آج کل ایک لفظ ’’دیوالیہ‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ ’’ملک دیوالیہ ہونے لگا تھا، ہم نے بچالیا‘‘۔ ایسے نعرے لگ رہے ہیں جو نعرے ہی ہیں۔ لیکن یہ ’’دیوالیہ‘‘ کیا ہے؟ دراصل یہ لفظ ’دوالا‘ ہے اور ہم ایک عرصے تک یہی سنتے آئے ہیں ’’فلاں کا دوالا پٹ گیا‘‘ (بکسراول)۔ اس کی اصل ’دیوا‘ یعنی چراغ ہے۔ ہندی کا لفظ ہے لیکن اردو، پنجابی میں عام ہے۔ اس کا دوسرا حصہ ’آلا‘ ہے جس کا مطلب ہے طاق۔ تو مطلب یہ ہوا ’’طاق میں رکھا چراغ‘‘۔ پہلے دستور تھا کہ جب کسی دکان دار، تاجر وغیرہ کو ٹوٹا، گھاٹا آتا تھا تو وہ دن کو اپنی دکان میں چراغ جلا دیتا تھا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ اس کے ہاں دوالا ہوگیا، اب کچھ نہیں بچا، قرض واپس مانگنے والے آنے کی زحمت نہ کریں۔ دوالا کا مطلب ہے: ساہوکاروں کے روپے کی تباہی، خسارہ، ٹوٹا وغیرہ۔ اس سے فعل متعدی ہے: دوالا نکالنا، دوالا نکال دینا۔ نقصان واقعی ہو یا فرضی، دوسرے کا مال مارنے کے لیے بھی دوالا ہونے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ ایک شعر ہے:
کیا تیرے لعل لب کو خریدے گا جوہری
بیعانہ ہی میں اس کا دوالا نکل گیا
جس شخص کا دوالا نکل جائے اسے ٹٹ پونجیا کہتے ہیں، گو کہ ٹٹ پونجیا بھی دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ’ٹٹ‘ ٹاٹ کا مخفف ہے، یعنی جس کی پونجی فقط ٹاٹ رہ گئی ہو۔ حالانکہ بہت سے اہل اللہ کی پونجی ٹاٹ کا ٹکڑا ہوتی تھی اور اسی کو تختِ سلیمان سمجھ کر مطمئن رہتے تھے۔ قرض میں ڈوبے ہوئے ممالک بھی دوالا ہونے کا اعلان کرکے قرض کی واپسی سے بچنا چاہتے ہیں۔
پنجاب کی لوک داستانوں یا رومانوی کہانیوں میں سے ایک ’’مرزا صاحباں‘‘ کی کہانی بھی ہے۔ صاحباں کی خواہش تھی کہ بستی کی سب گلیاں سُونی ہوجائیں تاکہ مرزا یار آسانی سے آ جا سکے (سنجی ہوجن سب گلیاں، وچ مرزا یار پھرے)۔ لیکن صاحباں کو بنیے سے شکایت تھی کہ اس کی دکان میں ہر وقت دیا جلتا رہتا ہے، چنانچہ جل کر کہتی ہے ’’ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے‘‘۔ کراڑ ہندو بنیے کو کہتے ہیں، لیکن اس کی دکان میں جلنے والا دیوا، دوالا نکلنے کا اعلان نہیں تھا، اس کے برعکس یہ روشنی گاہکوں کے انتظار اور ان کی رہنمائی کے لیے تھی۔ صاحباں نہ صرف اس دیے سے پریشان تھی بلکہ کراڑ کی کتّی بھی اس کی دشمن تھی جو ہر وقت بھونکتی رہتی تھی۔ اب تو بینک دوالیے ہوجاتے ہیں مگر چراغ تو کیا، بتیاں بھی بجھادیتے ہیں۔
ہندوئوں کا تہوار ’دوالی‘ بھی اسی دیوا یا چراغ کا مرہونِ منت ہے۔ دوالی یعنی چراغ بالنا، جلانا۔ یہ تہوار کاتک (ایک ہندی مہینا) کی پندرہ تاریخ کو ہوتا ہے جس میں لچھمی (لکشمی) کی پوجا کرتے اور کثرت سے چراغ جلاتے ہیں۔ مشہور فلمی گانا ہے ’’گھر گھر میں دوالی ہے مرے گھر میں اندھیرا‘‘۔ دوالی بھرنا یعنی پوجا کرنا، مٹھائی چڑھانا۔ ہندی کا ایک لفظ دوال ہے یعنی دینے والا۔ پنجاب میں بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جیسے ہم کسی کے دِوال نہیں۔ اردو میں اسے دَین دار (دال بالفتح) کہتے ہیں۔ ویسے دَین عربی کا لفظ ہے۔ ایک حدیث میں ’’غلبۃِ الدین‘‘ (قرض کاغلبہ) سے پناہ مانگی گئی ہے۔
ایک کثیر الاشتہار اخبار کی 22 جون کی اشاعت میں ایک ’’معروف‘‘ کالم نگار نے بڑا دلچسپ جملہ لکھا ہے ’’طبیعت فی الواقعی متوحِش پن کا شکار ہوگئی‘‘۔ متوحش کا لفظ کوئی منجھا ہوا قلم کار ہی استعمال کرسکتا ہے، لیکن عربی کے اس لفظ کے ساتھ ہندی کے ’’پن‘‘ نے سارا تاثر زائل کردیا۔ چلیے ’فی الواقع‘ کی جگہ ’’فی الواقعی‘‘ لکھنا کچھ لوگوں کی مجبوری بن گئی ہے، لیکن یہ ’’متوحش پن‘‘ کیا ہے؟ اس جملے میں الفاظ کی فضول خرچی یا اسراف بھی نمایاں ہے۔ بے تکی ترکیب کے بجائے یہ بھی لکھا جاسکتا تھا ’’طبیعت متوحش ہوگئی‘‘۔ جملہ بوجھل بھی نہ ہوتا اور مطلب بھی واضح ہوجاتا۔ متوحش (میم پر پیش) عربی کا لفظ اور اسم صفت ہے۔ مطلب ہے: وحشت میں ڈالنا، وحشت میں پڑنے والا۔ یعنی لکھنے والا خود وحشت میں پڑا اور قارئین کو بھی وحشت زدہ کردیا۔ اس کا ایک مطلب ’’نفرت کرنے والا‘‘ بھی ہے۔ جہاں تک ’پن‘ کا تعلق ہے تو یہ ہندی کا لفظ ہے اور بطور لاحقہ آتا ہے جیسے لڑکپن، بانکپن۔ کبھی بطور نسبت آتا ہے جیسے ’’لچ پن‘‘۔ (لچاپن)۔ پن کا لاحقہ فارسی الفاظ میں تو گوارہ کرلیا گیا ہے جیسے دیوانہ پن، لیکن متوحش جیسے عربی لفظ کے ساتھ ’’پن‘‘ لگانا بے ذوقی ہے، اور اچھی تحریر لکھنے کے لیے ذوق بھی درکار ہے خواہ کسی زبان میں لکھی جائے۔
اردو کا ایک لفظ ’اتاولا‘ بھی ہے، اس کے ساتھ بھی ’پن‘ آتا ہے۔ اتاولا بھی اُن الفاظ میں سے ہے جو متروک یا معدوم تو نہیں ہوئے، لیکن اب ان کا استعمال کم ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہ اچھا لفظ ہے۔ اب بھی بعض گھروں میں، خاص طور پر خواتین کے منہ سے سننے میں آتا ہے کہ اتنے اتاولے کیوں ہورہے ہو، یا اُتاولے پن سے باز رہو۔ مطلب اس کا بے صبری، عجلت وغیرہ ہے۔
ایک بہت اچھے ادیب اور بے مثال مزاح نگار، جو دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور اتنی ہی کتابوں کا مواد پال میں لگا ہوا ہے، ان کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ ’ایما‘ مذکر ہے، مونث نہیں۔ اور مکتبہ فکر کے بجائے ’مکتب فکر‘ لکھیں تو بہتر ہوگا۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ ’اسکول آف تھاٹ‘ کا ترجمہ ہے، چنانچہ اسکول کے لیے مکتب مناسب ہے، نہ کہ مکتبہ۔ شعبۂ اردو کے ایک استاد نے ماہ نامہ قومی زبان کے جون کے شمارے میں ’’تہہ و بالا‘‘ لکھا ہے۔ ’تہ‘ ایک ’ہ‘ کے ساتھ ہے جیسے ’تہ خانہ‘۔ دو ’ہ‘ کے ساتھ تو اس کا تلفظ ’’تہے‘‘ ہوجائے گا۔ استاد کے لیے ایک مشورہ ہے کہ وہ ’’سالوں‘‘ کے بجائے برسوں لکھا کریں۔ ماہنامہ کے صفحہ 63 پر ایک جملہ ہے ’’ابتدائی سالوں میں‘‘۔ سالے تو سالے ہی ہوتے ہیں، ابتدا کیا اور انتہا کیا۔ سالوں کا استعمال مناسب نہیں، چنانچہ برسوں لکھا جائے۔ جہاں تک دو ’ہ‘ کے استعمال کا تعلق ہے تو ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین احمد بھی اپنا نام ’’وجیہہ‘‘ لکھتے ہیں جس کا تلفظ ’’وجیہا‘‘ ہوجائے گا۔ جب ایک ’ہ‘ سے کام چل سکتا ہے تو دو کیوں؟
اور اب ایک عرصے بعد عبدالمتین منیری کے توسط سے ایک بڑے عالم مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی، سابق استاد دارالعلوم دیوبند، حال پروفیسر دہلی یونیورسٹی کا تبصرہ:
1۔ ’’اردو کی معروف اصطلاح ’’جاری وساری‘‘ میں ’’ساری‘‘ کو غلط کہنا اور اس کا معنی سرایت کرنے والا قرار دینا بجائے خود غلط ہے۔ ایسا کہنا عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے جہاں سے یہ لفظ آیا ہے۔ ’’ساری‘‘ کا معنی عربی میں وہی ہے جو ’’جاری‘‘ کا ہے، لہٰذا اردو میں مستعمل تعبیر ’’جاری وساری‘‘ ازروئے لغت بھی درست ہے اور اہلِ زبان اس کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
2۔ ’’قصائی‘‘ املا کو غلط کہا گیا ہے اور ’’قسائی‘‘ املا کو ہی درست قرار دیا گیا ہے۔ دراصل قصائی عربی کے قصاب کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ عربی میں قصب کے معنی آتے ہیں: گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا، اور قصاب گوشت کاٹنے والے کو کہتے ہیں۔ قصابی پیشہ ہوا، اور اسی کی یا قصاب کی بگڑی ہوئی شکل قصائی ہے، لہٰذا حرف ’’ص‘‘ درست ہے۔ اسے عربی کے لفظ قساوۃ سے مشتق سمجھنا دور کی کوڑی لانا ہے باعتبارِ ساخت بھی اور باعتبارِ معنی بھی۔ باعتبارِ ساخت وشکل تو اس طور پر کہ اگر قسائی کو قاسی یا قساوۃ سے لینا کہا جائے تو اس میں کئی جگہوں پر تبدیلی کرنی پڑے گی۔ ثانیاً سخت دلی کے مفہوم سے قریب تر مفہوم گوشت کاٹنے والا ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ لفظ قسائی کو قساوہ یا قاسی سے ماخوذ بنانے میں بہت تکلف بھی ہے اور معنی بھی مجازی تک رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس قصائی کو قصابی یا قصاب سے ماخوذ ماننے کی صورت میں یہ پاپڑ بیلنے نہیں پڑتے۔ لفظی تبدیلی کی ضرورت بھی کم ہے اور معنی بھی حقیقی نکلتے ہیں۔ ثالثاً گوشت کاٹنا اور فروخت کرنا کوئی معیوب کام نہیں ہے، جبکہ قساوتِ قلبی سخت معیوب چیز ہے، لہٰذا قسائی ’’س‘‘ سے لکھنے اور اسے قساوت سے مشتق کہنے میں مسلمانوں کی ایک برادری کی توہین محسوس ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی قسائی ’’س‘‘ سے مناسب نہیں ہے۔
البتہ بعض اہلِ زبان نے اسے قسائی ’’س‘‘ سے بھی استعمال کیا ہے، مگر قصائی ’’ص‘‘ کا بھی اہلِ زبان نے خوب استعمال کیا ہے اور میرے خیال میں مذکورہ بالا اسباب کی روشنی میں قصائی ’’ص‘‘ کے ساتھ استعمال کرنا ہی افضل وبہتر ہے۔‘‘
اس پرجوابی تبصرہ بعد میں۔