یہ ایک انتہائی ناخوشگوار اتفاق تھا کہ منگل 18 جون کو مولانا ظفر علی خان فکری فورم کے تحت اُس معتبر صحافی کا تعزیتی ریفرنس کیا جارہا تھا جس کو فورم کے منتظمین سینئر صحافی، مستند تجزیہ کار، زبان و بیان کے ماہر اور میڈیا ایکسپرٹ کے طور پر اپنے پروگرام میں گفتگو کے لیے بلانا چاہتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کا ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ نشستوں کے درمیان کھڑے تھے، جب کہ ہال سے باہر بھی لوگوں کی معقول تعداد موجود تھی۔ اسٹیج پر سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی، صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب صمام بخاری، ایڈیٹر روزنامہ پاکستان مجیب الرحمن شامی، ایڈیٹر نئی بات عطا الرحمن، سینئر صحافی سجاد میر اور ارسلان بختیار موجود تھے۔ ارسلان اُس روز اپنے نیک نام والد کی یاد میں ہونے والے اس ریفرنس میں شرکت کے لیے کراچی سے لاہور پہنچے تھے۔ پورا ماحول سوگوار تھا، لیکن مرحوم کے بارے میں ہونے والی باتوں سے امید کی روشنی بھی پھیل رہی تھی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض مرحوم کے دیرینہ دوست اور ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکریٹری جنرل، ممتاز صحافی اور کالم نگار جناب رئوف طاہر ادا کررہے تھے، جب کہ مقررین کی ایک طویل فہرست تھی جو اپنے مرحوم دوست اور ساتھی ادریس بختیار کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار اور مرحوم کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کی یادیں تازہ کرنا چاہتے تھے۔ وقت کی قلت کے باعث جہاں کئی لوگوں کو بات کرنے کا موقع نہ مل سکا، وہیں باقی مقررین کو بھی اختصار سے بات کرنے کی بار بار یاددہانی کرائی جاتی رہی۔ اس کے باوجود یہ پروگرام تقریباً ڈھائی گھنٹے جاری رہا۔ ریفرنس کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے صدر نواز رضا، سابق صدر سعود ساحر، فرائیڈے اسپیشل اسلام آباد کے بیورو چیف میاں منیر احمد، اور کالم نگار اسلم خان خصوصی طور پر اسلام آباد سے لاہور پہنچے تھے اور انہیں فوراً ہی واپس لوٹنا تھا۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد جناب رئوف طاہر نے جناب نعیم صدیقی کی اس نظم سے تقریب کا آغاز کیا
چلے وہ غنچوں کی مانند مسکرا کے چلے
پر اپنے چاہنے والوں کو خوں رلا کے چلے
اس نظم نے پہلے سے سوگوار ماحول کو مزید سوگوار بنادیا، اور جب مرحوم ادریس بختیار کے چچا اور لاہور کے سینئر صحافی سید انوار قمر نے مرحوم کے بارے میں اپنا مقالہ پڑھا تو ہال میں موجود بہت سے لوگ آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ مرحوم کو گھر میں سب لوگ یاسین کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ایک محنتی اور سب کا خیال رکھنے والے شخص تھے۔ انہوں نے تمام زندگی محنت اور دیانت سے کام کیا۔ ابتدا میں وہ کسی فیکٹری کے باہر چھٹی کے وقت نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ کر سناتے، جس پر سننے والے مزدور انہیں ایک ایک آنہ دے دیتے تھے۔ بی اے کرنے کے بعد وہ انڈس ٹائمز میں پروف ریڈر ہوگئے، بعد میں وہ اپنی محنت، دیانت اور پروفیشنلزم کے باعث اعلیٰ ترین صحافتی عہدوں تک پہنچے، لیکن کہیںغرورِ ذات کا شکار نہیں ہوئے۔ مقالے کے آخری جملے ادا کرتے ہوئے جناب انوار قمر کی آواز رندھ گئی اور وہ بمشکل اپنا مقالہ مکمل کرسکے۔ سجاد میر نے بتایا کہ انہوں نے مرحوم کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے کام بھی کیا اور ایک ہی گھر میں اکٹھے بھی رہے۔ وہاں بھی وہ کئی بار صرف ستو پی کر روزی روٹی کے لیے نکل جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر طبقے کے لیے اپنے رویّے کے اعتبار سے قابلِ قبول تھے لیکن نظریاتی طور پر انتہائی کمٹڈ آدمی تھے۔
جناب مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ مرحوم انتہائی پروفیشنل اور دیانت دار صحافی تھے، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر ان کی کامل گرفت تھی۔ وہ خبر کی صداقت اور زبان کی درستی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ جناب اسلم خان نے اسلام آباد میں مرحوم کے ساتھ اپنی آخری ملاقاتوں کا، جب کہ سعود ساحر نے ٹریڈ یونین کے دوران مرحوم کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا تفصیلی تذکرہ کیا۔ حاجی نواز رضا اور خواجہ فرخ نے بتایا کہ صحافیوں کے درمیان اتحاد اُن کا دیرینہ خواب تھا جو اُن کی کوششوں کے باوجود شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ صوبائی وزیر اطلاعات صمام بخاری نے کہا کہ ادریس بختیار مرحوم میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک دیانت دار صحافی میں ہونی چاہئیں، اور انہوں نے وہ تمام تکالیف خندہ پیشانی سے برداشت کیں جو اس طرح کے صحافیوں کو برداشت کرنا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم کی صحافتی خدمات پر کوئی ٹھوس کام ہونا چاہیے اور وہ ذاتی طور پر اور حکومتی سطح پر اس طرح کے کسی کام کے لیے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ آخری مقرر جناب جاوید ہاشمی تھے جن سے مرحوم کی برسوں کی شناسائی تھی، لیکن اس تعلق کے باوجود وہ خبر کے معاملے میں کسی رو رعایت کے قائل نہیں تھے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ حرص و ہوس کے اس معاشرے میں ادریس بختیار جیسے لوگوں کا زندہ رہنا مشکل ہے، وہ اپنی دیانت داری کے باعث بمشکل گھر کا چولہا جلا پاتے ہیں، لیکن حکومتی اور سیاسی دبائو کے علاوہ مقتدر حلقوں کی مداخلت ایسے لوگوں کو دکھی کردیتی ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ صحافت اور سیاست میں دیانت دار اور کمٹڈ لوگوں کی کمی ہوتی جارہی ہے جو بڑی افسوس ناک بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب مسلم لیگ (ن) جس بیانیے کو نوازشریف کا بیانیہ کہہ رہی ہے اور اس پر چلنے پر اصرار کررہی ہے یہ دراصل اُن (جاوید ہاشمی) کا بیانیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ فوج کے خلاف نہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ عوام کی ہماری فوج کے ساتھ محبت اور دل بستگی قائم رہے، کہ ملک میں بس یہی ایک ادارہ بچا ہے، اگر خدانخواستہ یہ ادارہ بھی سیاست سے آلودہ ہوگیا تو یہ بڑا قومی نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے جن سیاست دانوں کو تیار کرکے میدان میں اتارا، بعد میں انہیں غدار بھی قرار دے ڈالا۔ انہوں نے بتایا کہ خود انہیں بھی ضیا الحق وزیر بناکر سیاست میں لائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس فیکٹری سے سارے غدار ہی تیار ہو کر نکل رہے ہیں، یا بعد میں غدار ہوجاتے ہیں تو یہ فیکٹری بند کرکے عوام کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خود اپنی رائے اور طاقت سے قیادت تیار کریں۔
بہرحال مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ ہال اور شامی صاحب کے گھر… دونوں جگہوں پر مرحوم ادریس بختیار کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ یہ ریفرنس اختتام کو پہنچا۔