علامہ اقبال کے استاد اور مربی شمس العلما مولوی سید میر حسن کا سلسلہ نسب انتالیسویں پشت میں حضرت حسین کے صاحبزادے امام زین العابدین سے جاملتا ہے۔ اس شجرۂ نسب کے ایک بزرگ سید شیر علی، ہمایوں کے ساتھ ہندوستان کی سرزمین میں ایران سے داخل ہوئے۔ ان کے لڑکے شاہ شمس نے خوشاب میں سکونت اختیار کی۔ ان کے صاحبزادے سید محمد شاہ کا مزار ان دنوں شاہ پور میں مرجع خلائق ہے۔ ان کے پانچ صاحبزادوں میں سید فیروز شاہ کا لڑکا شاہ سیدن ہے، جن کا مزار چواسیدن شاہ ضلع چکوال میں ہے۔ سید فیروز کے بھائی شاہ کبیر کی چھٹی نسل سے سید میر مہدی ہوئے ہیں۔ ان کے پوتے سید میر قاسم تھے، جو میر حسن کے پردادا تھے۔ سید میر قاسم کے بیٹے میر ظہور اللہ اور ان کے بیٹے میر محمد شاہ، مولوی سید میر حسن کے والد گرامی تھے۔ میر حسن کے دادا یا پردادا سیالکوٹ میں مقیم ہوئے اور درس و تدریس کو اپنا مشغلہ بنایا۔ میر حسن سید میر محمد شاہ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ سرکاری اندراج کے مطابق وہ 18اپریل 1844ء کو موضع فیروز والا ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سیالکوٹ کے ضلع اسکول سے 1961ء میں آٹھویں جماعت کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا اور اس کے ساتھ ساتھ مسجد دو دروازہ کے امام مولانا شیر محمد سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کے علاوہ مولانا محبوب عالم اور مولانا بشیر احمد سے بھی تعلیم حاصل کی۔ سولہ برس کی عمر تک علوم متداولہ کا مطالعہ کرلیا۔ 1861ء میں ضلع اسکول میں نو روپے ماہوار کی ملازمت کرلی۔ اسکاچ مشن اسکول کی ایک شاخ وزیر آباد میں 1863ء میں قائم ہوئی تو مولانا میر حسن زیادہ تنخواہ کے باعث یہاں چلے آئے۔ جب رشتہ داروں کو پتا چلا کہ میر حسن نے انگریز کی ملازمت کرلی ہے تو اس رات گھر میں غم کے باعث دیا نہ جلایا۔ 1868ء میں جب حکومت نے ضلع اسکول کو اسکاچ مشن سیالکوٹ کی تحویل میں دے دیا تو مشن کے کارپردازوں نے سید میر حسن کو سیالکوٹ میں بلوالیا اور وہ یہاں عربی فارسی کی تعلیم دینے لگے۔ حکومت نے 1889ء میں اسکاچ مشن کو کالج کھولنے کی اجازت دے دی۔ 1893ء میں اسی کالج میں عربی فارسی پڑھانے لگے۔ 1913ء میں جب یہ ڈگری کالج ہوا تو ڈگری کلاسوں کو بھی عربی فارسی پڑھاتے تھے۔ میر صاحب کی اس کالج سے وابستگی 1882ء سے مارچ 1928ء تک رہی۔ ان کی تدریسی خدمات کا اعتراف انتظامیہ نے بارہا کیا۔ علامہ اقبال نے میٹرک 1893ء اور انٹر کا امتحان 1895ء میں اسی ادارے سے پاس کیا اور یہاں پر مولوی سید میر حسن سے علمی فیض اٹھاتے رہے۔
مولوی سید میر حسن کے سرسید احمد خان اور اُس عہد کے دوسرے اکابرین اور علما سے گہرے تعلقات تھے۔ سرسید سے تو خط کتابت بھی تھی۔ میر حسن نے اقبال کے والد شیخ نور محمد سے کہہ کر انہیں اپنے پاس تعلیم کے لیے بلایا۔ کچھ دیر تک گھر میں ان کے پاس پڑھتے رہے، پھر اسکاچ مشن اسکول میں انہیں داخل کرادیا گیا، جہاں وہ سید میر حسن سے فیض اٹھاتے رہے اور یہ سلسلہ تاحیات جاری رہا۔ اقبال جب کیمبرج میں تھے تو تصوف کے متعلق آیاتِ قرآنی کا استفسار کیا۔ سید میر حسن نے نو صفحات پر مشتمل جواب بھجوایا۔ اقبال نے بھی نظم و نثر میں اپنے استاد کو خراج پیش کیا ہے۔ سید میر حسن بھی ان کی شعری کاوشوں سے باخبر رہتے اور ان کے حالات سے دلچسپی رکھتے تھے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
مرگِ خودی
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
خودی کی موت سے روحِ عرب ہے بے تب و تاب
بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام!
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامہ احرام!
جذام: کوڑھ۔ عروق: عرق کی جمع رگیں۔ عظام: عظم کی جمع ہڈیاں۔ شکستہ بال: جس کے بال و پر ٹوٹے ہوئے ہوں۔ احرام: وہ خاص لباس جو حج اور عمرہ کی غرض سے خاص وقت کے لیے حرم کے اردگرد کے خاص مقامات سے پہنا جاتا ہے۔
(1) خودی کے مر جانے سے یورپ کا باطن بے نور ہوگیا اور اس میں روشنی کی کوئی کرن باقی نہ رہی۔ خودی کے مر جانے سے سرزمینِ مشرق کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہوگئی۔
(2) خودی کے مر جانے سے عربوں کی روح تڑپ اور حرارت سے محروم ہوگئی۔ خودی کے مر جانے سے عراق اور ایران کے جسم رگوں اور ہڈیوں سے خالی ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ جس جسم میں نہ رگیں ہوں، نہ ہڈیاں، اس میں زندگی کی روح باقی نہیں رہتی۔
(3) خودی کے مر جانے سے ٹوٹے ہوئے پر و بال والے ہندوستانیوں نے پنجرے کو اپنے لیے حلال سمجھ لیا اور گھونسلے کو حرام، یعنی وہ محکومی پر راضی ہوگئے اور اپنا پیدائشی حق حاصل کرنے کا ان میں کوئی جذبہ نہ رہا۔
(4)خودی کے مر جانے سے حرم کا شیخ یعنی مذہبی پیشوا اس بات پر مجبور ہوگیا کہ مسلمانوں کا احرام کا لباس لے کر بیچ کھائے۔