گلوبل بی ایچ بی ڈی نے بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی کو رکن تسلیم کرلیا

جامعہ کراچی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے حیاتیاتی و کیمیائی علوم (آئی سی سی بی ایس) کو گلوبل اوپن بایوڈائیورسٹی اینڈ ہیلتھ بِگ ڈیٹا الائنس (بی ایچ بی ڈی) کی رکنیت دی گئی ہے، جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ آئی سی سی بی ایس کے ترجمان کے مطابق عالمی حیاتیاتی تنوع اور صحت کا ڈیٹا الائنس 14 اکتوبر 2018ء کو بیجنگ میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے اجلاس میں پاکستان، سعودی عرب، تھائی لینڈ، روس، سنگاپور اور امریکہ کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ بی ایچ بی ڈی کا مقصد صحت اور حیاتیاتی تنوع کے میدان میں عالمی تحقیق و تعاون کو فروغ دینا ہے، تاکہ دنیا کے تمام ممالک یکساں طور پر مستفید ہوسکیں اور یکساں طور پر اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے تحت چین میں جینوم اور ڈی این اے پر ایک بہت بڑا ڈیٹا بیس بھی قائم کیا گیا ہے۔ بی ایچ بی ڈی نے آئی سی سی بی ایس کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر محمد اقبال چودھری کی غیر معمولی سائنسی خدمات پر ادارے کو اپنی رکنیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پروفیسر اقبال چودھری نے نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس ضمن میں اُن کی تقریباً 2120 سائنسی اشاعتیں بین الاقوامی سطح پر شائع ہوچکی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں ان کی تحریر و ادارت کردہ 68 کتب، اور کتب میں 40 چیپٹر شائع ہوچکے ہیں۔

انٹرنیٹ پر عدم اعتماد کی وجہ

دنیا کے تمام خطوں میں سائبر جرائم کے باعث انٹرنیٹ پر بھروسہ نہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ 81 فیصد ہے، جبکہ 62 فیصد کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ سیکورٹی کی کمزور صورت حال بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ میں عالمی سروے برائے انٹرنیٹ سیکورٹی اور اعتماد کے نام سے ایک جائزے کے تحت جاری کیے گئے۔ یہ سروے جو اپنے پانچویں سال میں داخل ہوچکا ہے، انٹرنیٹ سیکورٹی اور اس پر صارفین کے اعتماد کو جانچنے کے لیے کیا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے جامع سروے ہے، جس کا انعقاد 21 دسمبر 2018ء سے 10 فروری 2019ء کے درمیان کیا گیا۔ سروے میں شامل 50 فیصد صارفین کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر بھروسہ نہ کرنے کے باعث وہ اپنی بہت کم ذاتی معلومات آن لائن شائع کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ 40 فیصد صارفین اپنی ڈیوائسز کو محفوظ بنانے کے لیے بہت احتیاط برتتے ہیں، جبکہ 39 فیصد صارفین کے مطابق وہ انٹرنیٹ کافی منتخب انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم بہت کم صارفین اس سلسلے میں بہتر طریقہ کار مثلاً انکرپشن (19 فیصد)، تکنیکی آلات جیسا کے ٹور (دی اونین راؤٹر) یا ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (12 فیصد) کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح سروے میں شامل 10 میں سے 8 افراد (78 فیصد) اپنی آن لائن پرائیویسی کی فکر کرتے ہیں، جبکہ نصف سے زائد یعنی 53 فیصد کے خدشات میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 48 فیصد صارفین کو یقین ہے کہ حکومت ان کے آن لائن ڈیٹا اور ذاتی معلومات کو محفوظ رکھنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھاتی ہے جس میں اعتماد کی سب سے کم شرح شمالی امریکہ میں دیکھی گئی جو 38 فیصد تھی۔ دوسری جانب دنیا میں ایسے شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنے ملک کی حکومتوں کو ہی اپنی پرائیویسی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ سروے میں سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک جعلی خبروں کا سب سے بڑا ذریعہ قرار پائی۔

واٹس ایپ کا آٹومیٹڈ پیغامات کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان

واٹس ایپ دنیا کی مقبول ترین میسجنگ ایپلی کیشن ہے جس کے ڈیڑھ ارب سے زائد صارفین روزانہ 65 ارب سے زائد پیغامات ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ تاہم اب واٹس ایپ میں بہت زیادہ پیغامات فارورڈ کرنے پر صارفین کو قانونی کارروائی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ انتباہ کمپنی نے اپنے ایک بلاگ میں دیا ہے جس کے تحت ایسے افراد اور کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جو کہ اس ایپ کا غلط استعمال کریں گے یا بہت زیادہ افراد کو پیغامات بھیج کر اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کریں گے۔ کمپنی نے واٹس ایپ کے استعمال کی پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ کمپنیوں یا انفرادی صارفین کو بہت زیادہ تعداد میں آٹومیٹڈ یا بلک پیغامات بھیجنے پر قانونی کارروائی کا سامنا ہوگا اور اس پالیسی کا اطلاق 7 دسمبر 2019ء سے ہوگا۔کمپنی کے مطابق ’’واٹس ایپ ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی جو اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے یا اس حوالے سے دیگر کی مدد کریں گے، خصوصاً آٹومیٹڈ یا بلک میسجنگ میں‘‘۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب واٹس ایپ کو فرضی خبروں اور افواہوں کے پھیلائو کے حوالے سے دنیا بھر میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور اس حوالے سے کمپنی کی جانب سے متعدد اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کمپنی نے گزشتہ سال ایک صارف پر ایک پیغام 5 سے زائد بار فارورڈ نہ کرنے کی پابندی لگادی تھی۔ اسی طرح بہت جلد سرچ امیج نامی فیچر بھی متعارف کرایا جائے گا تاکہ صارفین فارورڈ پیغامات سے موصول ہونے والی تصاویر کے بارے میں معلومات ایپلی کیشن کے اندر رہتے ہوئے گوگل سرچ سے حاصل کرسکیں۔ واٹس ایپ کی جانب سے لاکھوں اسپام اکائونٹس کو بھی اس مہم کے دوران ڈیلیٹ کیا گیا ہے ۔