آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ اب بھارت کے پاس مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے پاکستانی ہم منصب وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خطوط کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تمام حل طلب مسائل پر مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی بھارت کو کشمیر سمیت تمام حل طلب امور پر مذاکرات کی دعوت دینے کا سلسلہ جاری رکھا تھا، مگر نریندر مودی انتخابی ضرورتوں اور مصلحتوں کے گھوڑے پر سوار مذاکرات کی ہر دعوت کو نظرانداز کررہے تھے۔ انہیں یہ خدشہ تھا کہ اس مرحلے پر پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر مثبت ردعمل سے انتخابی نقصان ہوسکتا ہے۔ مودی انتخابی مہم میں پاکستان دشمنی کے کارڈ کا بے رحمی سے استعمال کرنا چاہتے تھے، سو انہوں نے جم کر یہ کھیل کھیلا۔ اب جبکہ وہ انتخابی جھنجھٹ سے فارغ ہوگئے ہیں تو انہوں نے طاق میں پڑے خطوط کو جھاڑکر ان کے جواب لکھنا شروع کردئیے ہیں۔ نریندر مودی کے ساتھ جو کچھ کرغیزستان میں شنگھائی کانفرنس کے موقع پر ہوا وہ بھارتی منصوبہ سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ شنگھائی کانفرنس میں مودی دیوار سے لگے اور احساسِ تنہائی کا شکار رہے، اور وزیراعظم عمران خان روسی صدر ولادی میر پوٹن سے چینی صدر شی جن پنگ تک خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیتے رہے۔ بھارتی میڈیا نے اس تفریق کو شدت سے محسوس بھی کیا۔ یہ افرادکا معاملہ نہیں بلکہ ملکوں کی بات تھی۔ روس اور چین جیسے علاقائی ممالک وزیراعظم پاکستان کی صورت میں حقیقت میں پاکستان کی پذیرائی کرکے دنیا کو ایک پیغام دے رہے تھے۔ اسی طرح مودی کے ساتھ بے اعتنائی کا سلوک بتا رہا تھا کہ علاقے کے طاقتور ممالک بھارت سے خوش نہیں، اور اس ناخوشی کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر جس طرح اپنے پڑوسی ہمسایہ ملکوں کے خلاف سازشیں کررہا ہے اس نے پاکستان اور چین کے بعد روس کو بھی غیر مطمئن کررکھا ہے۔ روس اور بھارت کی دوستی سوویت یونین کے عہد سے بہت گہری چلی آرہی ہے، مگر جب سے بھارت نے علاقائی ملکوں کے خلاف گھیرائو میں امریکہ کا ساتھ دینا شروع کیا ہے، علاقے میں اُس کی تنہائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
نریندر مودی کو شنگھائی کانفرنس کے بعد بخوبی اس بات کا احساس ہوچکا ہوگا کہ دنیا صرف مغرب اور امریکہ ہی نہیں بلکہ اس کے دائیں بائیں بھی موجود ہے۔ امریکہ کے کندھوں پر سوار ہوکر بھارت نہ روس اور چین بن سکتا ہے، نہ پاکستان کو اپنا مطیع و باج گزار بنا سکتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف شنگھائی کانفرنس کی سائیڈ لائن کے طور پر عمران خان اور مودی کی ہیلو ہائے تھی۔ اس سے کم ازکم بالمشافہ ملاقات کا حجاب تو ختم ہوگیا۔ اس ملاقات سے علاقائی ملکوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر دور کے ممالک پاکستان اور بھارت کو ان کے حال پر چھوڑدیں تو علاقائی ممالک دونوں کو ایک میز پر بٹھانے، اور اس سے بڑھ کر دونوں کے درمیان تنازعات ختم کرانے کا کرشمہ دکھا سکتے ہیں۔ اسی عرصے میں پاکستان نے بھارت کو پلوامہ جیسے ایک اور حملے کے خطرے کی اطلاع دی۔ بھارت نے اس اطلاع پر کان نہیں دھرا اور پلوامہ میں ایک اور حملے میں بھارت کے کئی فوجی مارے گئے۔ یہ کارروائی ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کے حوالے سے گرے لسٹ سے نکالنے یا بلیک لسٹ کرنے کے معاملے کا جائزہ لیا جانا تھا۔ بھارت کی پوری کوشش تھی کہ اس مرحلے پر کوئی ایسی کارروائی کی جائے جس کا الزام لگاکر ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی حتمی کوشش کی جاسکے، مگر پاکستان چونکہ پہلے ہی بھارت کو اس حملے کے خدشے سے آگاہ کرچکا تھا، اس لیے بھارت کے پاس شوروغل اور الزام تراشی کا جواز باقی نہیں تھا۔ آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ اب بھارت کے پاس مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
حالات و واقعات کے اس وسیع کینوس پر ایک اور رنگ اُس وقت اُبھرا جب مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے یہ بات انکشاف کے انداز میں بیان کرکے ماحول کو تجسس اور تحیر سے بھردیا کہ حریت کانفرنس بھارتی حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہوچکی ہے۔ ستیہ پال ملک کا کہنا تھا کہ حالات میں اب بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہے، جہاں ایک وقت میں دہلی سے جانے والے پارلیمانی وفود اور مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کے لیے دروازے بند کیے گئے تھے، وہیں آج یہ خوشی کی بات ہے کہ حریت بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار کررہی ہے۔ سنگ باری کم ہوچکی ہے اور مقامی نوجوانوں کی جنگجو صفوں میں بھرتی کا عمل رک گیا ہے۔ ستیہ پال ملک کا یہ انکشاف نما بیان میرواعظ عمر فاروق کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا کہ حریت کانفرنس مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارتی حکومت سے بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ستیہ پال ملک کے بعد بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے نیشنل وائس پریذیڈنٹ اور جموں وکشمیر کے امور کے انچارج اوینیش رائے کھنہ نے سری نگر میں ہی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت آئینِ ہند کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے میرواعظ عمر فاروق کے بیان کو لچک سے تعبیر کرتے ہوئے دیر آید درست آید قرار دیا۔ میرواعظ عمر فاروق کا یہ انداز ِبیاں قطعی نیا نہیں بلکہ وہ مسلسل اس بات پر زور دیتے چلے آئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے حریت بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ کشیدگی کے حالیہ تمام ادوار میں بھی میر واعظ عمر فاروق بامعنی مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ خود حریت کانفرنس کے ترجمان نے بھی کہا کہ میرواعظ نے کوئی نئی بات نہیں کی، وہ اس مؤقف کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میرواعظ عمر فاروق کی پیشکش نئی ہے اور نہ ماحول میں اس انداز کی تبدیلی کے آثار اور امکانات دکھائی دینا کوئی نئی بات ہے۔ وہ خود حریت کانفرنس کے وفود کی قیادت کرتے ہوئے دہلی میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ کشمیر ماضیِ قریب میں اس بدلی ہوئی فضا سے آشنا رہ چکا ہے جہاں گولی کی آوازیں بہت کم رہ گئی تھیں اور ہر طرف مذاکرات کا راج و رواج غالب اور بولی کا چلن عام تھا۔ ایک نہیں، مذاکرات کے کئی کئی اسٹیج سجے ہوئے تھے، اور جس طرف دیکھتے امن، پیار، محبت کے میٹھے بول اور مدھر گیت سنائی دے رہے تھے۔ حریت کانفرنس کی قیادت دہلی اور اسلام آباد آ جا رہی تھی اور آزادکشمیر میں سردار عبدالقیوم خان جیسے قدآور اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ جیسے نعروں کے تخلیق کار دہلی کے دورے کررہے تھے۔ اسلام آباد، لاہور، دہلی، امرتسر میں دونوں ملکوں کے حکام اور کشمیری شہری جمع ہوکر تاریخ کی ایک نئی کتاب رقم کرنے کے عہد و پیماں کررہے تھے۔ جنرل پرویزمشرف نے بھی کارگل اور آگرہ کی کشیدگی کے بعد بہت خلوص سے بھارت کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کشیدگی اور کشمکش قوموں کے وسائل اور صلاحیتوں کوگھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹ جاتی ہیں۔ جنرل پرویزمشرف اعتماد سازی کے لیے ہر قدم اُٹھا رہے تھے، وہ تنہا نہیں تھے بلکہ ان کے پیچھے فوج کا ادارہ تھا۔ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ مظفرآباد میں کریانے کی دکانوں کی طرح کشمیر کی مسلح تنظیموں کے دفاتر بند کرنے کے علاوہ کریک ڈائون کا ہر انداز اپنایا جارہا تھا۔ جنرل پرویزمشرف سری نگر پر پاکستان کے روایتی اور قدیم دعوے سے دست بردار ہونے کو بھی تیار تھے۔ اس ساری مشق کا بیرومیٹر کشمیر تھا۔ بھارت نے کشمیر پر پاکستان کو سیاحتی حقوق سے زیادہ کچھ دینے پر آمادگی ظاہر نہیں کی، جس سے جنرل پرویزمشرف اپنے حلقۂ اثر یا بقول جنرل اشفاق پرویز کیانی ’’کانسٹیچونسی‘‘ میں کمزور ہوتے چلے گئے اور آخرکار مذاکرات اور ماحول کا قالین اُلٹ کر رہ گیا۔
اب ایک بار پھر مذاکرات اور ماحول کی وہی بساط بچھ سکتی ہے۔وقت ایک بار پھر ماضی کے مناظر سے آشنا ہو سکتا ہے۔حریت کانفرنس دہلی کے راج بھون کے چکر کاٹ سکتی ہے۔اسلام آباد اور دہلی میں مشترکہ محفلیں پھر جم سکتی ہیں۔دوستی اور پیار محبت کے متروک محاورے اور اصطلاحات دوبارہ مستعمل ہوسکتے ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ میکنزم کے معاہدے کی کرم خوردہ اور گرد آلود فائل دوبارہ صاف ہو کر روبہ عمل آسکتی ہے، جس کا اشارہ پاکستان کی طرف سے ایک اور پلوامہ طرز کے حملے کی پیشگی اطلاع کے ذریعے بھی دیا گیا تھا۔بھارت نے اس پر زیادہ سرگرمی اور سنجیدگی تو شاید نہیں دکھائی، مگر یہ حملہ ہو کررہا،تاہم اِس بار بھارت اس کا الزام پاکستان پر دھرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، کیونکہ پاکستان پیشگی اطلاع کی ذمہ داری پوری کرچکا تھا، پلوامہ میں جا کر حملہ روکنا پاکستان کے بس سے باہر تھا۔اس آئیڈیل ماحول کے لیے شرطِ اوّل یہ ہوگی کہ بھارت کشمیریوں کو کیا دیتا ہے؟سو فیصد آبادی کو مطمئن اور مسرور کرنا ممکن نہیں ہوتا، مگر اکثریتی آباد ی کا اطمینان اور قبول وایجاب کسی بھی معاہدے کی کامیابی کی ضمانت ہو تا ہے۔
میر واعظ کے بیان میں لچک اور تھکن تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ خودفریبی کے ایک اور دور کی ابتدا ہوگی۔ کشمیریوں کے جذبات، احساسات، خواہشات، مطالبات، زمینی حقائق، میرواعظ کی صورت نرم اور سید علی گیلانی کی صورت گرم قیادت… کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ دہلی کی سمت سے وادی کے عوام کو اب بھی لُو کے تھپیڑے اور جھونکے ہی مل رہے ہیں۔ اب تو مضطرب اور بے چین آبادی کو برہان وانی اور ذاکر موسیٰ کی صورت میں تازہ دم ہیرو بھی میسر آگئے ہیں۔ اس لیے اب کی بار زیادہ اخلاص اور ہوش مندی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔