اخلاقی معاشرہ کیسے ہو؟

اسلام نے لوگوں کو نمود و نمائش سے پرہیز کرنے اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کا درس دیا ہے۔ لیکن کیا سرمایہ دارانہ معاشرے میں یہ ممکن ہے؟ سابق وزیراعظم نوازشریف نے سادگی کی مہم کے سلسلے میں شادی کے کھانوں پر پابندی لگادی تھی، اسے بہت سراہا گیا اور اس حکم کی پابندی بھی بہت کرائی گئی، مگر اب حکومت نے محسوس کیا ہے کہ اس حکم کے نتیجے میں پولٹری کی صنعت کو دھچکا لگا ہے، اس لیے شادی کے موقع پر مرغی کی ون ڈش کے لیے اجازت دے دی جائے گی۔
سرمایہ دارانہ معاشرے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس میں ایسے پیشوں کو فروغ ملا ہے جو غیر ضروری یا کم اہمیت کے حامل ہیں، اور جو ضروری یا مفیدِ انسانیت پیشے ہیں ان کی جانب لوگوں کا رجحان کم ہورہا ہے، مثلاً ہماری ضرورت گندم ہے، مگر اس میں منافع کم ہے۔ کاشت کاروں کو گندم کے بجائے گنا اگانے میں زیادہ فائدہ نظر آتا ہے اور چینی کی صنعت وجود میں آتی ہے جو بہت سی دوسری صنعتوں کے فروغ کا سبب بنتی ہے، جگہ جگہ مٹھائیوں کی دکانیں لگ جاتی ہیں، جام، جیلی، شربت، سوڈا لیمن، آئس کریم کے کارخانے چل پڑتے ہیں۔ اسی طرح آرائش و زیبائش کے سلسلے میں بہت سی صنعتیں لگ جاتی ہیں جبکہ ایک غریب قوم کا گزارہ ان کے بغیر بھی ہوسکتا ہے بلکہ ہونا چاہیے۔ لیکن نہ صرف یہ غیرضروری صنعتیں معیشت کا بڑا حصہ ہوجاتی ہیں بلکہ اشتہار بازی کے نتیجے میں انہیں ترقی بھی ملتی ہے اور انسانی ضروریات میں تعیشات کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے۔ آپ پسند کریں نہ کریں مگر جب آس پاس کے گھرانوں میں، عزیز و اقارب، احباب میں اور سارے معاشرے میں لباس کے نئے نئے فیشن آتے ہیں، گھروں کی سجاوٹ کے لیے طرح طرح کی چیزیں استعمال ہوتی ہیں، گھروں کی تزئین کے ساتھ ان کی تعمیر میں بھی عام اینٹوں کی جگہ قیمتی ٹائلیں لگائی جاتی ہیں، بننے سنورنے کے لیے صرف کاسمیٹک کی عام اشیا سے گزارہ نہیں ہوتا بلکہ بیوٹی پارلر جانا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے، اصلی نقلی جیولری درکار ہوتی ہے، لباس کے رنگ کی مناسبت سے الگ الگ بہت سے جوتے بھی خریدنے ہوتے ہیں، اور انہی چیزوں سے آدمی کی قدر و قیمت کا معیار متعین ہوتا ہے تو سارا معاشرہ ان چیزوں کے حصول کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ لوگ اگر اس کے لیے ناجائز طریقے اختیار نہ کریں اور جائز طریقوں سے ہی ان زائد ضروریات کو پورا کریں تب بھی معاشرے میں ایسی بہت سی صنعتوں کا پھیلائو ہوجاتا ہے جو ضروریات میں نہیں تعیشات میں داخل ہیں، اور چونکہ ان میں منافع زیادہ ہوتا ہے اس لیے زیادہ سرمایہ کاری بھی انہی شعبوں میں ہوتی ہے، اور انسانوں کی بہت بڑی اکثریت علوم و فنونِ نافعہ کے بجائے ایسے پیشوں سے متعلق ہوجاتی ہے جو دل لبھانے، جی کو بھانے اور ذوق و شوق کی تکمیل کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایسے معاشرے میں سادگی کی تلقین کرتے ہیں تو لوگ اس وعظ پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اس سے متاثر ہو تو گھر والے درمیان میں آجاتے ہیں کہ یہ سادگی اختیار کرنا تو ناک کٹانے والی بات ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ گھر میں برسوں پرانا فرنیچر پڑا ہے۔ ہر شادی میں عورتیں ایک سے ایک کپڑے پہن کر آتی ہیں۔ ڈرائنگ روم کے تو یہ پردے بھی اب برے لگتے ہیں۔ اور اگر لوگ واقعی سادگی پر وعظ و تلقین کا اثر قبول کرنا شروع کردیں تو آپ کو اندازہ ہے کہ کس قدر خوفناک صورت حال پیدا ہوگی؟ ہزاروں نہیں وہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے جو نمود ونمائش، آرائش و زیبائش اور تکلفات و تعیشات کی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ معاشرے میں پہلے ہی بے روزگاری ہے اور سادگی کی مہم بے روزگاروں کا نیا ہجوم پیدا کرے گی۔
سرمایہ دار سوسائٹی کی ضرورت سادگی نہیں، اسراف ہے۔ ہر طرف سے لوگوں کو اسراف پر ابھارا جاتا ہے۔ چیزوں کو نقد خریدنے کی استطاعت نہیں ہے، قسطوں پر لے لیں، بینکوں سے کریڈٹ کارڈ لے لیں۔ آدمی کی زندگی کا مقصد نئی نئی چیزیں خریدنا اور شاپنگ کے لیے بازاروں میں گھومنا ہے۔ اس معاشرے میں سادگی کی اسلامی تعلیم چل ہی نہیں سکتی۔ ہمارے اکثر مذہبی اور وعظ لوگ کہتے ہیں کہ نظام جو ہے اسے رہنے دو، بس تم اخلاقیات پر وعظ کرو۔ لیکن معاشرے کو جڑ، بنیاد سے تبدیل کیے بغیر کسی اخلاقی تعلیم کو عام نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات اس کی سیاسی، معاشی تعلیمات سے مربوط ہیں۔ یہ نہیںہوسکتا کہ معاشرہ اپنی غیر اسلامی رفتار اور ڈھنگ سے چلتا رہے اور آپ اس میں کسی جگہ اسلامی تعلیم کا پیوند لگادیں۔
ایک زمانہ تھا کہ سرمایہ داری کے ماہرینِ معاشیات منصوبہ بند معاشرت کے تصور کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ بعد میں وہ اس کے قائل ہوگئے اور ایسے قائل ہوگئے کہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ ساری دنیا کے لیے معاشی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور زراعت، صنعت سمیت ہر شعبے کے اہداف مقرر کررہے ہیں، اور یہ ساری عالمی منصوبہ بندی اور اہداف کا تعین اپنے نفع و استحصال کے لحاظ سے ہے، اور غریب و ترقی پذیر ممالک ان کی منصوبہ بندی پر چلنے کے لیے مجبور ہیں۔
اگر ہم ایک اخلاقی معاشرہ چاہتے ہیں تو اس کے لیے بنیادی تبدیلی پر سوچنا ہوگا، اور خاص طور پر دو شعبوں میں تبدیلی ضروری ہوگی۔ ایک تو ہمیں اپنی اقتصادیات کی تنظیمِ نو اپنی ضروریات کے لحاظ سے کرنی ہوگی، پہلی توجہ اس پر دینی ہوگی کہ ہم اپنی غذائی ضروریات میں خود مکتفی ہوں، ہمیں اعلیٰ معیارِ زندگی کی چمک دمک کی ضرورت نہیں۔ یہ ضرورت ہے کہ ہر شخص کو موٹا جھوٹا پہننے، کھانے کو مل جائے اور ضروریاتِ زندگی سے متعلقہ صنعتیں اور ادارے نفع کے بجائے خدمت کے اصول پر کام کریں، اور غریبوں کے لیے یہ حق الخدمت امیروں سے وصول کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہمیں ایک نیا کلچر پیدا کرنا ہوگا۔ آج دنیا میں جو کلچر رائج ہے اور رائج ہورہا ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی ضروریات کے لحاظ سے ہے۔ اب اگر ہم اسلام چاہتے ہیں تو اس کے لیے اپنی منفرد معیشت اور الگ کلچر بنانا ہوگا، اور یہ کام اقدار میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
(10تا16مارچ2000ء)