جمہوری معاشروں میں پارلیمانی طرزِسیاست کے کچھ اصول ہوتے ہیں جنہیں کسی قیمت پر بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ اُس وقت ہی چل سکتی ہے جب حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف اسے چلانے میں ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں، ورنہ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے میثاقِ معیشت کی پیش کش کا ایک خاص پس منظر اور تین بڑے سوالات ہیں جن کا جواب ابھی تک حکومت نے نہیں دیا ہے۔ اول یہ کہ کیا پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا؟ دوم: کیا بجٹ میں کیے گئے اقدامات آئی ایم ایف کے پروگرام کو حاصل کرنے اور مکمل کرنے میں معاون ہوں گے؟ سوم: کیا یہ آخری پروگرام ہوگا اور آئندہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوگی؟ یہ تینوں سوالات حکومت کے سامنے بھی ہیں، لیکن وہ براہِ راست ان کا جواب نہیں دے رہی، بلکہ جواب کے لیے اکنامک ایڈوائزی کمیٹی کا سہارا لے رہی ہے۔ اس کمیٹی کی سفارش تھی کہ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے، کم وسائل کے باعث ان کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، لہٰذا آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے۔ اس کونسل کی رائے میں کسی حد تک وزن تھا، کیونکہ حکومت کو بارہ ارب ڈالر کے قرضے اگلے سال واپس کرنے ہیں، اور حال ہی میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے سات ارب ڈالر کے قرضے جو بصورت ڈپازٹ مرکزی بینک میں رکھے گئے ہیں، وہ بھی اگلے سال واجب الادا ہوں گے، اور مرکزی بینک میں صرف سات ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ اسی لیے آئی ایم ایف سے مدد لی گئی۔ لیکن یہ مسائل دراصل ناقص مالیاتی ڈسپلن کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ حکومت ان مسائل کے مستقل حل کے لیے ابھی تک کوئی روڈمیپ نہیں دے سکی، جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مالیاتی ڈسپلن کا روڈمیپ دیے جانے تک بیرونی ادائیگیاں مشکلات کا شکار رہیں گی۔
اہم ترین نکتہ ملکی اور غیرملکی قرضوں کا استعمال بھی ہے۔ عمران حکومت سمیت کسی بھی حکومت نے قرضوں کے ذریعے ہونے والے اخراجات کی ذرا بھی پروا نہیں کی، اور بند گلی سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرتی رہی ہیں۔ اکنامک ایڈوائزری کمیٹی نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے عبوری امداد لینے کی تجویز دی تھی، حکومت نے دوست ممالک سے سات ارب ڈالر بھی لیے اور آئی ایم ایف کے پاس بھی گئی۔
ملکی معیشت کو سب سے بڑا چیلنج بجٹ خسارے کا ہے جو اس وقت سات فیصد تک بڑھ چکا ہے، اور معاشی بحران مزید گمبھیر ہونے کا اندیشہ ہے۔ حکومت سود کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کو ایک شمار کررہی ہے، لیکن ان میں بہت فرق ہے۔ حکومت نے بجٹ میں دفاعی اخراجات میں کمی کی ہے لیکن 5500 ارب روپے کے ٹیکس بھی لگادیے۔ ان ٹیکسز پر سرچارجز الگ سے ہیں۔ حکومت نے اخراجات کے کنٹرول، سول سروس اصلاحات اور کفایت شعاری کے بارے میں کمیٹی قائم کی تھی، لیکن ایک سال گزر گیا، کمیٹی کی سفارشات نہیں آئیں۔ اس بجٹ میں اہم کوشش یہ ہوئی کہ حکومت کا ایک بینک کھاتہ مرکزی بینک میں قائم ہو اور دیگر بینکوں میں پڑے حکومتی ڈپازٹ اس میں منتقل کیے جائیں، یوں قرضوں کی ضرورت کم کی جاسکتی ہے۔ مالیاتی ڈسپلن میں بہتری کے لیے بجٹ کے بعد متعدد نئی تجاویز سامنے آئی ہیں، یہ تجاویز بزنس کمیونٹی کے ایک نمائندہ وفد نے وزیراعظم اور ان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ ایک ایک اہم ملاقات میں دی ہیں، جس میں فیصلہ یہ ہوا ہے کہ ہر سال کے بجائے ہر تین سال بعد بزنس اکائونٹس کا آڈٹ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی ایز) کا جائزہ لینے سے روک دیا ہے۔ یہ مطالبہ عقیل کریم ڈھیڈی نے کیا تھا، جنہوں نے توانائی کے شعبے میں نااہلی کا معاملہ اُٹھایا تھا، جس کی وجہ سے گردشی قرضہ کئی گنا بڑھ کر 14 کھرب روپے تک جا پہنچا۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بھی اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا کہ کاروباری برادری کے ساتھ نئی مفاہمت کے تحت کوئی ٹیکس افسر کسی بزنس ہائوس یا کاروباری شخصیت کی رہائش گاہ پر چھاپہ نہیں مارے گا۔ ان تمام اقدامات اور توقعات کے باوجود بھی اس حکومت سے بہتری کی کوئی توقع نہیں ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنی، پنجاب حکومت بھی دے کر اسے یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا گیا، مگر تحریک انصاف اپنے غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی سیاسی طرزِ عمل کے باعث بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ جیسے سخت مؤقف کے بعد اب اپوزیشن کو میثاقِ معیشت کی پیش کش ناکامی کا کھلا اعتراف ہے۔ حکومت کے ان دس ماہ کے دوران قوم کو کہیں بھی نیا پاکستان نہیں ملا، روپے کی قدر میں کمی نے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ چالیس فی صد تک بڑھا دیا ہے۔ یہ ملکی معیشت کی ہلکی سی ایک جھلک ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ٹیم کی ہدایت پر بجٹ تیار کیا ہے۔ اپوزیشن کے بعد حکومت کے اندر سے بجٹ کے خلاف بڑا ردعمل اسد عمر نے دیا ہے، اُن کا ردعمل آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ ہر حکومت کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا کہ اپوزیشن بلیک میل کرتی ہے۔ کیا سابق وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے قریبی دوست اسد عمر بھی بلیک میل کررہے ہیں؟ حکومت کی صفوں سے اسد عمر اس بجٹ میں کم قوتِ خرید رکھنے والوں کی آواز بنے ہیں۔ بجٹ میں تین سے چار سو ارب کی سبسڈی کم آمدنی والوں کے لیے رکھی جانی چاہیے تھی، لیکن انہیں تو اب چینی ساڑھے تین روپے فی کلو مہنگی ملے گی۔ چھ ہزار بلین کا بجٹ بناتے ہوئے چار سو بلین عوام کی فلاح و بہبود کے لیے رکھنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ حکومت یہ نہیں جانتی کہ عام آدمی کی زندگی تنگ ہو تو کوئی حکومت کیسے چل سکتی ہے! حکومت تو انسانوں پر کی جا سکتی ہے، اس کے لیے ان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ جب لوگ بھوک سے خودکشیاں کرنے لگیں، بے روزگاری سے تنگ آکر لوٹ مار کرنے لگیں تو کوئی حکومت نہیں چلتی۔ حکومت اس وقت پوری طرح آئی ایم ایف کے اشارۂ ابرو کے سہارے کھڑی ہے۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے ادارے اپنی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگ سے تباہ حال یورپی ممالک کی معیشت بحال کرنے کے لیے یہ ادارے بنائے گئے تھے۔ لہٰذا یہ آج تک صرف ان ممالک کے مفاد کے لیے ہی کام کررہے ہیں۔ ان ملکوں میں سارا پیسہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کا ہے، یہی پیسہ آئی ایم ایف بھاری سود پر پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو دے رہا ہے، اور ہم ہر سال ڈھائی ہزار ارب روپے قرض کی واپسی پر خرچ کررہے ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے یہ حکومت اپنے دعوے پر عمل کے لیے کچھ نہیں کرسکی، بلکہ دس ماہ میں ہی ملکی تاریخ کا ریکارڈ قرض لے چکی ہے۔ ملک میں احتساب کا عمل جس طرح ہورہا ہے سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے اس کی ساری حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ’’میرا اور نیب کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ احترام والا ہے‘‘۔ ملک کے کسی بھی حصے اور کسی بھی تھانے میں احتساب باہمی احترام کے ساتھ نہیں ہوتا، لیکن نیب اور آصف علی زرداری باہمی احترام کے تعلق میں بندھے ہوئے ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی سیاسی جماعت کے قائد نوازشریف جیل میں ہیں، احتساب عدالت نے انہیں کرپشن پر سزا نہیں دی، بلکہ لندن فلیٹس کے لیے منی ٹریل نہ دینے پر سزا دی ہے، جیل میں ان سے اہم اور بااثر لوگ رابطے میں ہیں، ان رابطوں کے نتیجے میں کچھ فیصلے ہوچکے ہیں اور کچھ جلد ہونے والے ہیں۔ جس روز نوازشریف نے ہاں کردی اُسی روز ملک میں تحریک انصاف کے لیے ناں ہوجائے گی، اور یہ فیصلہ رواں سال ہوکر رہے گا۔ یہ سب کچھ ان دس ماہ میں کیوں ہوا؟ کیونکہ حکومت معیشت کے بعد خارجہ محاذ اور خطہ میں افغانستان اور بھارت کے ایشوز پر قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، اور اس نے ان اہم ایشوز پر کوئی روڈمیپ ہی نہیں دیا، جس کے باعث ملک میں اب ایک خلاء بڑھ رہا ہے جسے پُر کرنے کے لیے سیاسی قوتیں حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے صنم خانے کے لیے تراشے ہوئے بتوں کا انجام دیکھنے کی خاطر ایک جانب کھڑی ہوگئی ہیں۔
شہید مرسی…سینیٹر مشتاق احمد خان کی قرارداد
سینیٹ میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے۔ قرارداد کے محرک جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان تھے۔ یہ قرارداد اپوزیشن کی طرف سے آئی اور حکومت کے کسی ایک بھی سینیٹر نے اس کی مخالفت کی، نہ اس میں ترمیم تجویز کی۔ اس قرارداد کا منظور ہونا موجودہ حالات میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ سینیٹ کے ایوان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی اور دنیا بھر کے جمہوریت پسندوںکو پیغام بھی دیا کہ جمہوری اور آئینی جدوجہد کی راہ میں کسی قسم کی مزاحمت برداشت نہیں کی جائے گی۔ سینیٹ نے اس قرارداد کے ذریعے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی دورانِِ قید المناک شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے جمہوریت، آئین پسندی اور سویلین بالادستی کے لیے محمد مرسی کی دینی، ملّی، سیاسی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ محمد مرسی کی جدوجہد اور ثابت قدمی ہمیں پاکستان کے اُن لیڈروں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے جمہوریت اور سویلین بالادستی کے لیے ڈکٹیٹروں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ سینیٹ آف پاکستان نے ہیومن رائٹس واچ کے اس مطالبے کی تائید کی کہ جن حالات اور وجوہات کے باعث محمد مرسی کی موت ہوئی ان کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ اس قرارداد میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک لیگ آف ڈیموکریٹک اسٹیٹس بنائی جائے تاکہ ڈکٹیٹروں کے ایڈونچرازم کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ اس قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے مصر میں سیاسی قیدیوں کے فیئر ٹرائل کو یقینی بنایا جائے اور اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس چارٹر کے علاوہ او آئی سی ہیومن رائٹس چارٹر (قاہرہ ڈیکلریشن 1990ء) کی خلاف ورزی کو روکا جائے۔ سینیٹ میں اس قرارداد میں حکومت اور اپوزیشن نے مل کر مصر کے صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کی مذمت کی ہے۔