ابوسعدی
ایک دن مامون (813ء۔ 833ء) نے اپنے تین خاص ملازموں کو بلاکر کہا: سنا ہے کہ ایک پیر مرد آدھی رات کے وقت برمکیوں کے برباد محلات میں جاکر روتا اور مرثیے پڑھتا ہے، آج رات تم چھپ کر اس کا انتظار کرو اور جب وہ مرثیہ پڑھ کر لوٹنے لگے تو اسے پکڑ لائو۔ چنانچہ وہ وہاں پہنچے، آدھی رات کے وقت ایک غلام نمودار ہوا جس نے ایک قالین اور ایک چھوٹا سا تخت پوش اٹھایا ہوا تھا، پیچھے پیچھے ایک سفید ریش بزرگ تھے۔ غلام نے تخت پوش پر قالین بچھایا، وہ بزرگ اس پر بیٹھ کر رونے اور مرثیے پڑھنے لگا۔ جب وہ تھک گیا اور واپس جانے لگا تو مامون کے ملازموں نے اسے گھیرلیا۔ وہ کہنے لگا: مجھے صرف اتنی مہلت دو کہ میں وصیت لکھ کر غلام کو دے دوں۔ اس کے بعد ملازم اسے ساتھ لے گئے اور صبح کے وقت خلیفہ کے سامنے پیش کردیا۔ خلیفہ نے پوچھا کہ تم اعدائے خلافت کے کھنڈروں میں کیوں جاتے اور روتے ہو؟ کہنے لگا:
’’البرامکہ ساری کائنات کے محسن تھے۔ انہوں نے کچھ احسانات مجھ پر کیے ہیں جنہیں میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ میرا نام منذر بن مغیر ہے اور شاہانِ حیرہ کی اولاد سے ہوں۔ ایک مرتبہ حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ میں دانے دانے کا محتاج ہوگیا اور تلاشِ رزق میں وطن سے نکل پڑا۔ میرے ساتھ گھر کے تیس آدمی تھے۔ مجھے کسی نے کہاکہ یحییٰ بن خالد برمکی (806ء) کے پاس جائو۔ میں جب بغداد پہنچا تو عیال کو ایک سرائے میں ٹھیرایا اور خود یحییٰ کے در پر گیا، فوراً طلبی ہوئی۔ میں نے اپنی داستان سنائی اور یحییٰ نے مجھے اپنے بیٹے جعفر (803ء) کے حوالے کردیا۔ وہ مجھے ایک محل میں لے گیا۔ پہلے نہلایا، پھر نئے کپڑے پہنائے اور دس غلام میری خدمت پر لگادیئے۔ کچھ دیر بعد مجھے اپنے بچے یاد آگئے، میں ان کی خبر گیری کے لیے اٹھا ہی تھا کہ ایک غلام نے بتایا کہ وہ فضل بن یحییٰ (809ء) کے پاس ہیں، فکر نہ کیجیے۔ میں دس دن تک اس محل میں رہا، گیارہویں دن جعفر دوبارہ آیا، مجھے وہاں سے نکال کر ایک عظیم تر محل میں لے گیا اور کہاکہ اندر تشریف لے جایئے، یہ آپ کا ہے۔ میں اندر گیا تو بچوں نے دوڑ کر میرا استقبال کیا۔ محل ساز و سامان سے بھرا ہوا تھا اور دس غلام خدمت پر مامور تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد چند غلام دس لاکھ دینار لے کر آئے اور کہا: یحییٰ نے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر کسی چیز کی کمی ہو تو اطلاع دیجیے۔ میں اس محل میں تیرہ برس رہا اور جب برمکیوں پر مصیبت نازل ہوئی تو میں بھی تباہ ہوگیا۔ اب میرا کام اپنے محسنوں پر رونا اور ان کے مرثیے پڑھنا ہے‘‘۔
اس کے بعد وہ بزرگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور مامون کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ جب اسے قدرے قرار آیا تو مامون نے اسے ایک خلعت اور دس لاکھ دینار عطا کیے، وہ رخصت ہونے لگا تو مامون نے کہا: ’’مجھے امید ہے کہ اب تم برامکہ کو بھول جائوگے‘‘۔ کہا: ’’امیرالمومنین! کیسے بھول سکتا ہوں کہ آج کا یہ انعام بھی تو انہی کے طفیل ملا ہے‘‘۔
(مرتب: علی حمزہ۔ ماہنامہ چشم بیدار)
رزق میں فراخی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص یہ چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی کی جائے اور اسکی عمر دراز کی جائے اس کو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔
(بخاری:5986)
حسن البنا شہید
۔1906ء میں محمودیہ میں پیدا ہوئے گھر کا ماحول خالص اسلامی تھا۔ والد شیخ احمد عبدالرحمن البنا کا پیشہ اگرچہ گھڑی سازی تھا مگر وہ خود بہت بڑے عالم تھے۔ فقہ و حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے، حافظ قرآن تھے اور کئی کتابوں کے مصنف اور کتب احادیث کے شارح تھے۔
(ڈاکٹر عابدہ سلطانہ)
زبان زد اشعار
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
(شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ)
……………
کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چپ
سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
(خواجہ الطاف حسین حالیؔ)
……………
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
(اختر انصاری دہلوی)
……………
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
(خواجہ حیدر علی آتشؔ)
……………
شاخوں سے برگِ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اُتر رہا ہے عروسِ بہار میں
(امیرؔ مینائی)
غزل
ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی شاہد