حزب اختلاف نے بجٹ کو غریب دشمن قرار دے دیا
خیبر پختون خوا حکومت نے مالی سال-20 2019ء کے لیے 900 ارب روپے کا سرپلس بجٹ پیش کردیا ہے۔ بجٹ میں بندوبستی اضلاع کے لیے 693 ارب، جبکہ قبائلی اضلاع کے لیے 162 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، جبکہ بجٹ 45 ارب روپے کا سرپلس ہے۔ بجٹ میں 319 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جن میں بندوبستی اضلاع کے لیے 236 ارب روپے، اور قبائلی اضلاع کے لیے 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ خیبر پختون خوا تیمور سلیم جھگڑا نے صوبائی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اخراجات پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے، آمدن میں اضافے کا سفر شروع کردیا گیا ہے جو خودانحصاری کی جانب ایک اہم قدم ہے، صوبائی حکومت نے ترقیاتی بجٹ کا نہ صرف حجم بڑھایا ہے بلکہ تھرو فارورڈ میں بھی ریکارڈ کمی کی گئی ہے، صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کے لیے ایک تاریخی پیکیج مختص کرکے ان اضلاع کے عوام سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کیا ہے۔ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اعلان کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان اور صوبائی کابینہ بھی اپنی تنخواہوں میں 12فیصد کمی کا اعلان کرتی ہے، اسی طرح آج کل کے مشکل معاشی حالات میں گریڈ 20سے گریڈ 22کے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، جبکہ گریڈ 17سے گریڈ 19کے سرکاری افسران کو ایڈہاک ریلیف الائونس کی مد میں 5فیصد،گریڈ 16 اور اس سے نیچے کے سرکاری ملازمین کے ایڈہاک ریلیف میں 10فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 60 سے بڑھا کر 63سال کردیا گیا ہے جس سے صوبائی حکومت کو سالانہ 20ارب روپے کی بچت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے روزگار کے نئے مواقع کم نہیں ہوں گے، نجی شعبے کی مدد سے آئندہ برس 40سے 50ہزار نوکریاں پیدا کی جائیں گی، کسی کی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بجٹ خطاب میں تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ نجی شعبے میں مزدوروں کی معاشی ضمانت کے لیے کم سے کم اجرت کو 15ہزار روپے سے بڑھا کر 17ہزار5سو روپے ماہوار کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی آمدن میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لائی جارہی ہیں، نئے مالی سال کے لیے صوبے کے اپنے محصولات کا ہدف 53 ارب 40 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اور بندوبستی اضلاع کا مجموعی 319 ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے اس سال کُل بجٹ 55 ارب روپے سے بڑھا کر 162ارب روپے کردیا ہے، اس سلسلے میں 10سالہ ترقیاتی منصوبے کے لیے 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ 24 ارب روپے لیویز اور خاصہ داروں کی17ہزار اسامیوں کو مستقل کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت نے قابلِ تقسیم محاصل سے اپنے حصے کے11ارب روپے قبائلی اضلاع کے لیے مختص کردیئے ہیں، جبکہ وفاق نے بھی 72ارب روپے اضافی دے کر این ایف سی کا 3فیصد حصہ دینے کا وعدہ پورا کردیا ہے۔ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ وہ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ صوبے کو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق 34 ارب 50کروڑ روپے کے پن بجلی کے بقایا جات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے کو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق تمام ادائیگیاں یقینی بنائیں۔
تیمور سلیم جھگڑا نے کہاکہ اس سال 53.4 ارب روپے محاصل اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے، 2023ء تک اس کو 100 ارب روپے تک بڑھایا جائے گا۔ خیبر پختون خوا ریونیو اتھارٹی نے پچھلے سال ٹیلی کام سیکٹر محاصل کے علاوہ 50 فیصد زیادہ ریونیو اکٹھا کیا۔ خیبر پختون خوا ریونیو اتھارٹی صوبے میں 58 سروسز میں سے 28 پر صوبائی ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کررہی ہے۔ اب تک صرف 9 سروسز 15 فیصد سے کم شرح پر ٹیکس ادا کررہی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ درحقیقت ہم بہت ساری جگہوں میں ٹیکسوں میں کمی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کے آغاز سے یہ خدشہ تھا کہ غیر ملکی امداد ملا کر بھی اِس سال ترقیاتی بجٹ کا حجم 116 ارب روپے ہوگا جس سے 6 تا 10 سال کا تھرو فارورڈ اور ایک پراجیکٹ کے لیے اوسط مختص رقم 10 فیصد سے بھی کم ہوتی۔تقریباً 1380 پراجیکٹس کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا گیا اور تھرو فارورڈ کو 203 ارب روپے تک کم کیا گیا، جس سے 190 ارب کے نئے پراجیکٹس کے لیے گنجائش پیدا کی گئی۔ تھرو فارورڈ کی مدت 3.9 سال تک نیچے لائی گئی اور ایک پراجیکٹ کے لیے اوسط مختص رقم 25 فیصد تک پہنچا دی گئی۔ وزیرخزانہ نے ایوان کو بتایاکہ مختلف اقدامات سے بچائے گئے 95 ارب روپے کو بھی ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا گیا۔ تمام تر تحفظات کے برعکس اس سال ترقیاتی بجٹ کے لیے ریکارڈ 319 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبائی بجٹ 2019-20ء میں سیاحت، کھیل اور امورِ نوجوانان کے لیے 100 فیصد اضافہ، شہری ترقی بشمول پشاور کی ترقی کے لیے 67 فیصد، زراعت کے لیے 63 فیصد، سائنس اور ٹیکنالوجی 62 فیصد، جنگلات 43 فیصد، انڈسٹریز 40 فیصد اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 40 فیصد اضافے کی تجویز شامل ہے۔ پسماندہ اضلاع کولائی پالس، بٹ گرام، ٹانک، کوہستان بالا، شانگلہ، چترال بالا و زیریں اور ہنگو کے لیے 1.1 ارب روپے کا اسپیشل فنڈ، تورغرکے لیے الگ پروگرام، اور دیر کے لیے اے ڈی پی میں نمایاں فنڈنگ کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے مطابق صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا کُل حجم 319 ارب روپے ہے جس میں سے 83 ارب قبائلی اضلاع اور 236 ارب روپے دیگر اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوں گے، اس طرح صوبے کا ترقیاتی بجٹ پنجاب کے مجوزہ بجٹ سے8.9 فیصد کم، جبکہ سندھ کے مجوزہ بجٹ سے 34 ارب روپے زیادہ ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق اے ڈی پی میں 962 جاری اور 394 نئی اسکیمیں شامل ہیں، اے ڈی پی میں 108 ارب روپے صوبہ اپنے محاصل سے دے گا، جبکہ 82 ارب کی غیرملکی امداد اور قرضہ بھی شامل ہے۔ پبلک سیکٹر میں 32 ہزار 682 ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جائیں گے، اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں 6 لاکھ سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
خیبر پختون خوا حکومت نے موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں ردو بدل کرتے ہوئے زرعی زمینوں، درزیوں اور نسوار پر ٹیکس میں اضافے، اور باڈی بلڈنگ کلب، پرائیویٹ کلینک، شادی ہالوں، سروس اسٹیشنوں اور ریسٹورنٹس پر نئی شرح کے ساتھ ٹیکس عائد کرنے کی سفارش کردی ہے۔
صوبائی اسمبلی میں پیش کردہ خیبر پختون خوا فنانس بل 2019ء کے تحت پراپرٹی ٹیکس ایکٹ1958، خیبر پختون خوا فنانس ایکٹ 1990، خیبر پختون خوا فنانس ایکٹ 1995، خیبر پختون خوا فنانس ایکٹ 1996، زرعی انکم ٹیکس آرڈیننس 2000 اور خیبر پختون خوا آرڈیننس 2002میں ترامیم پیش کردیں گئیں، جس کے تحت پراپرٹی ٹیکس کو مختلف شرح سے لاگو کیا گیا ہے۔ فنانس بل میں سفارش کی گئی ہے کہ صوبے میں کنٹریکٹرز، سپلائرز اور کنسلٹنٹس پر 5ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ٹیکس عائد کیا جائے۔فنانس بل میں ورجینیا اور بریلے تمباکو پر 6روپے فی کلو،سفید پٹہ روسٹیکا، خاکہ اور ڈانڈی سمیت دیگر تمباکوپر تین روپے فی کلو، جبکہ نسوار پر عائد ٹیکس میں اضافہ کرتے ہوئے ڈھائی روپے فی کلو کرنے کی تجویز ہے۔ حکومت نے زرعی اراضی پر بھی ٹیکس کے اضافے کی سفارش کی ہے جس کے مطابق ایک ایکڑ سے لے کر ساڑھے 12ایکڑ پر فی ایکڑ 225روپے عائد کیے جائیںگے، جبکہ ساڑھے 12ایکڑ سے زائد اراضی پر فی ایکڑ زرعی ٹیکس کی شرح 340روپے ہوگی۔حکومت نے باغات پر 900روپے فی ایکڑ زرعی ٹیکس عائد کی سفارش بھی کر دی ہے۔
دریں اثناء خیبرپختون خوااسمبلی میں اپوزیشن نے صوبائی بجٹ مالی سال-20 2019 ء کوغریب دشمن اور85ارب روپے خسارے کابجٹ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ بجٹ میں غریب عوام،کسانوں اور کارخانہ داروں کے لیے کچھ نہیں،اہم شعبوں کے لیے جہاں خطیررقم مختص کرنی چاہیے تھی وہاں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر فنڈرکھاگیاہے، بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جس کے باعث عوام کی قوت ِخریدجواب دے چکی ہے، روپے کی قدر میں روزبروز کمی آرہی ہے،بلین سونامی ٹری اور بی آرٹی میں ہونے والی کرپشن کے ثبوت ایوان میں پیش کریں گے۔ اپوزیشن لیڈراکرم درانی نے کہاکہ اسمبلی میں غلط اعداد و شمار پیش کرنے پر حکومت کے خلاف کارروائی کی جائے۔ گزشتہ بجٹ کے حساب سے نوسو ارب کے بجائے 815 ارب کا بجٹ ہونا چاہیے تھا۔ وفاق سے محصولات کا تخمینہ گزشتہ سال بھی غلط لگایا گیا تھا، حکومت وفاق سے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، امسال بھی وہی صورت حال ہے۔ پچھلے سال 65 ارب روپے خسارے کی نشاندہی کی تھی جو اب دستاویزات میں نظر آرہا ہے۔ سندھ اور پنجاب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے کے تمام دعوے غلط ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلین سونامی ٹری کے تحت لگنے والے پودوں اور درختوں میں آگ لگنے کے واقعات سامنے آئے ہیں، عوام پوچھتے ہیں آگ لگی ہے یا لگائی گئی ہے؟ جہاں جہاں آتشزدگی ہوئی اس کے ثبوت پیش کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن بجٹ کی تیاری کے وقت کسی زمیندار گروپ سے مشاورت نہیں کی گئی، ہم عقلِ کُل بنے ہوئے ہیں۔ صوبے میں نہری نظام تباہ ہے، دوسری طرف ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ چشمہ لیفٹ کنال کے لیے دو کروڑ رکھے گئے ہیں جبکہ اشتہارات کے لیے1.8ارب رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے! ایگری ڈویلپمنٹ اتھارٹی دوبارہ بحال کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پنشن کی عمر 63 سال کرکے سالانہ30ہزار نوجوان بے روزگارکرے گی۔ آئی ایم ایف کی ساری باتیں ہم نے مان لی ہیں، روپیہ کا حال سب کو معلوم ہے، ہمارا روپیہ بنگلادیشی کرنسی سے بھی نیچے آگیا ہے، آٹے اور دودھ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اشیائے خورونوش غریب آدمی نہیں خرید سکتا، دوائیوں میں تین سو فیصد اضافہ ہے۔ بجٹ تقریر میں تنخواہ میں اضافے کا ذکرہوا، لیکن پنشن میں اضافے کا کوئی ذکر نہیں کیاگیا۔ کوہاٹ ڈویژن ملک کو چلا رہا ہے، بجٹ میں آئل ریفائنری کے لیے صرف تین ارب رکھے گئے ہیں۔ ظلم کی حد ہوتی ہے، یہ ظلم ناقابلِ برداشت ہے۔ بجلی کے بلوں میں اضافہ کرنے سے یہاں انڈسٹری کیسے لگے گی! بی آر ٹی روٹ پر تین چار واسکٹ والے لوگ نظر آتے ہیں، لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔ یہ کب بنے گا؟ وزیراعظم بی آرٹی کی تحقیقات کے لیے بھی کمیشن بنائیں۔
جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی عنایت اللہ نے کہاکہ بجٹ میں لکھاگیا ہے کہ صوبائی حکومت 93 فیصد وفاقی حکومت پر انحصار کرتی ہے، موجودہ بجٹ دو سو ارب سے بھی زیادہ خسارے کا بجٹ ہوگا، صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت سے 45 ارب روپے بجلی کے خالص منافع کے بقایا جات نہیں ملے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ 57 ارب روپے ہے، این ایف سی ایوارڈ لینے میں صوبائی حکومت کیوں خاموش ہے؟ پن بجلی منافع کے لیے پرویز خٹک جس طرح مظاہرے کرتے تھے اب وہ مظاہرے کیوں نہیں ہورہے؟ 63 سالہ پالیسی کے سبب چار سال کے دوران پچاس ہزار لوگ بے روزگار ہوجائیں گے، 18 لاکھ سے زائد اسکولوں سے باہر بچوں کے باوجود تعلیم کی نسبت سڑکوں کے لیے زیادہ فنڈ رکھا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو لکھوں گا کہ فنڈ کی تقسیم یکساں بنیادوں پر نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ آبادی میں اضافے کے باوجود این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد کیوں نہیں کیا جارہا؟ بجٹ مفروضوں اور غلط اعداد وشمار پر مبنی ہے، سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے چکدرہ سے گلگت تک براستہ دیر جس سڑک کا وعدہ کیا تھا اس کے لیے مختص رقم کہاں ہے؟ حکومتی ناانصافیوں کے خلاف عدالت جائیں گے۔