دعوت کا طریقہ اور داعی کا کردار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا

نبی کریمؐ نے اللہ کے حضور اپنی امت کی طرف سے ایک ایسی درخواست جمع کرادی ہے جو ہر مشکل میں قیامت تک اس کے کام آتی رہے گی اور ہر تاریکی میں اس کے لیے ایک شمع کی صورت جگمگاتی رہے گی:۔
’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔(البقرۃ:201)

ڈاکٹر احسن حسین
ایمان لانے کے بعد دعوتِ دین ایک ایسی ذمہ داری ہے جو ہر مسلمان مرد و عورت پر عائد ہوتی ہے۔ سورۃ العصر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری ہر جگہ اور ہر حال میں نبھانی ہے، بلکہ ایمان اور عملِ صالح کے بعد فلاح کا یقینی راستہ ہی حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کو بتایا ہے۔ فرمایا (ترجمہ):
’’زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے، سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی، اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی‘‘۔
اس میں اس بات کی بھی تخصیص نہیں ہے کہ کون زیادہ قابل ہے اور کون کم قابل۔ کس کا علم زیادہ ہے، کس کا علم کم ہے۔ کون بڑا ہے، کون چھوٹا ہے۔ کون افسر ہے، کون غلام ہے۔ ہر شخص ہمہ وقت داعی ہے اور ہمہ وقت مدعو ہے، اور یاددہانی کے اس کام کے لیے کسی عالم کورس کی، کسی درسِ قرآن کی، کوئی محفل سجانے کی، کوئی اجتماع کرنے کی، کسی بھی خصوصی اہتمام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے گھر والوں کو، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں کو، عزیز رشتے داروں کو، دوست احباب کو، اپنے دفتروں میں، اپنے بازاروں میں کچھ لیتے وقت، خریدتے اور بیچتے وقت، اسکولوں اور کالجوں میں، کلینک اور اسپتالوں، ایفائے عہد کے وقت، کسی کی ضرورت کے وقت، اپنے قریبی حلقے میں اپنے ماحول میں جو اچھی بات معلوم ہے، جو حق آپ کے پاس ہے، اسے دوسرے تک پہنچادیں۔ اردگرد کا ماحول جتنا اچھا اور پاکیزہ ہوگا اپنا ایمان بچانا بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے، لیکن دوسروں کو نصیحت کرتے کرتے اپنے آپ کو بھول نہیں جانا ہے، ایسا نہ ہو دوسروں کی آنکھوں کے تنکے نکالتے رہیں اور اپنی آنکھ کے شہتیر کو بھول جائیں۔ یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ ہر شخص صرف داعی نہیں ہے مدعو بھی ہے۔ اپنے دل کے اس دروازے کو بھی کھلا رکھنا ہے۔ نبیؐ کے بعد اب کوئی شخص عقل کُل نہیں ہوسکتا۔ تمام تر حق نہیں ہوسکتا۔ اب وحی نازل نہیں ہوگی، اب کتاب نہیں اترے گی۔ اس لیے غلطی کا امکان ہر وقت موجود رہے گا۔ ایک دوسرے کو نصیحت کا مطلب بھی یہی ہے۔ ہوسکتا ہے جسے صبح میں آپ نے کچھ بتایا ہے شام کو وہی آپ کو کسی بات پر ٹوکے۔ دعوت پاپائیت کا نام نہیں ہے، اس لیے اپنے اندر برداشت، اور حق کو سننے اور قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے، اس کے بغیر دعوت نامکمل ہے۔ مومن، مومن کا آئینہ جب ہی تو ہے کہ سب ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حق و صبر کی یاددہانی کی یہ چنگاری زندہ کیسے رکھی جائے؟ لوگ علم کہاں سے لائیں اور انہیں صحیح راہ کون بتائے گا؟
اس سوال کا جواب سورۂ توبہ سے ملتا ہے جہاں دعوت کا ایک اور رخ سامنے آتا ہے۔ فرمایا (ترجمہ):
’’اور سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کام کے لیے نکل کھڑے ہوتے، لیکن ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو انذار کرتے جب (علم حاصل کرلینے کے بعد) ان کی طرف لوٹتے، اس لیے کہ وہ بچتے‘‘۔ (122:9)
سورہ عصر میں دعوت کا عمومی اور سادہ پہلو رکھا گیا تھا، اور وہ ہدایت ہر مسلمان کے لیے تھی، لیکن یہاں خود قرآن نے وضاحت کردی ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر مسلمان دین کے علم کو اپنی زندگی کا مشن بنالے اور قوم میں دعوت و انذار کرے، لیکن ہر جماعت میں سے، ہر قوم میں سے کچھ لوگوں کو لازماً اس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں۔ یہ الفاظ کو لچھے بنانے کا کام نہیں ہے۔ چند آیات یاد کرکے انہیں اپنے مقصد کے لیے پیش کرنے کا کام نہیں ہے۔ اندھے راہ بتانے والے بنانے کی بات نہیں ہے۔ لتفقہوا فی الدین دین کی صحیح بصیرت حاصل کرنے کا حکم ہے۔ قرآن کو اس کے مطلب اور معنی میں سمجھنے کا حکم ہے، اور پھر جب علم آجائے تو امریکہ اور جاپان نہیں جانا ہے۔ بین الاقوامی خدائی خدمت گار نہیں بننا ہے۔ اپنی قوم کے لوگوں کے لیے نظیر بننا ہے، اپنے لوگوں کو آخرت کی تیاریوں کے لیے بیدار کرنا ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے ان اصولوں کو نظرانداز کرکے دعوت کا کام صحیح خطوط پر نہیں ہوسکتا۔ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
آخر میں اس دعوتِ حق کو لے کر چلنے والوں میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں ان خوبیوں کا بھی ایک سرسری جائزہ لے لیتے ہیں، یعنی یہ کہ داعیِ ٔ حق کو کیسا ہونا چاہیے:
(1) پہلی شرط یہ ہے کہ داعی کا اپنا ایمان علم اور یقین کی بنیاد پر ہو، وہ خود کسی وقتی جذبے کے زیراثر یا کسی وسوسہ کا شکار نہ ہو۔
(2)داعی کا اپنا علم مستحکم بنیادوں پر ہو تاکہ دلیل کے ساتھ اپنی بات دوسروں کے سامنے پیش کرسکے۔ دوسروں کے دلوں میں وسوسوں اور شبہات کا باعث نہ بن جائے۔
(3)داعی کے اپنے قول و عمل میں تضاد نہ ہو کہ دوسروں کو نصیحت کرے اور اپنے آپ کو بھول جائے۔
(4) داعی کی شخصیت میں انانیت نہیں ہونی چاہیے۔ ہٹ دھرم اور خودپسند لوگ خیر کے داعی نہیں ہوسکتے۔ اچھا داعی وہی ہے جو خود خیر کے سامنے سر جھکا دے۔
(5)داعی کو صابر و شاکر ہونا چاہیے۔ دعوت کے نتائج کے لیے بے تاب نہ رہتا ہو۔ نتائج کی پروا کیے بغیر وہ دعوت میں مگن رہے۔
(6)حکمت و دانائی اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ داعیِ حق کو اپنی بات ہمیشہ حکمت و موعظت سے پیش کرنا چاہیے، اسے معلوم ہونا چاہیے یہ کوئی لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے کا عمل نہیں ہے، یہ اللہ کے دین کی دعوت ہے، اس کا وقار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے لیے دلائل و براہین اور دردمندانہ تذکیر و نصیحت کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ داعیِ حق کا انداز چڑھ دوڑنے اور دھونس جمانے کا نہیں بلکہ خیر خواہی اور شفقت و محبت کے ساتھ توجہ دلانے کا ہونا چاہیے۔
پروردگار ہمیں اپنے دین کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک صحیح صحیح بات پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔