۔‘‘
مجھے دکھ سا ہوا۔
’’تو تمہارے گھر والوں نے کچھ نہیں کیا؟‘‘
’’گھر والوں نے اپنی سی کوشش کی، لیکن وہی بات… اس معاشرے میں لوگ بھی ڈر کے مارے اُسی کا ساتھ دیتے ہیں جو طاقتور ہو۔‘‘ وہ پھر سے مسکرایا تھا۔
مجھے اس کے سکون کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔
’’تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ ہوسکتا ہے کچھ دنوں میں تمہیں موت کی سزا سنادی جائے؟‘‘
’’ان شاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے اُس کے آگے اپنی عرضی رکھ دی ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔ اُس نے پُریقین لہجے میں جواب دیا۔
میں نے پھر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں اپنے اللہ کی بات کررہا ہوں۔ اُسے میری بے گناہی کا علم ہے اور وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا۔‘‘
اس کے ہر ہر لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔
’’تمہیں یقین ہے کہ دعا سے کام ہوجائے گا؟ اگر نہ ہوا تو…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جب اُس سے مانگا جاتا ہے ناں تو پھر شک میں نہیں پڑتے کہ وہ قبول نہیں کرے گا۔ بس سب کچھ اُس پر چھوڑ کر انتظار کرتے ہیں۔‘‘
اُس کے لہجے میں یقین ہی یقین تھا۔ میں بس اُس کے چہرے کو تکتا رہ گیا کہ اس سے پہلے اللہ پر اتنا یقین شاید ہی کسی میں دیکھا ہو۔
تین دن مزید گزر گئے۔ اس دوران اُس کے گھر والے بھی اُس سے ملنے آئے تھے۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ماں کا رو رو کر برا حال تھا، لیکن اُس کے سکون میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ مسلسل سمجھاتا رہا کہ میں نے اللہ کے سامنے عرضی رکھ دی ہے، اُسے پتا ہے میں بے گناہ ہوں، دیکھ لیجیے گا وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا۔
میں نے اللہ پر اتنا یقین اس سے پہلے صرف پڑھا ہی تھا لیکن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے دل میں اب اُس کے لیے عقیدت کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ شاید اللہ کی محبت ہوتی ہی ایسی ہے جو پتھر دل کو بھی پگھلا دیتی ہے، اور پھر جب اُسے عدالت میں پیش کیا جانا تھا اس سے ایک دن پہلے ہی عجیب واقعہ ہوا۔ جس شخص نے خود قتل کرکے الزام اُس پر لگایا تھا وہ اپنی بیوی اور اکلوتے بچے کے ساتھ گاڑی میں کہیں جارہا تھا کہ اسے ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس کی بیوی اور بچہ تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ اسے شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ کافی گھنٹوں بعد ہوش میں آنے کے بعد اسے بیوی اور بچے کے مرنے کی خبر ملی تو اس کی حالت اور بگڑ گئی۔
اسی جان کنی کے عالم میں اسے کچھ یاد آیا۔ اس نے چیخ کر قریب موجود ڈاکٹر کو اس کی ویڈیو بنانے کا کہا۔ بار بار اصرار پر ڈاکٹر نے نرس کو ویڈیو بنانے کا اشارہ کیا تو اس نے ویڈیو میں بڑی مشکل سے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور اس نوجوان کو بے گناہ قرار دے کر ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔ اس نے ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ وہ یہ ویڈیو ضرور پولیس اسٹیشن لے کر جائے گا۔ شاید بیوی بچے کے مرنے کے بعد اور اپنی حالت کا علم ہوجانے کے بعد وہ اس گناہ کو ساتھ لے کر مرنا نہیں چاہتا تھا۔
ادھر ویڈیو پولیس اسٹیشن پہنچی اُدھر وہ آدمی مرگیا۔
آج عدالت میں اس نوجوان کی پیشی تھی۔ عدالت کے سامنے اُس کی بے گناہی کا ناقابلِ تردید ثبوت ویڈیو کی شکل میں موجود تھا، لہٰذا اسے باعزت بری کردیا گیا۔
میں کمرۂ عدالت میں گم سم سا کھڑا سوچ رہا تھا کہ اللہ ان بندوں کی جو صحیح معنوں میں اس پر ایمان لاتے ہیں، ایسے بھی مدد کرسکتا ہے۔
اس کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں۔ ماں روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی تھی، باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
آج اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ شاید اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑا تھا اور اس طرح سے اس کی مدد کی تھی جس کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔
اور مجھے یاد ہے مجھ سے ملنے کے بعد جب وہ جانے لگا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات بتا کر جائے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں۔ تو اس کے الفاظ تھے:
’’اللہ سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور دوست نہیں۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے اسی سے مانگیں اور پھر یقین بھی رکھیں کہ وہ قبول کرے گا۔ وہ محض کسی سوچ یا تصور کا نام تو ہے نہیں، بلکہ وہ تو ایک زندہ حقیقت ہے۔ وہ اِس وقت بھی ہمارے ساتھ ہے۔ شہ رگ سے بھی قریب۔ وہ ہمیں دیکھتا رہتا ہے کہ مشکل میں ہمارا ردعمل کیا ہوگا۔ اور جو اس سے مانگ کر شک میں نہیں پڑتے، اللہ بھی انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ ایسے طریقوں سے ان کی مدد کرتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے‘‘۔
وہ اب واپس جارہا تھا اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں آج ہی مسلمان ہوا ہوں، یا جیسے میں نے آج اپنے اللہ کو پالیا ہے۔