حکومت اور میڈیا کے تنازعے میں ایک اور افسوس ناک پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی پر تنقید کے بارے میں تو شمشیر برہنہ ہے، لیکن جب میڈیا کا ایک حصہ خود پاکستان کے وجود پر تیغ زنی کرتا ہے اور بار بار کوشش کرتا ہے کہ برطانوی ہند کی تقسیم کو غلط ثابت کرے، تو حکومت کو کوئی پروا نہیں ہوتی، حالانکہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت ایسے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو سزا دی جاسکتی ہے۔ یہ پہلو اس لیے بھی افسوس ناک ہے کہ حکومت کا اوّلین دستوری فریضہ مملکت کی حفاظت اور استحکام ہے۔
میڈیا کے رویّے میں بھی خامیاں ہیں، جن کی وجہ کچھ مفروضے ہیں اور کچھ تلخ حقیقتیں، مثلاً میڈیا کو یہ خناس ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ آزادی غیر مشروط ہوتی ہے۔ ایسی آزادی اس کرہ ارض پر کہیں بھی نہیں۔ کیونکہ ایسی آزادی جس کا مدار نہ ہو، بالآخر افراتفری کی طرف لے جاتی ہے، جس سے معاشرے اور قومیں کمزور ہوتی ہیں۔ اس طرح میڈیا کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اگر ان کے حقوق ہیں تو اس ریاست اور مسلمان معاشرے کے بھی کچھ حقوق ہیں جس کے وسائل سے وہ مستفید ہوتے ہیں۔
میڈیا اور حکمرانوں کے اس تنازعے میں ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ پاکستانی عوام ہیں، جو فی الحال خاموش ہیں، مگر اندر سے پریشان ہیں۔ اخبارات کے بعض کالم اور ٹی وی کے بعض ٹاک شوز اور ڈرامے ان کے ذہن میں کئی سوالات اٹھاتے ہیں، جن کا جواب انہیں نہیں مل رہا۔ وہ سوچتے ہیں یہ کیسے لکھنے والے اور باتیں کرنے والے لوگ ہیں اور کس ملک کے باسی ہیں کہ اپنے ملک کے وجود کو، اس کی مسلم شناخت کو، اس کی اخلاقی قدروں کو للکارتے پھرتے ہیں؟ یہ کون مالکان اور کارندے ہیں جو انہیں ایسی گفتگو کا موقع فراہم کرتے ہیں؟
بات کھول کر بیان کی جائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کو بطور ریاست مطعون کرے، یا یہ کہے کہ پاکستان کی تو ضرورت ہی نہیں تھی، اور یہ کہ پاکستان کی تخلیق مذہبی تنگ نظری کی مرہونِ منت ہے، یا یہ کہ پاکستان سامراجی سازش کا نتیجہ ہے، وگرنہ ہندو اور مسلمان ایک قوم تھے۔ ایسا کفر سیکولر حضرات ہی تخلیق کرسکتے ہیں۔
اسی طرح میڈیا کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اس صدی کا سب بڑا جھوٹ قرار دے، اور اس طرح وہ اس تاریخی اجماع کو توڑنے کی کوشش کرے، جسے خود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد کا نام دیا۔ اور بعد میں اسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے دستور میں رہنما اصول کا مقام دیا، یعنی ایسے اصول جن سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ باَلفاظِ دیگر وہ تمام دستوری موضوعات جو قومی اجماع کے نتیجے میں 1947ء کے عشرے میں طے ہوگئے تھے، انہیں بار بار ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا میں زیر بحث لانا، ان پر طعن اور طنز و تشنیع کرنا، دنیا کے کس جمہوری اور دستوری قواعد میں درست سمجھا جاتا ہے؟
یہ حق نہ دستورِ پاکستان میڈیا کو دیتا ہے اور نہ معاشرتی و سیاسی تقاضے۔ میڈیا کا یہ کہنا کہ ’’یہ ہمارا بنیادی حق ہے‘‘، ایک کمزور مؤقف ہے۔ کیونکہ کوئی بنیادی حق اپنے اطلاق و عمل پذیری میں ایک مخصوص متن رکھتا ہے، جس سے کاٹ کر اُس کا اظہار ایک مہمل حرکت بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کوئی معاشرہ اُسی وقت بنیادی حقوق دیتا ہے جب اُسے یقین ہوکہ ایسا حق اُس کی بقا، سلامتی، استحکام اور انصاف قائم رکھنے میں معاون ہوگا۔ لیکن اگر یہی حق معاشرے میں انتشار پھیلانے، اس کی قوتِ مدافعت کو کمزور کرنے اور اسے احساسِ کمتری اور مایوسی و شکست خوردگی میں مبتلا کرنے کے لیے استعمال ہو تو پھر یہ سندِ جواز کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی سیدھی سادی مثال حق احترام زندگی ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہری کو تحفظِ ذات دے، لیکن اگر وہی شہری کسی کو قتل کرتا ہے یا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے، تو وہی ریاست اسے خود مارنے پر تل جاتی ہے۔ یہی حال آزادیِ رائے کا بھی ہے۔
ظاہر ہے ایسی صورتِ حال جو متضاد مفادات کے ٹکرائو کے باعث پیدا ہوئی ہو، اُس سے عہدہ برا ہونے کا ایک ہی راستہ ہوسکتا ہے کہ موضوعی مؤقف کے بجائے معروضیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ کیونکہ معروضیت سے ہی ہمیں وہ میزان مل سکتی ہے، جس سے ہم انفرادی اور اداراتی رویوں کو صحیح یا غلط کہہ سکتے ہیں۔
یہ معروضیت اُسی صورت میں ممکن ہوگی جب ہم اسے دستورِ پاکستان سے لیں گے۔ دستورِ پاکستان میں شق 2- الف، 227، 31 اور 40، اس ضمن میں بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، جن سے معاشرے اور ریاست کے مختلف شعبہ جات اور اداروں میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے، اور اس طرح انتشار اور تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔ ان شقوں کے مطابق پاکستانی ریاست پر لازم ہے کہ وہ مسلمان شہریوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کرے کہ وہ اپنی زندگیاں اسلامی قدروں کے مطابق گزاریں۔
(”سیکولرزم ،مباحث اور مغالطے“۔ طارق جان)
مہمانِ عزیز
پُر ہے افکار سے ان مدرسہ والوں کا ضمیر
خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز!
چاہیے خانہ دل کی کوئی منزل خالی
شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمانِ عزیز
(1) جو نوجوان درس گاہوں میں پڑھ رہے ہیں ان کے دل و دماغ علم کے افکار سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اچھے برے اور نیک و بد کی تمیز کون کرتا ہے؟
(2) میری نصیحت تو یہ ہے کہ دل کا کوئی نہ کوئی حصہ خالی رکھ لینا چاہیے۔ شاید کہیں سے کوئی عزیز مہمان آجائے۔ اگر دل میں جگہ خالی نہ ہوگی تو اسے کہاں ٹھیرایا جائے گا؟
مہمانِ عزیز سے مراد ہے کوئی ایسی فکر، ایسا جذبہ جو دل و دماغ میں نیکی اور صلاحیت کی روشنی پیدا کردے۔ فرماتے ہیں کہ جو علم پڑھ رہے ہو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن جس شے کی بدولت حقیقی انسانی روح بیدار ہوتی ہے، اس کے لیے بھی تو کچھ انتظام کرلینا چاہیے۔ اسی صورت میں یہ علم بھی کارآمد ہوسکے گا۔