۔’’زرداری کی گرفتاری کے ڈرامے کا اختتام کس ’’ ڈیل‘‘ پر ہوگا؟۔

معروف کالم نگار اور تجزیہ نگار ذوالفقار قادری نے سابق صدر آصف علی زرداری کی حالیہ گرفتاری کے تناظر میں بروز منگل 11 جون 2019ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے تحریر کردہ کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

۔’’کچھ عرصہ پیشتر آصف علی زرداری نے ایک نجی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیب چیئرمین کون ہوتے ہیں انہیں گرفتار کرنے والے!!!؟ لیکن جس نیب چیئرمین کو انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں پیغام بھیجا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے عبوری ضمانت کی میعاد میں اضافے پر مبنی درخواست رد ہونے کے بعد اسی نیب کے نچلے درجے کے افسران نے انہیں ان کی رہائش گاہ ’’ زرداری ہائوس‘‘ سے گرفتار کرلیا۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پر منی لانڈرنگ اور جھوٹے بینک اکائونٹس کے ذریعے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے کیسز ہیں۔ نیب نے وقتی طور پر فریال تالپور کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ اسے نیب کی مصلحت کہا جائے یا پھر کسی پلان کا حصہ، اس کی خبر تو بہرحال آئندہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گی۔ (واضح رہے کہ فریال تالپور کو گرفتار کر لیا گیا ہے)
آصف علی زرداری کی یہ کوئی پہلی گرفتاری نہیں ہے۔ وہ 1985ء میں پہلی مرتبہ اُس وقت گرفتار ہوئے تھے، جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر نواب شاہ سے الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے گوٹھ خیر شاہ کے پولنگ اسٹیشن پر ہنگامہ برپا کیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں گوٹھ کے باشندوں نے پکڑ کر فوجیوں کے حوالے کردیا تھا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد انہیں آزاد کردیا گیا۔ ان انتخابات میں آصف علی زرداری اور قومی اسمبلی کی نشست پر کھڑے ہونے والے ان کے والد رئیس حاکم علی زرداری کی، نواب شاہ کے سیدوں نے ہراکر، ضمانتیں تک ضبط کروا دی تھیں۔
دسمبر1987ء میں بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد آصف علی زرداری کی قسمت کا ستارہ بھی چمک اٹھا۔ 1988ء میں جنرل ضیاء کی حادثاتی موت کے بعد بے نظیر بھٹو کے بطور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نواب شاہ کے زرداریوں کے گھوڑے جو قبل ازیں لال شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سمن سرکار اور جام ڈاتار کے میلوں کے مواقع پر دوڑا کرتے تھے، وہ اب وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں بادام کھانے لگے، اور آصف علی زرداری ملک کے ’’ ڈیفیکٹو‘‘ وزیراعظم بن گئے۔ اگست1990ء میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اٹھارہ ماہ کے مختصر عرصۂ اقتدار کے بعد وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی تو صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی کے جو اسباب بیان کیے، اُن میں سے ایک سبب آصف علی زرداری کی جانب سے امورِ مملکت میں مداخلت اور کرپشن کو بھی قرار دیا گیا تھا۔ آصف علی زرداری1990ء سے مختلف کرپشن کیسوں میں جیل میں رہے۔ 1993ء میں جب اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کے سبب صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف کے مابین اختلافات بڑھ گئے تو بے نظیر بھٹو اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بن گئیں۔ پھر بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے پتّے بڑی مہارت کے ساتھ کھیلے اور جس اسٹیبلشمنٹ کے صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو حکومت کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے برطرف کردیا تھا، بے نظیر بھٹو نے اسی صدر غلام اسحاق خان سے آصف علی زرداری کو رہاکرواکر ماحولیات کا وفاقی وزیر مقرر کرواکر حلف اٹھوا لیا۔ آگے چل کر اکتوبر1993ء کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو نے دوبارہ منتخب ہوکر مسندِ اقتدار سنبھالی اور غلام اسحاق خان کی جگہ پر اپنے پارٹی رہنما فاروق لغاری کو ملک کا صدر منتخب کروایا۔ اس کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو ایک سندھی جج سید سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کرکے مطمئن ہوگئیں۔ لیکن 1996ء میں جب صدر فاروق لغاری نے بے نظیر سرکار کو برطرف کیا تو آصف علی زرداری کو گورنر ہائوس پنجاب سے گرفتار کیا گیا۔ بعداز الیکشن مسندِ اقتدار پر ایک مرتبہ پھر بطور وزیراعظم نوازشریف براجمان ہوگئے اور سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا سربراہ بنایا گیا، جنہوں نے بے نظیر بھٹو پر سرے محل، بی ایم ڈبلیو کیس سمیت گیارہ کیس دائر کر ڈالے۔
آصف علی زرداری مختلف الزامات کے تحت کراچی سینٹرل جیل میں قیدی بنے ہوئے تھے۔ بدنام زمانہ رانا مقبول احمد آئی جی سندھ اور فاروق امین قریشی ڈی آئی جی کراچی مقرر تھے۔ یہ 15اور16مئی 1999ء کی درماینی رات تھی۔ آصف علی زرداری جیل کے اندر اپنے سیل میں محوِ خواب تھے کہ انہیں ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ حیدر زمان نے آکر جگایا اور اس بات سے آگاہ کیا کہ آپ کو ریمانڈ کے لیے سی آئی اے پولیس کراچی کی ایک ٹیم کے حوالے کیا جارہا ہے۔ اُن دنوں ٹنڈو ٹھوڑو میں رہنے والے حیدرآباد کے باشندے ڈاکٹر نجف مرزا کراچی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ سی آئی اے پولیس کراچی نے کچھ کیسز میں تحقیقات کے حوالے سے آصف علی زرداری کو ان کے سپرد کرنے کے پیپر جیل انتظامیہ کے حوالے کیے، اور جیل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نجف مرزا نے پیپر لے کر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد قیدی آصف علی زرداری کو سی آئی اے پولیس کراچی کے حوالے کردیا۔ اُن دنوں کراچی سی آئی اے سینٹرکی بڑی دہشت ہوا کرتی تھی۔ اچھے بھلے نامی گرامی جرائم پیشہ افراد کے چہرے بھی سی آئی اے سینٹر کراچی کا نام سن کر فق ہوجایا کرتے تھے۔ سی آئی اے پولیس پارٹی نے آصف علی زرداری کو کراچی جیل سے اٹھاکر سی آئی اے سینٹر صدر کراچی کی بلڈنگ کی بالائی عمارت کے اُس سیل میں رکھا جہاں پر انتہائی خطرناک مجرموں سے تحقیق کی جاتی ہے۔ کسی کو بھی اس مقام پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بقول آصف علی زرداری ’’19مئی1999ء کی رات کچھ نامعلوم افراد نے انہیں مارنے کی کوشش کی۔ ان کے ہاتھ اور پیر پکڑ کر انہیں ان کے کاندھوں سے پکڑ کر گردن دبائی گئی اور مزاحمت کرنے پر ان کی زبان کاٹ دی گئی۔ ان کی چیخ و پکار پر ڈی ایس پی عبدالرشید موقع پر آن پہنچے، جنہوں نے انہیں ان آدمیوں کے شکنجے سے چھڑوایا اور پھر وہ لوگ بھی انہیں وہیں پر چھوڑ کر چلے گئے۔ اتنے میں سی آئی اے پولیس کراچی کے ایس ایس پی منظور مغل بھی پہنچ گئے، جنہوں نے انہیں زخمی حالت میں اپنی گاڑی میں بٹھاکر اسپتال پہنچایا۔ سی آئی اے پولیس کا مؤقف تھا کہ آصف علی زرداری نے تحقیق سے بچنے کی خاطر ازخود ہی شیشے کے گلاس کو توڑ کر اپنی زبان کو زخمی کیا ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے زرداری پر خودکشی کرنے کی دو ایف آئی آر 99/65 اور66/99 بھی داخل کی گئیں۔ بہرحال اس واقعے کے بعد آصف علی زرداری کو اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اسپتال سے ہی انہوں نے عدالت سے رجوع کیا کہ انہیں مارنے کی کوشش کی ایف آئی آر داخل کی جائے۔ عدالت کے حکم پر سیف الرحمن اور ان کے بھائی مجیب الرحمن، آئی جی سندھ رانا مقبول، آئی جی کراچی فاروق امین قریشی، کراچی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نجف مرزا پر آصف علی زرداری کو مارنے کی کوشش اور سازش کرنے کا کیس داخل کیا گیا۔ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان نے ہائی کورٹ سے ضمانت کروائی۔ آخر وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کے مابین کارگل کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ آخرکار اکتوبر1999ء میں نوازشریف کو اقتدار سے ہٹاکر جنرل پرویزمشرف نے اقتدار پر خود قبضہ کرلیا۔ نوازشریف اور سیف الرحمن جیل میں جاکر آصف زرداری سے جا اکٹھے ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کو ملک چھوڑنا پڑا، جنہوں نے ملک سے باہر بیٹھ کر اپنے پتّے کھیلے اور امریکی بااختیار و مقتدر حلقوں کے ذریعے ان کے جنرل پرویزمشرف سے بیک ڈور روابط بحال ہوئے۔ بالآخر 8برس کی اسیری کے بعد22 نومبر 2004ء کو آصف علی زرداری کو ضمانت پر جیل سے رہائی نصیب ہوسکی۔ اور پھر جلد ہی وہ بھی بیرونِ ملک چلے گئے۔ پرویزمشرف سرکار نے ان کی بیرونِ ملک روانگی میں کسی نوع کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ آصف علی زرداری رہائی ملنے کے بعد اکثر دبئی اور امریکہ میں رہنے لگے۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں آخری ایام میں بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تک ہی محدود کرڈالا تھا۔ بے نظیر بھٹو اپنی واپسی کا معاملہ امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کے ذریعے جنرل پرویزمشرف سے طے کرکے 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس پہنچیں اور اپنا تاریخی استقبال دیکھ کر پرویزمشرف سے ہونے والی ڈیل سے دست بردار ہوگئیں۔ آخرکار 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک خودکش بم دھماکے میں وہ شہید ہوگئیں۔ ان کی اس شہادت کے بعد 2008ء میں پی پی پی حکومت قائم ہوئی تو اُس وقت ڈاکٹر نجف مرزا ایس ایس پی ٹھٹہ مقرر تھے۔ آئی جی سندھ صلاح الدین بابر خٹک نے انہیں وہاں سے ہٹاکر حیدرآباد کا ایس ایس پی مقرر کردیا۔ آصف علی زرداری کو جونہی ڈاکٹر نجف مرزا کی حیدرآباد میں اس تعیناتی کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوراً سندھ سے ٹرانسفر کرنے کا کہا۔ ڈاکٹر نجف مرزا اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا رشتے میں کزن بھی ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی آصف علی زرداری سے یہ کہا کہ میری دوستی کی وجہ سے آپ معاملے کو درگزر کردیں، لیکن آصف علی زرداری نے ان کی یہ بات نہیں مانی اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو اس بارے میں کسی قسم کا تعاون کرنے سے منع کردیا، اور پھر جلد ہی ڈاکٹر نجف مرزا کو اگست 2008ء میں سندھ بدر کردیا گیا۔ سندھ بدری کے اس نوبرس کے عرصے میں نجف مرزا کی پنجاب، کشمیر، آئی بی، پورٹ قاسم اور ایف آئی اے میں پوسٹنگ رہی۔ بشیر میمن کی ڈی جی ایف آئی اے تعیناتی کے بعد ڈاکٹر نجف مرزا کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سائوتھ سندھ مقرر کیا گیا، جنہوں نے آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات کرکے ثبوت نیب کے حوالے کیے، یعنی اس کے لیے پھر بھی سندھ کے دو افسران نے کردار ادا کیا۔ 2008ء کے الیکشن میں اقتدار پی پی پی کو ملا تو کچھ عرصے کے بعد زرداری جنرل پرویزمشرف کو گھر بھیج کر خود عہدۂ صدارت پر متمکن ہوگئے اور عرصہ پانچ سال تک وفاق میں ان کی حکمرانی رہی، اور سندھ میں تو2008ء سے مسلسل پی پی پی کی ہی حکومت ہے، اس کے باوجود نہ بے نظیر بھٹو کے قاتل گرفتار ہوسکے اور نہ ہی اہلِ سندھ کو کسی قسم کا کوئی ریلیف مل پایا ہے۔ پھر بھی سندھ کے عوام انہیں ووٹ دے کر منتخب کرتے چلے آرہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد قدرت اور عوام نے آصف علی زرداری کو بہترین موقع فراہم کیا تھا کہ وہ سندھ کے عوام کی تاریخی خدمت سرانجام دیتے۔ لیکن آصف علی زرداری اور ان کی ٹیم نے اس کے برعکس اہلِ سندھ کو مایوس کیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے تعاون سے وزیراعظم بننے والے عمران خان کو بھی اہلِ سندھ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ زرداری کی گرفتاری، نوازشریف کی گرفتاری کے بعد معاملات کو بیلنس کرنے کی خاطر کی گئی ہے۔ بیشتر افراد کا خیال ہے کہ زرداری کی گرفتاری کے بعد سارا مال بھی واپس آئے گا اور سندھ ترقی کرے گا، لیکن یہ ایک خام خیالی ہے۔ زرداری جیل کے پرانے قیدی ہیں۔ ایسے قیدی تو جیل میں رہنا پسند کرتے ہیں، بلکہ اگر الزامات درست بھی ہوتے ہیں تب بھی اس طرح کے قیدی مال واپس نہیں کیا کرتے۔ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر فیصلے کیے ہیں۔ نوازشریف کے مقابلے میں زرداری سے ڈیل اسٹیبلشمنٹ کو سستی پڑے گی۔ آگے چل کر اس نوع کے امکانات بھی موجود ہیں کہ زرداری کا اسٹیبلشمنٹ سے معاہدہ ہوجائے اور دوسرے سب دیکھتے ہی رہ جائیں، کیوں کہ ماضی میں اس طرح کے مذاق ہمارے ملک میں ہوتے رہے ہیں۔‘‘