پی ٹی آئی کی حکومت ۔۔نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کا تسلسل

وطنِ عزیز میں عوام کے لیے وسائل محدود ہیں، اور کہتے ہیں کہ قلیل ذرائع اور وسائل مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک میں دولت کی تقسیم بھی غیر مساویانہ ہے، جو معاشرے میںکرپشن پھیلانے کی اصل وجہ ہے۔ طبقۂ اشرافیہ کی دولت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے، اور غریب کی غربت اُسے مار رہی ہے۔آج بھی سفارش اور رشوت کے بغیرکوئی کام نہیں ہوسکتا۔ کاروباری طبقہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت نئے پاکستان میں بجٹ کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرگیا ہے۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری خودکشی کی طرف لے جارہی ہیں۔ بجٹ کے بارے میں لوگ یکسو ہیں کہ یہ ہندسوں کے گورکھ دھند ے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ماہرینِ معیشت و سیاست دان اسے غریب دشمن، تاجر دشمن اور صنعت دشمن قرار دے چکے ہیں۔ تیل، گھی، چینی، خشک دودھ، سیمنٹ، گاڑیوں، زیورات، سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پر ٹیکسوں میں اضافہ کرکے عوام اور تاجروں کا جینا محال کردیا گیا ہے۔ نت نئے ٹیکسوں سے عام آدمی کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ غریب آدمی پہلے ہی جسم اور روح کا رشتہ برقرار نہیں رکھ پارہا تھا کہ اب بے ہنگم طریقے سے لگائے گئے ٹیکسوں سے مہنگائی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس وقت ملک کے بڑے شہروں میں گائے کے گوشت کی اوسط قیمت چھ سو روپے، اور بکرے کے گوشت کی اوسط قیمت نو سے ساڑھے نو سو روپے فی کلو ہے۔ انڈے، دالوں، چاول، سبزی، دودھ وغیرہ کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں، اور انہیں مزید بڑھانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ملبوسات اور جوتوں کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ادویہ کی قیمتیں اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور حکومت انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ عمران خان اور ان کی کابینہ کی طرف سے دوائوں کی قیمتیں کم کرنے کے دعوے تو کیے گئے، لیکن یہ صرف دعوے ہی رہ گئے۔ جس آئی ایم ایف نے بجٹ بنا کر دیا ہے، وہ خود کہہ رہا ہے کہ 2020ء تک پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔
ماہرینِ معیشت کہتے ہیں کہ ’’اگر معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری و غربت بڑھے گی۔ موجودہ مالی سال میں 3.3 فیصد شرح نمو حاصل ہوئی ہے۔ حکومت نے جو پالیسیاں اپنائی ہیں اُن سے معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کم از کم پہلے تین سال ملک میں معاشی شرح نمو نیچے ہی رہے گی اور غربت و بے روزگاری لامحالہ بڑھے گی۔‘‘
دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت کا بس ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ہر دو دن کے بعد یہ راگ الاپتی رہتی ہے کہ ’’تمام ناکامیوں اور نامرادیوں کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہیں‘‘۔ اب ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ پھر آپ کس تیاری اور خاص صلاحیت کے ساتھ آئے تھے کہ جس سے کم از کم حالات ٹھیک ہونے کے اشارے تو ملتے، منزل کی طرف کچھ سفر تو شروع ہوتا۔ آپ نے اب تک ایسا کون سا قدم اٹھایا ہے کہ جس سے عام آدمی کی مشکلات اور تکلیفیں کم ہونے کا آغاز ہی ہوگیا ہو؟ کیا حکومت نے اپنے دس ماہ کے عرصے میں مہنگائی کم کرنے، بے روزگاری کے خاتمے، غیرملکی قرضوں سے نجات کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ آپ کا ہر اٹھایا ہوا قدم ہماری غلامی کے ایک نئے سفر کا آغاز بن رہا ہے، اور ہم پہلے سے زیادہ سخت اور مضبوط زنجیروں میں جکڑ لیے گئے ہیں۔ اب عوام میں یہ تاثر بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی اور نااہلی پچھلی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی عام آدمی کو دکھ، تکلیف اور روزانہ کی بنیاد پر اذیتوں کے سوا کچھ نہیں دیا، اور موجودہ حکومت بھی مزید تیزی کے ساتھ یہ کام کررہی ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہوئے قوم سے وعدے کیے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت سرکاری اخراجات میں کمی کرے گی، کفایت شعاری اختیار کرے گی، لیکن نیا بجٹ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس جو بقول تحریک انصاف کے وزیراعظم کے ذاتی استعمال میں نہیں ہے، کے اخراجات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آپ نے کفایت شعاری کے نام پر وزیراعظم ہائوس کی بھینسوں کو بیچنے کے سوا کیا قدم اٹھایا ہے؟ اس صورت حال سے عوام میں مایوسی اور بددلی پھیل رہی ہے اور ان کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے، اس کا نتیجہ کتنا خطرناک ہوگا اس کی نشاندہی ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی فرائیڈے اسپیشل کو بجٹ کے پس منظر میں دیے گئے انٹرویو میں کرچکے ہیں کہ ’’ایک ایسا کھیل چل رہا ہے کہ جس سے ہر پاکستانی کی روح کانپ جائے گی۔ امریکہ نیو گریٹ گیم کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے، معیشت کو کمزور اور معاشی بحران کو سیاسی بحران میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ بجٹ تجاویز اور حکومتی پالیسیاں ان مذموم مقاصد کی شعوری و غیر شعوری کوشش نظر آتی ہیں۔ ان امور کو ملک کے سنجیدہ طبقات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جس کی کمیٹی کا وائس چیئرمین بھارت ہے، اُسے وہ استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کی سرحدوں پر تنائو، ہمارے جوہری پروگرام پر سوالات، بھارت کو علاقے کا چودھری بنانے کا پلان… یہ سب ایک خاص حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ صرف مہنگائی، بے روزگاری اور عوامی مسائل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی سلامتی اور بقا کا مسئلہ ہے۔ یہ خطرات اس قسم کی معاشی پالیسیوں سے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ اس بجٹ کو رد کرکے انقلابی تبدیلی بلکہ انتخابی منشور کے مطابق تبدیلی نہیں کی گئی تو مستقبل تابناک نہیں ہوگا‘‘۔ اس پس منظر اور صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے جماعت اسلامی ایک بار پھر وطنِ عزیز کو اُس کا وقار دلانے اور مہنگائی اور بے روزگاری کی تباہ کاریوں سے لوگوں کو نجات دلانے کے ساتھ ایسے اقدامات سے روکنے کے لیے کہ جس سے مستقبل میں ملک کی سلامتی اور اس کے ایٹمی اثاثے خطرے میں پڑجائیں، ایک بار پھر میدان میں آگئی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ سارا بجٹ سودی نظام پر مبنی ہے، 2828 ارب روپے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے، سود پاکستان کو کھا رہاہے اور اس کا مقصد ہی سودی قرضوں میں جکڑکر ہماری آزادی کو سلب کرنا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ خزانے کی چابیاں بھی آئی ایم ایف کے ایجنٹ کے حوالے کردی گئی ہیں، وزیراعظم سابق حکومتوں کے 10 سال کے قرضوں کا ضرور حساب کتاب کریں، مگر انہوں نے 10 ماہ میں جو قرضے لیے ہیں اس کا بھی حساب ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی لاہور، فیصل آباد میں بڑی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد 30 جون کو کراچی میں ایک بڑا ’’کراچی عوامی مارچ ‘‘کرنے جارہی ہے۔
اس وقت پاکستان بجاطور پر امریکہ اور عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ عام آدمی مضطرب اور پریشان ہے، اور اگر یہ غصہ بڑھ گیا تو ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔ دشمن بھی چاہتا ہے کہ یہ غصہ ہجوم کی صورت میں نکلے اور ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلے، تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کوجن کی نشاندہی ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کی ہے، حاصل کرسکے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کا عوام کو منتشر ہونے کے بجائے ایک اور قابلِ اعتماد پلیٹ فارم پر جمع کرکے منظم تحریک برپا کرنا ملک کی ضرورت ہے۔ اس تحریک میں عوام کے شریک ہونے اور اپنے جائز حقوق کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دینے میں ہی کامیابی ہے، کیونکہ وہ اب جان چکے ہیں اور حالات نے ثابت کردیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی ایک دھوکا اور عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے، اور یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں۔