ڈاکٹر مرسی شہید مصر کے پہلے منتخب صدر

مصر کی تاریخ میں شہید ڈاکٹر محمد مرسی پہلے واحد صدر تھے، جن کو مصر کے عوام نے آزادانہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیا تھا، وگرنہ صدر مرسی کے انتخاب سے پہلے اور ان کے بعد ریفرنڈم کے جو بھی ڈھونگ رچائے گئے اُن میں بندوق بردار امیدوار کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہوسکا۔
ڈاکٹر محمدمرسی نے 2012ء کے پہلے آزادانہ انتخابات میں 51 فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی، جن کی جماعت اخوان المسلمون کی ترجمان پارٹی فریڈم اینڈ جسٹس کو پارلیمنٹ میں بھی واضح اکثریت ملی تھی۔
اخوان المسلمون کا قیام 1928ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے بانی سید حسن البناء (شہید) ایک آزاد منش صوفی مزاج اسکالر تھے۔ پیشے کے اعتبار سے استاد تھے۔ انہوں نے مسلم معاشرے میں در آنے والی سماجی برائیوں، معاشرتی خرابیوں اور ناانصافیوں کے خلاف تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متحرک کرکے شان دار تحریک برپا کی، جس کی کوئی دوسری مثال عالمِ عرب میں نہیں ملتی۔ اخوان المسلمون کے بانی مرشدِ عام حسن البناء شہید نے اخوان سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں کی تربیت اور تزکیۂ نفس پر خصوصی توجہ دی تھی۔ اس کے لیے جو نصاب ترتیب دیا تھا اس میں روزانہ قرآن پاک کی تلاوت، احادیثِ مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کے مطالعے کے ساتھ اسوۂ صحابہؓ کے مطالعے کو بھی لازم قرار دیا گیا تھا۔ یہ نصاب آج بھی اخوان سے وابستہ لوگوں کے لیے لازم ہے۔
اخوان نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنی جدوجہد کو پُرامن رکھا، اور کبھی بھی پُرتشدد سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی (البتہ عالمی سطح پر استعماری قوتوں نے جن میں میڈیا بھی شامل ہے، اخوان کو ایک پُرتشدد جماعت کے طور پر پیش کیا، اور ان کی غلط تصویر پینٹ کی، جس کا حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں)۔ اخوان کو تو اپنے ایسے بہت سے کارکنوں اور رہنمائوں کو اخوان المسلمون سے فارغ کرنا پڑا جو ظالم حکمرانوں کے جبر و استبداد سے تنگ آکر طاقت کے ذریعے جواب دینے کی طرف مائل ہوئے۔ اخوان کے بانی مرشدِ عام سید حسن البناء شہید سے لے کر آج تک جتنے بھی مرشدِ عام آئے ہیں سب کو ظالم و سفاک حکمرانوں نے ظلم و ستم اور جبر و استبداد کا نشانہ بنایا ہے۔ سیکڑوں رہنمائوں اور کارکنوں کو پھانسی پر چڑھایا، عقوبت خانوں میں مفلوج کیا، کتوں سے ان کو نُچوایا گیا، جس کی وجہ سے بعض رہنمائوں کی ٹانگوں پر ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تھا اور گوشت کتوں نے نوچ کھایا تھا۔ پھانسی چڑھنے والوں میں عظیم مفسرِ قرآن سید قطب شہید بھی شامل ہیں، جنہیں مصر کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر کرنل جمال عبدالناصر نے 1966ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا۔
اخوان کے بانی امام سید حسن البناء شہید نے پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں کانگریس کی حمایت کرنے والے علماء کے برعکس قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے علماء کے مؤقف کی تائید کی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل لندن سے واپس آتے ہوئے قائداعظم نے قاہرہ ائرپورٹ پر مختصر قیام کیا تھا۔ ائرپورٹ پر اُن کا استقبال کرنے والوں میں مفتی ٔ اعظم فلسطین امین الحسینیؒ کے ساتھ اخوان المسلمون کے رہنما اور کارکنان بھی موجود تھے۔ حسن البناء شہید نے قیام پاکستان پر قائداعظم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’’پاکستان عہدِ حاضر کی پہلی اسلامی ریاست ہے۔‘‘
صدر مرسی کو قومی مفادات پر عالمی مفادات کو ترجیح دینے والے ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتاح السیسی نے قیدِ تنہائی میں بے پناہ جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کے ذریعے اس حال تک پہنچا دیا تھا کہ جب شہید صدر کو سائونڈ پروف پنجرے میں عدالت لایا گیا تو وہ عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے دوران ہی بے ہوش ہوکر گر پڑے اور اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
اخوان المسلمون کے رہنما کے ان الفاظ کی گونج جبر واستبداد کے علَم برداروںکے اوسان خطا کرتی رہے گی جو انہوں نے کینگرو کورٹ کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے ’’اپنے ملک کے شیر دل، بہادر، جرأت مند لوگوں کو قتل مت کرو، ورنہ دشمن کے کتے تمہیں بھی نوچ کھائیں گے۔ ایک وقت آئے گا جب آپ کو میرے یہ الفاظ یاد آئیں گے۔‘‘
بعض ذرائع کے مطابق انہیں ’’العقرب‘‘ جیل کے عقوبت خانے میں… جسے عرفِ عام میں ’’بچھو جیل‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اور جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس کو یہاں لایا جاتا ہے وہ زندہ واپس نہیں جاتا… صدر مرسی کو کم مقدار میں زہر (سلوپوائزن) دے کر موت کی دہلیز پر پہنچانے کا انتظام عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔ اس میں کتنی صداقت ہے؟ اس کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے کیا گیا ہے۔
شہید ڈاکٹر محمد مرسی کا تعلق مصر کے منطقہ شرقیہ(قصبہ) سے تھا۔ وہ ایک کسان کے بیٹے تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم گائوں کے اسکول میں حاصل کی۔ بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے مدارج قاہرہ یونیورسٹی میں طے کیے، پہلے بی ایس سی انجینئرنگ، اور پھر ایم ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی اعلیٰ قابلیت اور خداداد ذہانت کی وجہ سے سرکاری اسکالرشپ حاصل کرکے امریکہ کی یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے 1982ء میں میٹریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری امتیازی نمبروںکے ساتھ حاصل کی، جس کی وجہ سے ڈاکٹر مرسی کو امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے مواقع حاصل ہوئے۔ شہید صدر نے امریکہ سے واپسی پر مصرکی کئی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا۔
ڈاکٹر محمد مرسی 2013ء میں مصر کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کی اعلیٰ تعلیمی خدمات کے اعتراف میں انہیں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی تھی۔
شہید صدر کو ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتاح السیسی کی کینگرو کورٹ نے چار بار سزائے موت اور 48 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ابھی بے شمار جعلی مقدمات ان پر قائم تھے۔ ان پر ایک الزام حماس سے مل کر قطر کے لیے جاسوسی کرنے کا بھی لگایا گیا تھا، جسے کینگرو کورٹ میں بھی ثابت نہیں کیا جاسکا۔
سزائے موت پر عمل درآمد نہ ہونے کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کو خطرہ تھا کہ کہیں سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے اعلان سے مصر میں لوگ ’’عرب بہاراں‘‘ کی طرح (جس کا منظر دنیا 2011ء میں دیکھ چکی ہے) احتجاج کے لیے سڑکوں پر نہ نکل پڑیں۔ یہ خوف اس کے باوجود تھا کہ صدر مرسی کو معزول کرنے کے بعد سے مصر کی جیلوںکے عقوبت خانوں میں اخوان المسلمون کے 60 ہزار کارکن اور مرکزی قیادت سے لے کر نچلی سطح کے سیکڑوں رہنما قیدِ تنہائی کے اذیت ناک مظالم بھگت رہے ہیں، جن میں سے اب تک 678 رہنمائوں کو بے پناہ جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت دے کر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ اخوان المسلمون کے سابق مرشدِ عام مہدی عاکف جیسی شخصیت کو بھی سلو پوائزن کے ذریعے جیل کے عقوبت خانے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو اپنے علم و فضل کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی بلند مقام رکھتے تھے۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق موجودہ مرشد عام ڈاکٹر محمد البدیع کی حالت بھی بے پناہ جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کی وجہ سے ناگفتہ بہ ہے۔ وہ چلنے پھرنے تک سے معذور کردیے گئے ہیں۔ جو الزامات لگاکر ڈاکٹر مرسی کو اقتدار سے معزول کرکے قید کیا گیا تھا، ان الزامات کو آج وہ بھی غلط اور بے بنیاد قرار دینے پر مجبور ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار سے محروم کرانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ سابق مصری صدر کا ڈاکٹر مرسی کی شہادت پر بیان اس کا غماز ہے۔
ڈاکٹر مرسی کا اصل جرم فلسطین کے مظلوم انسانوں کے لیے غزہ کی پٹی کو جانے والی سرنگ کو کھولنا، آئی ایم ایف کا پروگرام لینے سے انکار، اور اصلاحات کا آغاز کرنا تھا جس میں آئینی اصلاحات بھی شامل تھیں۔ ان اصلاحات کے ذریعے انہوں نے پارلیمنٹ سے نیا آئین منظور کروایا۔ یہ آئین جمہوری، فلاحی اور اسلامی ریاست کے اصولوں پر بنایا گیا تھا، جس میں فوج کے سیاسی کردار کو ختم کرکے سول بالادستی کو فوقیت دی گئی، جس کے بعد فوج کی شہ پر پارلیمنٹ میں دوسری بڑی پارٹی ’’النور‘‘، جو نظریاتی طور پر ایک اسلامی پارٹی کی شناخت رکھتی تھی اور سعودی عرب کے زیراثر تھی، سیکولر لابی کے ساتھ مل کر سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل کھڑی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر مرسی گزشتہ 6 برس سے قیدِ تنہائی میں تھے، مگر ان کی مظلومانہ شہادت سے بھی زیادہ اُن کی تدفین کے دل دہلا دینے والے دردناک منظر نے دنیا کے ہر باضمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اُن کی آزادانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور نہ ہی ان کے سارے خاندان کو ان کی تدفین میں شرکت کی اجازت ملی۔ رات کی تاریکی میں ان کے خاندان اور وکیل سمیت صرف آٹھ افراد کو نمازِ جنازہ پڑھنے اور تدفین میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ اُن کی اہلیہ اور بیٹی تک کو اُن کا آخری دیدار کرنے کی اجازت نہیں ملی، مگر آفرین ہے ڈاکٹر مرسی کی بیوہ پر، جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں، انہوں نے اپنے شہید شوہر کا آخری دیدار کرنے کی درخواست دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں ظالم حکمرانوں سے کسی بھی قسم کی درخواست کرکے اپنے شہید شوہر کو شرمسار نہیں کروںگی۔ ڈاکٹر مرسی کی تدفین کے منظر نے آج سے 70 سال قبل کی تاریخ دہرا دی جب مصر کی خفیہ پولیس نے اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البناء کو اُن کے دفتر کے باہر گولی مار کر شہید کردیا تھا، اور ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں بھی کسی کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
حسن البناء شہید کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں بھی گھر کے صرف آٹھ افراد نے شرکت کی تھی، ان کی نمازِ جنازہ ان کے ضعیف والد نے پڑھائی تھی اور مقتدیوں میں ان کی بیٹیاں تھیں، اور انہی بیٹیوں نے اپنے باپ کی میت کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر لحد میں اتارا تھا۔
امام حسن البناء سے صدر ڈاکٹر مرسی کی شہادت تک مصر کے سفاک فوجی ڈکٹیٹر کرنل جمال عبدالناصر، انور السادات، حسنی مبارک اور اب جنرل عبدالفتاح السیسی لاکھوں اخوانیوں کو جیل میں ڈال چکے ہیں، ہزاروں بے گناہ مظلوم اخوانیوں کو پھانسی دے کر اور عقوبت خانوں میں تشدد کرکے زندگیوں سے محروم کرچکے ہیں، مگر مصر کے عوام کو جب بھی ووٹ کی پرچی کے ذریعے فیصلہ کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اخوان کے لوگوں کو (خواہ انہوں نے اپنی حکمت عملی کے تحت انتخاب لڑنے کے لیے کوئی بھی نام رکھ لیا ہو) کامیاب کراتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ فوجی ڈکٹیٹر ہر بار اُن کو پارلیمنٹ سے باہر کرنے کے لیے آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ 2012ء میں اخوان المسلمون کے واضح اکثریت حاصل کرلینے کے بعد پہلے پارلیمنٹ کو توڑا گیا، جب صدر مرسی نے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کرکے پارلیمنٹ بحال کردی تو پھر عالمی استعمار کی آشیرباد سے اس نظام کی ہی بساط لپیٹ دی جس نے ’’عرب بہاراں‘‘ کے تاریخ ساز احتجاج کے نتیجے میں جنم لیا تھا۔ مصری عوام کو جب بھی اپنا فیصلہ دینے کا موقع ملا تو وہ 2012 کے انتخابات کی طرح اخوان کے حق میں ہی فیصلہ دیں گے۔ اخوان آج بھی عالمِ عرب خصوصاً مصر کے عوام میں گہری جڑیں رکھنے والی منظم، مضبوط اور ووٹ کی پرچی کی طاقت رکھنے والی سب سے بڑی مقبولِ عام دینی و سیاسی جماعت ہے۔
اخوان المسلمون کے پہلے مرشد عام حسن البناء، دوسرے حسن الہضیبی، تیسرے عمر تلمسانی، چوتھے حامد ابوالنصر، پانچویں مصطفی مشہور، چھٹے مامون الہدیبی، ساتویں مہدی عاکف اور آٹھویں موجودہ مرشد عام ڈاکٹر محمد البدیع ہیں، ان سب کو مصر کے سفاک حکمرانوں نے ظلم و ستم اور جبر وتشدد کا نشانہ بنایا، مگر اس کے باوجود آفرین ہے اس جماعت پر جس نے اتنے مظالم سہنے کے بعد بھی تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ہمیشہ پُرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔