دعوتِ شیراز اسی کا نام ہے

ابوسعدی

نہایت بے تکلفی کی دعوت جس سے میزبان کو تکلیف نہ ہو اور نہ زیادہ بارِ خاطر ہو۔ سادہ اور معمولی غذا جو موقع پر حاضر اور موجود ہو، کھلا دینے کی ضیافت۔ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب شیخ سعدی شیرازی سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو اس طرح ہے: شیخ مصلح الدین سعدی شیرازیؒ ایک مرتبہ اپنے کسی دوست کے یہاں مہمان ہوئے۔ اُس نے ان کے کھانے میں نہایت اہتمام و تکلف کیا۔ شیخ سعدی جب کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا: ”آہ! دعوتِ شیراز‘‘۔
دوسرے وقت میزبان نے اس سے بھی بہتر اور پُرتکلف کھانا یہ سوچ کر تیار کرایا کہ شاید کھانے میں کچھ کمی رہ گئی تھی، شیراز کی دعوت اس سے بہتر ہوتی ہوگی، اسی لیے انہوں نے دعوتِ شیراز کو یاد کرکے ’’آہ دعوتِ شیراز‘‘ کہا۔ تیسرے وقت میزبان نے اور بھی بہترین اور پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا، مگر تیسرے وقت بھی کھانا کھانے کے بعد شیخ سعدیؒ نے وہی فقرہ کہا یعنی ’’آہ! دعوتِ شیراز‘‘۔ شیخ سعدیؒ اپنے دوست کے یہاں کئی روز مہمان رہے اور رفتہ رفتہ تکلّفات کم ہوتے گئے۔ شیخ سعدی کے جانے کے بعد میزبان نے اپنے دل میں سوچا کہ کسی دن چل کر شیخ سعدی شیرازیؒ کے یہاں دعوت کھاکر دیکھا جائے کہ کیا خاص بات ہے جو ان کو یہاں کا کھانا پسند نہ آیا اور دعوتِ شیراز کو برابر یاد کرتے رہے۔
شیخ سعدیؒ کے دوست ایک روز شیراز پہنچ گئے اور شیخ کے مہمان ہوئے۔ شیخ سعدی شیرازی نے مہمان کے ہاتھ دھلا کر جو معمولی کھانا گھر میں پکا تھا، سامنے لاکر رکھ دیا۔ مہمان نے کھانا کھایا اور دل میں خیال کیا کہ اس وقت موقع نہ تھا، اسی لیے جو سادہ معمولی کھانا گھر میں موجود تھا وہی لاکر سامنے رکھ دیا، اب دوسرے وقت وہ بہترین اور پُرتکلف کھانا کھلائیں گے جس کو میرے یہاں برابر آہ بھر کر یاد کررہے تھے۔ مگر دوسرے وقت بھی ویسا ہی معمولی اور سادہ کھانا اس کے سامنے آیا۔ وہ شخص جب تک شیخ کا مہمان رہا ویسا ہی سادہ، بے تکلف اور معمولی کھانا اس کو کھانے کو ملتا رہا۔ آخر کار جب ایک دن مہمان رخصت ہونے لگا تو اس نے شیخ سعدی سے پوچھا:
’’یار! تم جب میرے یہاں مہمان تھے تو آہ بھر کر دعوتِ شیراز کو یاد کرتے تھے اور اچھے سے اچھے، بہترین اور پُرتکلف کھانے کو بھی ناپسند کیا کرتے تھے، آخر بات کیا ہے؟‘‘
شیخ سعدی نے جواب دیا: ’’پُرتکلف مہمان داری دو تین وقت نبھ سکتی ہے زیادہ دن نہیں، اس لیے مشہور ہے کہ ایک دن کا مہمان، دو دن کا مہمان، تیسرے دن بلائے جان۔ میں اسی لیے آہ بھر کر ’’دعوتِ شیراز‘‘ کو یاد کیا کرتا تھا کہ بے تکلف، سادہ اور معمولی کھانا کھلانا، مہمان خواہ کتنے ہی دن رہے، میزبان کی طبیعت پر بار نہیں گزرتا، اسی کا نام دعوتِ شیراز ہے‘‘۔
( ماہنامہ چشمِ بیدار)

ابوجہل

اس کا اصل نام عمرو ابن ہشام ابن مغیرہ المخزومی (553ء۔ 624ء) ہے۔ یہ ایک قوی ہیکل، تیز زبان اور جنگ وجدل سے نہ گھبرانے والا آدمی تھا، مگر اسلام کا بدترین دشمن، رسول اکرمؐ کا شدید مخالف اور دینِ اسلام سے استہزا کرنے والا تھا۔ اسلام قبول کرنے والوں کو طرح طرح سے تکالیف اور ایذائیں دیتا تھا۔ جاہلیت میں اس کی کنیت ابوحکم تھی، مگر رسول اکرمؐ نے اس کے کرتوتوں کے باعث اسے ابوجہل کہا۔ اس ظالم کے اکسانے پر عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں حضورؐ پر ڈال دی تھی۔ ابوجہل پرلے درجے کا ظالم اور بے رحم انسان تھا۔ غزوۂ بدر (2ھ) میں دو نو عمر مسلمان غازیوں، یعنی معاذ بن عمر بن جموح اور معوذؓ بن عفرا کے ہاتھوں قتل ہوا۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

کاروبار میں کامیابی کے اصول

ہندوستان کا مشہور کاروباری ادارہ ٹاٹا۔ مختلف شعبوں میں اس کی 96 کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے 65.8 فی صد شیئر ٹاٹا ٹرسٹ کے پاس ہیں، اور ان شیئرز کا سارا منافع خیراتی کاموں پر خرچ ہوتا ہے۔
کامیابی کے اصول
-1 مستقبل پر نظر رکھ کر منصوبے بنانا۔
-2یہ گروپ عوام سے صرف منافع ہی نہیں کماتا۔ یہ عوام کو بہت کچھ لوٹاتا بھی ہے۔ اس گروپ نے بھارت میں تحقیق، ایجادات، تعلیم و تربیت کے 12 بین الاقوامی ادارے بنا رکھے ہیں۔ ان اداروں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
-3 خیرات۔
-4 پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمت مہیا کرنا اور کارکنوں کو انفرادی توجہ اور عزت دینا۔ مالک اور ملازم کے درمیان Inter-Action قائم کرنا۔ ملازم اور مالک کے ملنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(”ایک ہزار خوب صورت چیزیں“۔ ڈاکٹر محمود فیضانی)

زبان زد اشعار

شام ہی سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
(میر تقی میرؔ)
……………
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
(علامہ اقبالؔ)
……………
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)
……………
خیال تن پرستی چھوڑ کر فکر حق پرستی کر
نشاں رہتا نہیں ہے نام رہ جاتا ہے انساں کا
(خواجہ حیدر علی آتشؔ)