رسول اللہ ﷺ بحیثیت مثالی شوہر

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا

حضرت ابراہیمؑ نے یہ دعا اُس وقت مانگی جب دونوں باپ بیٹا یعنی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔
اس دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے گھر کی تعمیر کے مبارک کام کے دوران آنے والے زمانوں کے اندر تک اپنی دعائوں کو پھیلا کر اللہ سے اس گھر کی پاسبانی اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے والی ایک قوم کی استدعا کررہے تھے، اور پھر اللہ نے ان کی اس دعا کو یوں قبول کیا کہ ان کی نسل کو سرورِ کائناتؐ کی صورت میں اس عظیم ترین ہستی سے نوازا جو ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئی:
(ترجمہ)’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے، تُو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو مسلم (مطیع فرماں) بنا، ہماری نسل سے ایسی قوم اٹھا جو تیری فرماں بردار ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تُو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے‘‘۔ (البقرۃ: 128)

محمد عاصم
میاں بیوی کے رشتے کے نتیجے میں خاندان وجود میں آتا ہے، اور مختلف خاندان مل کر سماج اور معاشرہ بناتے ہیں۔ یعنی میاں بیوی کا رشتہ خاندان اور معاشرے کی بنیاد ہے۔
جب خاندان مضبوط اور صالح بنیادوں پر قائم ہوتا ہے تو معاشرے پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ خاندان، شوہر اور بیوی کے رشتے کی اسی اہمیت کی وجہ سے اسلام اس ادارے کو اپنی تعلیمات میں مرکزی حیثیت دیتا ہے اور میاں بیوی کے رشتے کو لباس سے تشبیہ دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’تم ان کا لباس ہو اور وہ تمہارا لباس ہیں‘‘۔ (البقرہ:187)
قرآن کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ خاندان کی اصلاح اور اسے پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے میں ہماری مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ خاندان میاں بیوی کے رشتے کے نتیجے میں قائم ہوتا ہے، اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے ہمیں جو قولی اور عملی تعلیمات ملتی ہیں ذیل میں انہیں پیش کیا جارہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے آپؐ کی مبارک زندگی کا کوئی پہلو مخفی نہیں رکھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کو جواب دیتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:
’’(ان مخالفینِ دعوت سے کہہ دو) کہ میں نے تمہارے درمیان اپنی پوری زندگی بسر کی، تو پھر تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے‘‘۔ (یونس:16)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داعیانہ زندگی سے لے کر آپؐکی گھریلو زندگی تک کا ایک ایک پہلو دنیا کے سامنے واضح اور روشن ہے۔ آپؐ کی زندگی ہر طرف سے مسلم امت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ساتھ محبت کرتے تھے اور اس محبت کا اظہار بھی فرماتے تھے۔ ترمذی کی روایت ہے:
’’حضرت عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’یارسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟‘‘ فرمایا: ’’عائشہؓ‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’مردوں میں کون پسند ہے؟‘‘ فرمایاً ’’عائشہؓ کا والد‘‘۔ (جامع الترمذی، باب فضل عائشہؓ، الرقم: 3885)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے عائشہ کی محبت نصیب کردی‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کرتے اور ان کی دلجوئی فرماتے، اور خوش طبعی کرتے۔
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر میں کیسا رویہ اور سلوک تھا؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ گھر میں زیادہ ہنسنے والے، تبسم فرمانے والے تھے۔ یعنی گھر میں خوش طبعی کے ساتھ لوگوں کے ساتھ رہتے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ گھر سے باہر تو خوش رہتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں، لیکن گھر کے اندر اُن کے چہروں پر ویرانی اور افسردگی چھائی رہتی ہے، سیدھے منہ کسی سے بات نہیں کرتے اور نہ آسانی سے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائیں اور اپنی ازدواجی زندگی کو پُرلطف اور خوش گوار بنائیں۔
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ اس جیسی دوسری مثال ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب بھی سفر کا ارادہ فرماتے اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے، جس کا نام نکل آتا اُسے ساتھ لے جاتے۔ ایک سفر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ آپؐ کے ہمراہ تھیں، آپؐ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ تم آگے چلو، اور خود اپنی زوجہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ پیچھے رہ گئے اور ان سے فرمایا:
’’اے عائشہ! کیا میرے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کروگی؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ چونکہ اُس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر کم تھی اور جسم ہلکا تھا تو مقابلہ حضرت عائشہؓ نے جیت لیا۔ کچھ عرصے بعد جب کہ حضرت عائشہؓ کا جسم بھاری تھا ان کے درمیان پھر دوڑ کا مقابلہ ہواُ اس دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیت گئے اور فرمایا: ’’اے عائشہ یہ اُس پہلے مقابلے کا بدلہ ہے‘‘۔ (مسند احمد، حدیث السیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، الرقم: 26320)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرکا کام کاج کرتے اور اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ انسان کی عظمت محبت میں پوشیدہ ہے۔ اسی ضمن میں مسند احمد کی روایت ہے کہ:
’’کسی آدمی نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کا کام کاج بھی کیا کرتے تھے؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر اہلِ خانہ کے کاموں مصروف رہتے۔ آپؐ اپنے جوتوں کو گانٹھتے، کپڑوں کو سیتے، اور وہ سب کچھ کرتے جو مرد گھر میں کرتے ہیں‘‘۔ (مسند احمد، حدیث السیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، الرقم:25380)
بیویوں کے ساتھ وفا کا یہ عالم تھا کہ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کی موجودگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا، اور ان کو ہمیشہ یاد رکھا۔ آپؐ ان کی سہیلیوں کا خیال رکھتے۔ یہ وہی خدیجہؓ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر تکلیف اور پریشانی میں ساتھ دیا، اپنا تن من دھن آپؐ پر قربان کیا اور آپؐ کو ڈھارس بندھائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حضرت خدیجہؓ کے ساتھ والہانہ تھی۔ آپؐ ہمیشہ ان کا تذکرہ کرتے اور انہیں یاد کرتے۔
بیویوں کا احترام اور ان کے ساتھ مشاورت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کا انتہائی احترام کرتے اور ان سے مشورہ کرتے، اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے۔ آپؐ نے فرمایا ہے:
’’عزت مند شخص اپنی بیوی کی عزت کرتا ہے اور ذلیل ان کی توہین کرتا ہے‘‘۔