مارک مینسن…ترجمہ وتلخیص: ناصر فاروق
انیسویں صدی کے اواخر میں، سوئس الپس میں خوشگوار گرمیوں کا گزر تھا، تارک الدنیا فلسفی پہاڑ کی چوٹی سے اترا، اور اپنی جمع پونجی سے ایک کتاب شائع کی۔ یہ کتاب انسانوں کے لیے اُس کا تحفہ تھی۔ یہ کتاب جدید دنیا کے دروازے پر ایک چونکا دینے والی دستک تھی۔ ایسے الفاظ کا سلسلہ، جو اُس کی موت کے بعد بھی گونجتا رہا۔ اُس نے اعلان کیا (عیسائیت کا) خدا مرچکا! (جرمن فلسفی فریڈرک نٹشے پادریوں کے خاندان سے تھا۔ وہ عیسائیت کا سخت نقاد تھا۔ وہ کہتا تھا کہ عیسائیت کا ’تصورِ خدا‘ کسی صورت قابلِ قبول نہیں، ایک ایسا خدا جو انسانوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہ رکھتا ہو بلکہ ظالم چرچ کے ذریعے معاملات کرتا ہو۔ جب سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں چرچ کی مطلق العنانیت کمزور پڑی، لوگوں نے چرچ کی اندھی تقلید چھوڑ کرسائنس کی اندھی پیروی شروع کردی، جب معاشرتی روایات دم توڑ رہی تھیں، جب خدائی اخلاقیات مشینی زندگی میں کچلی جارہی تھیں، جب احساسات کی جگہ حسیات نے لے لی اور خدا کی ہر صورت زندگی سے معدوم ہوگئی، نٹشے نے اعلان کیا کہ ’خدا مرچکا ہے کیونکہ ہم نے اسے قتل کردیا ہے‘۔ مارک مینسن آگے چل کر اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہیں۔ یہ اعلان دراصل جدید سائنسی دور کی ناپائیداری پر نوحہ تھا۔ مترجم) اُس نے اعلان کیا کہ اُس کی موت دورِ جدید کے خطرے کی گونج بن جائے گی، وہ دورِ جدید جو ہم سب کے لیے گمبھیر مسئلہ بن جائے گا۔ اس فلسفی نے خبردار کیا، وہ نگہبان کی طرح سب سے مخاطب ہوا۔ مگر افسوس کہ اس کی کتاب کی چالیس سے زائد کاپیاں بھی نہ خریدی گئیں۔
میٹا سالس پو پھٹنے سے پہلے بیدار ہوئی۔ پانی ابلنے رکھا تاکہ فلسفی کی چائے تیار کی جاسکے۔ وہ کچھ برف بھی لائی تاکہ اُس کے دُکھتے گھٹنوں کے جوڑوں کی سکائی کرسکے۔ اُس کے کپڑے تیار کیے، اور پھر اس کے بال سنوارے، مونچھوں کی تراش خراش کرتے ہوئے خیال آیا کہ نیا ریزر لانا بھول گئی تھی۔
یہ مسلسل تیسرا موسمِ گرما تھا، میٹا، نٹشے کی مسلسل خدمت کررہی تھی۔ وہ اُسے بھائی کی طرح چاہتی تھی۔ جب ایک مشترکہ دوست نے دونوں سے کہا تھا کہ وہ شادی کیوں نہیں کرلیتے تو وہ بہت زور سے ہنسے تھے۔ یہ میٹا سالس کا نٹشے کے ساتھ آخری موسم گرما تھا۔
وہ نٹشے سے ایک ڈنر پارٹی میں ملی تھی۔ اُس نے اُسے پیانو بجاتے سنا تھا، دوستوں سے باتیں کرتے سنا تھا۔ نٹشے اپنی تحریروں کے برعکس ایک ملنسار اور حلیم طبیعت آدمی تھا۔ بہت محبت اور توجہ سے بات سنا کرتا تھا۔ شاعری کا دلدادہ تھا، درجنوں نظمیں اسے زبانی یاد تھیں۔ وہ گھنٹوں بیٹھا الفاظ کے کھیل کھیلا کرتا تھا۔ وہ چند ہی الفاظ سے محفل پر چھا جاتا تھا، جیسے کہ وہ کہتا ’’اپنے بارے میں بہت زیادہ باتیں، باتوں کی اوٹ میں چھپنا بھی ہوسکتا ہے‘‘ اورکمرے پر سکوت سا چھا جاتا۔ میٹا، نٹشے کی موجودگی میں خود کودم بخود محسوس کرتی تھی کیونکہ وہ نٹشے کی قوتِ فکرکو پالینا چاہتی تھی، مگر ہمیشہ چند قدم پیچھے ہی رہ جاتی تھی۔ حالانکہ میٹا سالس اپنے وقت کی بڑی مصنف تھی، سوئٹزرلینڈ کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون تھی، چار زبانیں روانی سے بولا کرتی تھی، اور پورے یورپ میں عورت کے حقوق پر اُس کے مضامین چھپا کرتے تھے۔ تحریکِ نسواں کی روحِ رواں تھی۔ مگر وہ نٹشے کی قوتِ فکر کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی۔ میٹا اس معاملے میں تنہا نہیں تھی۔ یورپ کی قابل ترین اور دولت مند خواتین نے نٹشے کی خدمت کی، یہ سب تحریکِ نسواں سے متعلق تھیں، اور سمجھتی تھیں کہ نٹشے کا فلسفہ ان کی مدد کرے گا۔ جبکہ نٹشے کا اپنا یہ حال تھا کہ وہ تحریکِ نسواں کے خیال کو ہی مضحکہ خیز قرار دیتا تھا۔
کئی سال کی رفاقت سے میٹا پر یہ واضح ہوا کہ نٹشے کی شخصیت میں بڑے نمایاں تضاد تھے۔ نٹشے نے شدت سے طاقت کے حق میں لکھا مگر خود کمزور اور لاغرفرد تھا۔ اُس نے ذمے داری اور خودانحصاری کی تبلیغ کی مگر خود ساری زندگی دوستوں اور گھر والوں پر انحصار کیا۔ اُس نے تنقید کرنے والوں کی دانش کو حقیر کہا، اور اپنی مقبولیت میں کمی کو اپنی غیر معمولی ذہانت سے تعبیر کیا۔ جیسا کہ اُس نے ایک بار دعویٰ کیا کہ ’’میرا وقت ابھی نہیں آیا کہ کچھ لوگ بعد از مرگ پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ مگر ان تضادات کی کچھ فطری وجوہات بھی تھیں۔ نٹشے بچپن سے ہی بیمار بچہ تھا۔ میراث میں اُسے نیورو لوجیکل ڈس آرڈر کی شکایت ملی، جو تاعمر مگرین کے درد کی صورت پیچھا کرتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عمر کے وسط میں پاگل ہوچکا تھا۔ وہ روشنی کے معاملے میں انتہائی حساس تھا۔ نیلے شیشوں والے موٹے چشمے کے بغیر دن کی روشنی میں باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ تیس سال کی عمر میں وہ تقریباً نابینا ہوچکا تھا۔ جب وہ جوان تھا تو فوج میں بھی شامل ہوا اور محاذِ جنگ پر گیا، جہاں شدید بیمار پڑا۔ علاج کے لیے تیزابی دواؤں کا استعمال کیا، جس سے اُس کا معدہ تباہ ہوگیا، اور ساری زندگی وہ پیٹ بھرکر کھانا نہ کھاسکا۔ زخموں نے اس کے جسم کو غیر لچکدار بنادیا تھا، زیادہ ہل جُل نہیں سکتا تھا۔ 1880ء کے سال میں وہ 365 دنوں میں سے 260 دن بستر پر ہی پڑا رہا تھا۔
نٹشے کا تعلق جس دور سے تھا، وہ یورپ میں مذہب عیسائیت کی کمزور پڑتی ساکھ اور جدید سائنس کی مستحکم ہوتی خدائی کا تھا۔ سائنسی انقلاب نے روحانی مذاہب کی حکمرانی ختم کردی تھی۔ اس صورت حال نے نٹشے کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ نئے سیاسی ومعاشی نظریات انسانی زندگی پر چھا رہے تھے۔ تاہم تمام مادی ترقی و خوش حالی کے باوجود نئے انسان ایک واضح محرومی کا شکار تھے، اور یہ کمی روحانی مذاہب میں نہ تھی، یعنی ’قطعیت‘ موجود تھی۔ امید خدا کی مانند ہمیشہ موجود رہتی ہے، یہ زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیتی، یوں معاشرے کا شیرازہ قائم رہتا ہے۔
انسانی نظریات کا یہ واضح مسئلہ ہے کہ قطعیت سے محروم رہتے ہیں۔ اگر تم ایک دہائی تک حکومتی اصلاحات کا پرچار کرتے ہو، مگر یہ اصلاحات ہزاروں انسانوں کی موت کا سبب بن جاتی ہیں، اس طرح وہ امید جسے تم نے سہارا دیا ہوتا ہے فنا ہوجاتی ہے۔ یہ انسانی نظریات جو بدلتے رہتے ہیں، چیلنج کیے جاتے ہیں، ثابت کیے جاتے ہیں اور پھر جھٹلادیے جاتے ہیں، وہ کس طرح قطعی امید مہیا کرسکتے ہیں؟یوں ہم پھر تلخ سچ یعنی مایوسی کے جبڑوں میں جا پھنستے ہیں۔
نٹشے (مغرب میں) اس حقیقت کا ادراک کرنے والا پہلا دانشور تھا۔ اُس نے ٹیکنالوجی کے اُس خطرے سے خبردار کیا جو دنیا پر آفت لانے والا تھا۔ درحقیقت ’خدا مرچکا ہے‘ کا مرکزی نقطۂ فکر یہی تھا۔ یہ اعلان قطعی طور پر کسی لادین فرد کی کوئی مکروہ بڑھک نہ تھی، جیسا کہ آج کل اس کی تشریح کی جاتی ہے (1)۔ نہیں! یہ دراصل نوحہ تھا۔ مدد کے لیے دوراندیش فرد کی پکار تھی۔ ہم ہوتے کون ہیں جو اپنے وجود کی معنویت اور اہمیت کی وضاحت خود کرسکیں؟ ہم کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ دنیا میں کیا درست اور برحق ہے؟ ہم کس طرح یہ بوجھ اٹھاسکتے ہیں؟(2)
نٹشے بخوبی یہ بات سمجھتا تھا کہ ہمارا وجود داخلی طور پر ناقابلِ معلوم حقیقت ہے۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ نفسیاتی طور پر ہم اپنی کائناتی وضاحت کے اہل نہیں ہیں۔ وہ انسان ساختہ نئے نظریات کے بہاؤ کا مشاہدہ کررہا تھا ۔ وہ قوم پرستی، جمہوریت، کمیونزم، اشتراکیت، اور نوآبادیاتی نظام کو محض ناگزیر انسانی بحران کی راہ میں التوا کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ اُس نے ان سب انسان ساختہ نظریات سے اظہارِ نفرت کیا۔ وہ جمہوریت کو بچکانہ سمجھتا تھا، قوم پرستی کو احمقانہ خیال کرتا تھا، کمیونزم کو خطرناک بیان کرتا تھا، اور نوآبادیاتی نظام کو پُرتشدد کہتا تھا۔
نٹشے کویقین تھا کہ جنس، نسل، قومیت، اور تاریخ کا دنیاوی تعلق تلاش کرنا محض سراب ہے۔ یہ زندگی کی تلخ سچائی (مایوسی یا ناامیدی) پر معنی کی کمزور سی تعمیر تھی، اور بالآخر ان سب کو باہم کشت وخون میں پڑجانا تھا، بجائے اس کے کہ وہ کسی بامعنی حل کی طرف رہنمائی حاصل کرتے یا رہنمائی فراہم کرتے، تباہی کی جانب بڑھتے چلے گئے(3)۔
نٹشے نے پیشگوئی کی کہ انسان ساختہ نظریات بڑے تنازعات میں گھرنے والے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ یہ تنازعات دنیا پر بدترین تباہی لائیں گے۔ اس کی پیشگوئی تھی کہ یہ تباہی سرحدوں اور قومیتوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہرطرف چھاجائے گی۔ کیونکہ یہ جنگیں خدا کے لیے نہیں ہوں گی بلکہ انسانی خداؤں کے مابین ہوں گی۔
پینڈورا باکس
یونانی دیومالائیت میں، دنیا کی ابتدا صرف مردوں سے ہوئی تھی۔ ہر ایک نشے میں بدمست تھا، کسی کے پاس کوئی کام نہ تھا۔ یہ ایک بڑی پُرتعیش دعوت تھی، جسے وہ جنت کہا کرتے تھے۔ لیکن اگر تم مجھ سے پوچھو تو یہ ایک خاص قسم کی دوزخ تھی۔ یونانی خداؤں نے اس صورت حال کی یکسانیت کو بے کار خیال کیا، اور فیصلہ کیا کہ کچھ سنسنی ہونی چاہیے۔ انھوں نے چاہا کہ مرد انسانوں کا کوئی ساتھی ہونا چاہیے جو اُن کی توجہ حاصل کرسکے، جو اس آسان سی زندگی میں ہلچل پیدا کرسکے۔ انھوں نے ایک عورت پیدا کی۔ اس پراجیکٹ میں ہر خدا نے اپنا حصہ ڈالا۔ ایفروڈائٹ نے اس عورت کو حُسن عطا کیا۔ ایتھینا نے دانشوری بخشی۔ ہیرا نے خاندان تشکیل دینے کی صلاحیت دی۔ ہرمیس نے اُس کی زبان میں چاشنی ڈالی۔ نئے آئی فون کی ایپ کی طرح، اس عورت کو دل لبھانے والی چیزوں سے مزین کردیا گیا۔ یوں یہ پینڈورا وجود میں آئی۔ یونانی خداؤں نے پینڈورا کو زمین پر بھیجا۔ اُس نے یہاں مسابقتوں، مقابلوں، جنسی تفریق، اور حجت بازی کی نئی طرح ڈالی۔ یونانی خداؤں نے اسے ایک ڈبہ بھی دیا تھا۔ اس خوبصورت ڈبے پر سونے کی مہر ثبت تھی۔ پینڈورا کو ہدایت کی گئی کہ یہ ڈبہ مردوں کے حوالے کرے مگر اس تاکید کے ساتھ کہ کسی صورت کھولا نہ جائے۔
مگر مردوں سے رہا نہ گیا اور کسی نے یہ پینڈورا باکس کھول دیا۔ باکس کا کھلنا تھا کہ شر اور ساری برائیاں دنیا میں پھیل گئیں، جس کا الزام مردوں نے عورت پرتھوپ دیا۔ موت، بیماری، حسد، نفرت، اور ٹوئٹر جیسی وبائیں ہرجانب پھیل گئیں۔ اب مرد ایک دوسرے کو قتل کرسکتے تھے، اور اس کے لیے انہیں عورت کی شکل میں وجہ مل چکی تھی۔ جنگیں شروع ہوگئیں۔ بادشاہتیں اور دشمنیاں پیدا ہوگئیں۔ غلامی وجود میں آئی۔ سیکڑوں ہزاروں قتل ہونے لگے۔ پورے پورے شہر تعمیر اور پھر تباہ ہونے لگے۔ عورتوں کو جائداد سمجھا جانے لگا، ان کی تجارت شروع ہوئی، وہ خریدی بیچی جانے لگیں۔ ہر طرف بگاڑ آگیا۔ مگر اس ڈبے کی تہ میں ایک چیز باقی رہ گئی تھی۔ یہ تھی اُمید (ایمان ، خیر وغیرہ۔ مترجم)۔
پینڈورا باکس کی کئی تشریحات کی گئی ہیں۔ معروف تشریح یہ ہے کہ یونانی خداؤں نے ہمیں دنیا کی تمام برائیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے ان برائیوں سے نمٹنے کے لیے ’امید‘ کی دوا بھی دی۔ یہاں ’ین‘ اور ’یانگ‘ کا تصور ذہن میں آتا ہے(4)۔ یہ امید ہی دنیا کو برائیوں سے بچا سکتی تھی۔
مگر اس تصورِ امید کا ایک مسئلہ تھا۔ یہ خیروشر کے تصادم سے ملتزم ہے۔ امید کے وہ ذرائع جو زندگی کو معنی عطا کرتے ہیں، وہی ذرائع تقسیم اور نفرت بھی پیدا کرتے ہیں۔ وہ امید جو بہت بڑی مسرت سے لطف اندوز کرتی ہے، وہی امید انتہائی آزمائش تک بھی لے جاتی ہے(5)۔ جو امید لوگوں کو باہم جوڑتی ہے وہی لوگوں کو پھاڑتی ہے۔ یوں امید تباہ کن بھی ہے۔ امید کا انحصار ’اسٹیٹس کو‘ سے بغاوت میں ہے۔ اسے کسی نہ کسی سے مخالفت مول لینی ہوتی ہے۔ یہ انسانی حالت کی انتہائی مایوس کن حالت کی منظرکشی کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں مسلسل کشمکش میں رہنا ہے، یا ہرشے سے کٹ جانا ہے۔ مذہبی جنگ میں اترنا ہے یا پھر’تلخ سچ‘ کے ساتھ جینا ہے(6)۔
نٹشے کو یقین تھا کہ انسان ساختہ نظریات کی عمر زیادہ نہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب دھیرے دھیرے ایک دوسرے کو ختم کردیں گے، یا اندر سے ڈھے جائیں گے۔ دو صدیوں کے اندر اندر وجود کا بحران شدت اختیار کرجائے گا۔ ہم خود کو ناکام کرچکے ہوں گے۔ انسان جو کچھ بھی خلق کرے وہ ناپائیدار اور ناقابلِ بھروسا ہوتا ہے۔ نٹشے امید سے ماوراء دیکھنا چاہتا تھا۔ خیر و شر سے ماوراء ہونا چاہتا تھا۔ وہ مستقبل کے لیے اپنی حکمت عملی کو اس ایک جملے amor fati یعنی ’تقدیر پرقناعت کرو‘ کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ زندگی جیسی بھی ہے اسے قبول کرو، مزید خواہشات کی تمنا نہ کرو بلکہ جوحقیقت ہے اسے ہی خواہش بنالو۔ یعنی کسی بھی شے کی امید نہ کرو۔ بہتری کی امید نہ کرو بلکہ خود بہتر ہوجاؤ (یہاں مسٹر مینسن اور اُن کا فلسفی تضاد اختیار کررہے ہیں، بہتر ہوناکسی امید کے بغیر ممکن ہی نہیں! یہ کیسے ممکن ہے کہ مایوس آدمی بغیر امید کے بہتر ہوجائے؟ ناممکن سی بات ہے! مترجم)۔
یہ ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ آپ پھر خود کو تلخ سچ کے حوالے کردیں۔ صرف سچائی ہی ہمیں اس صورتِ حال سے آزاد کرسکتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سچ لوگوں کو بڑی ذمے داری کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ چنانچہ ہم ’امید‘ سے محرومی دور نہیں کرسکتے، بلکہ اسے قبول کرسکتے ہیں، اس سے محبت کرسکتے ہیں۔
amor fati
یہ سوئٹزرلینڈ کے پہاڑوں پر میٹا کا آخری دن تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت فریڈرک نٹشے کے ساتھ کھلی فضا میں گزارنا چاہتی تھی۔ نٹشے کو جھیل سلوپلانا کے ساتھ ساتھ چلنا بہت پسند تھا۔ یہ قصبے سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ وہ ناشتے کے تھوڑی دیر بعد نکل گئے تھے۔ سورج چمک رہا تھا، فضا خوشگوار تھی۔ وہ میٹا کے پیچھے چھڑی لے کر چل پڑا تھا۔ وہ مویشیوں کے باڑے کے پاس سے گزرا۔ اُس نے مذاقاً کہا کہ جب میٹا چلی جائے گی تو یہ مویشیوں کے ریوڑ ہی اُس کے سب سے دانشور ساتھی ہوں گے۔ وہ ہنسے اور گنگناتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ دوپہر میں جب وہ ایک درخت کے نیچے کھانا کھانے رکے تو میٹا کو احساس ہوا کہ کچھ زیادہ دور نکل آئے ہیں۔ وہ فکرمند ہوئی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ نٹشے کے اعصاب جواب دے رہے تھے، وہ خود کومجتمع نہیں کرپارہا تھا۔ واپسی نٹشے کے لیے انتہائی دشوار ہورہی تھی۔ وہ کرب سے بڑبڑا رہا تھا۔ میٹا اسے اس طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی، مگر جانا بھی لازمی تھا۔ سہ پہر کا آخری حصہ تھا جب یہ واپس گاؤں پہنچے۔ سورج ڈوب رہا تھا، فضا بوجھل ہوچلی تھی۔ ’’وہ کیا تھا؟‘‘ نٹشے چلاّیا۔ ’’کہاں چلا گیا خدا؟ تم بتاؤ‘‘ وہ پھر چلاّیا۔ میٹا نے مڑ کر دیکھا تو نٹشے چھڑی ہوا میں لہرا رہا تھا اورگائے کے ریوڑ سے مخاطب تھا۔ ’’میں بتاتا ہوں تمہیں‘‘ وہ جنونی کیفیت میں تھا۔ وہ اب زور زور سے سانسیں لے رہا تھا۔ ’’ہم نے اسے مارڈالا ہے! میں نے اور تم نے! ہم سب اس کے قاتل ہیں، مگر یہ سب ہم نے کیا کیسے؟‘‘، ’’کیا ہم لافانی عدم وجودیت میں بکھر رہے ہیں؟ ‘‘۔ ’’فریڈرک یہ پاگل پن ہے!‘‘ میٹا چلاّئی۔ مگر وہ نہ رکا۔ ’’کہاں ہے خدا؟ خدا مرچکا ہے! ہم نے اسے قتل کیا ہے! ہم خود کو کیسے مطمئن کرپائیں گے؟ ہم، وہ جو قاتلوں کے قاتل ہیں! وہ جو مقدس تھا وہ خون ہماری چھریوں تلے بہہ گیا، کون ہماری آستین سے یہ خون صاف کرے گا؟‘‘میٹا کو لگا اب کچھ فائدہ نہ ہوگا، وہ اُس سے دور ہونے لگی۔ ’’یہ ہم نے کیا کرڈالا؟ کیا ہم ہی خدا بن گئے ہیں؟ انسان ایک رسّی ہے جو حیوان اور اشرف البشرکے درمیان بندھی ہے۔ انسان کی عظمت اسی میں ہے کہ پُل کا کام دے، نہ کہ ہدف بن جائے۔ انسان میں چاہے جانے کے لائق اس کی بشریت ہی ہے۔‘‘ نٹشے کے الفاظ نے میٹا کے پیر جکڑ لیے تھے۔ اُس نے پلٹ کر نٹشے کی جانب دیکھا۔ ’’میٹا‘‘ نٹشے نے کہا۔ ’’ہاں؟‘‘ میٹا بڑبڑائی۔ ’’مجھے اُن لوگوں سے محبت ہے جو نہیں جانتے کہ زندگی کیسے گزاری جائے، یہ وہ سادہ لوح ہیں، جو اس زندگی سے باآسانی گزرجاتے ہیں۔‘‘
حواشی
1) جیسا کہ عام طورپر نٹشے کے اس قول کومذہب کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اسے انسان کی عقلِ کُل کے لیے دعویٰ دلیل کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تصنیف Gay Science میں ایک جنونی کردار کے منہ سے نکلنے والا یہ نوحہ کسی صورت جدیدیت پسند فرد کا ’اظہارِ تکبر‘ یا ’اظہارِ مسرت‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
2)’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ ‘‘ (سورہ احزاب)
3) نٹشے کی یہ پیشگوئی چند ہی دہائیوں میں سوفیصد درست ثابت ہوئی۔ ہٹلر کے جرمنی اور لینن کے سوویت یونین نے، اوربرطانیہ کے نوآبادیاتی نظام نے تباہی وبربادی کی بدترین تاریخ رقم کی۔
4)چینی فلسفے میں ین اور یانگ سے مراد خیر وشر کی قوتیں ہیں،ین یہاں شرپسند عورت اور یانگ خیرپسند مرد ہے، ہم انھیں ہابیل اور قابیل کی تفریق میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔
5) ’’کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اس کی راہ میں)جا ں فشانی کی۔‘‘(توبہ،16)
6) ’’ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے(کہ وہ اس طرح دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے۔‘‘ (بقرہ،51) ۔