ادریس بختیار صحافت میں ان اعلیٰ روایات کے امین تھے جو کبھی اس شعبے میں آنے والوں کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھیں، اور اب خوف، دبائو اور ہوسِ زر کی وجہ سے دم توڑتی جارہی ہیں۔ انہوں نے جو بھی تحقیقی اسٹوریز کیں وہ صحافت کے بین الاقوامی معیار کی ہوتیں اور زبان و بیان کے سقم سے بھی پاک ہوتیں۔ ان کا شمار اُن ممتاز قلم کاروں میں تھا جو بیک وقت انگریزی اور اردو زبان میں لکھنے پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے اس پیشے میں آنے والوں کی رہنمائی کرنے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی بھی کشادہ دلی سے کرتے تھے۔
اد ر یس بختیار بھی اُس سفر پر روانہ ہوگئے جس پر ہم سب ہی کو جلد چلے جانا ہے۔ ادریس بختیار کی رحلت سے پاکستان کی صحافت ایک آزاد منش، بلند قامت، باکردار، بااصول، وسیع المطالعہ (جس کے چھوٹے سے گھر میں اس کی ذاتی لائبریری میں دس ہزار سے زائد کتب موجود ہیں) عامل صحافی سے محروم ہوگئی۔ مہذب جمہوری معاشروں میں اس طرح کی قابلیت رکھنے والے باکردار اور بااصول لوگ نئی نسل کے لیے رول ماڈل ہیں۔ انہیں رب کریم نے اپنی کریمی سے بعض ایسی خوبیوں اور اوصاف سے نوازا تھا جو شعبۂ صحافت ہی میں کیا، پورے معاشرے میں اگر مکمل طور پر ناپید نہیں تو خال خال ہی ملتی ہیں۔ بارگاہِ الٰہی میں التجا ہے کہ وہ ان کے انہی اوصافِ حمیدہ کے طفیل ان کی بشری کمزوریوں، خامیوں سے صرفِ نظر فرما کر بخش دے۔ (آمین)
انہوں نے اپنی 75 سالہ زندگی میں 57 سال صحافت کی۔ اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت، ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر حقائق پر مبنی دیانت دارانہ غیر جانب داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنے پرائے سب ہی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ نماز جنازہ میں سخت موسم اور رمضان المبارک کے باوجود دوپہر کی کڑی دھوپ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے اجلے کردار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں عزت و توقیر پیدا کی۔
وہ اس شعبے میں 1962ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں آئے تھے اور 31 جنوری 2019ء تک شب و روز صحافت کو اعتبار و اعتماد بخشا۔ تعلیمی قابلیت اور گھر کے معاشی حالات کے تقاضے اور زمانے کے چلن کے مطابق تو انہیں انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد چاہیے تھا کہ اپنے دوسرے قریبی دوستوں کی طرح اعلیٰ سول سروس کا امتحان دے کر اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی مستقبل کو محفوظ بناتے۔ ان کے کئی قریبی دوست جنہوں نے ان کے ساتھ سندھ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان دیا تھا صوبے کے چیف سیکریٹری اور وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ادریس بختیار صحافت میں کسی مجبوری اور لالچ کی وجہ سے نہیں آئے تھے جس کا چلن آج عام ہے۔ انہوں نے چودہ سال کی عمر میں گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہونے دینے کی خاطر 1958ء کے مارشل لا میں اپنے والدِ محترم کی سیاسی مخالفت کی بنا پرگرفتاری کے بعد حیدرآباد کے گلی کوچوں میں پکوڑے، آلو چھولے اور ٹافیاں بھی بیچیں اور بیڑی بنانے والے کارخانوں میں بیڑی بنانے والے کاریگروں کو جاسوسی کہانیاں سنانے کی فی گھنٹہ کے حساب سے مزدوری بھی کی، اور ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع نہیں ہونے دیا۔ ادریس بختیار کالم کا نہیں کتاب کا موضوع ہے۔
ادریس بختیار کی خوش بختی رہی کہ انہوں نے اپنی ستاون سالہ صحافت میں جن اداروں میں کام کیا وہاں اُن کے لیے آزادانہ کام کرنے کا سازگار ماحول میسر رہا۔ جہاں ایسا ماحول نہ رہا وہاں سے وہ خود الگ ہوگئے جیسے روزنامہ نئی بات لاہور اور ٹیلی گراف نکالنے میں ان کا کلیدی کردار تھا، اور وہ اس اخبار کے سینئر گروپ ایڈیٹر تھے۔ روزنامہ ٹیلی گراف انہوں نے اس وجہ سے چھوڑا تھا کہ وہ اخبار کے ایڈیٹر کی خواہش پر مبنی فرمائشی اسٹوری کرنے پر تیار نہیں تھے جو ان کے نزدیک پاکستان کی قومی سلامتی کے منافی ہوتی۔
ادریس بختیار کی ہیرالڈ میں شائع ہونے والی تحقیقی کور اسٹوریز کے انتخاب سے ہی تین چار سو صفحات کی ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی، جبکہ کالموں اور بی بی سی میں شائع ہونے والی رپورٹوں سے کئی کتب مرتب ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے حیدرآباد کے انگریزی اخبار انڈس ٹائمز،کراچی میں پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی)، انگریزی روزنامہ سن کراچی، سعودی عرب (جدہ) سے شائع ہونے والے پہلے انگریزی روزنامہ عرب نیوز، کراچی میں روزنامہ جسارت، روزنامہ لیڈر، ہفت روزہ اکنامسٹ، ڈان گروپ کے تحت شام کے اخبار اسٹار، بین الاقوامی معیار کے جریدے ماہنامہ ہیرالڈ، امریکہ کے نشریاتی ادارے وائس
آف امریکہ اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور روزنامہ ٹیلی گراف کولکتہ (بھارت)، روزنامہ نئی بات، ہم چینل کے تجزیاتی پروگرام کے میزبان اور جیو نیوز میں ادارتی کمیٹی کے سربراہ اور جنگ کے کالم نویس کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ادریس بختیار نے اپنی صحافتی زندگی کا نصف سے زائد حصہ ڈان گروپ میں گزارا۔ اسی دوران انہوں نے وائس آف امریکہ، بی بی سی اور ٹیلی گراف میں نامہ نگاری بھی کی۔ اپنی صحافتی زندگی کے آخری سات سال جیو نیوز میں گزارے۔ ادریس نے بے روزگاری کے زمانے میں کچھ عرصہ ملک کے معروف دانش ور اور قانون داں خالد اسحاق مرحوم کے ساتھ بھی کام کیا جہاں ان کا زیادہ تر وقت ان کی تاریخی لائبریری میں گزرا۔
ادریس بختیار کا خاندان برصغیر کے معروف روحانی مرکز اجمیر شریف سے ہجرت کرکے آیا تھا۔ ان کے والد (مرحوم) محمد ہارون الرشید بختیار اجمیر کے مشہور تعلیمی ادارے میو کالج کے تعلیم یافتہ تھے۔ انہیں انگریزی زبان پر عبور کے ساتھ فرنچ زبان بھی آتی تھی۔ حصولِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر سرگرم تھے۔ اسی جرم کی پاداش میں بھارتی حکومت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جس کی اطلاع ان کے چچا کو سی آئی ڈی میں موجود ان کے دوست نے دی تو ادریس بختیار کے والد اور والدہ ادریس بختیار کو لے کر 14 اگست سے قبل ہی پاکستان آگئے۔
ادریس بختیار 1944ء میں اجمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے باقی تین بھائیوں اور دو بہنوں کی پیدائش پاکستان کی ہے۔ ادریس بختیار کے دادا، چچا اور خاندان کے دیگر افراد 14 اگست کے بعد پاکستان آئے تھے۔ ادریس بختیار کے پردادا شہاب الدین (مرحوم) حضرت بختیار کاکی کے عقیدت مند تھے۔ انہوں نے اسی عقیدت کی وجہ سے اپنے پوتے ادریس بختیار کے والد کا نام محمد بختیار رکھا تھا۔ بعد میں والد (مرحوم) نے اس میں ہارون الرشید کا اضافہ کرکے اپنا نام محمد ہارون الرشید بختیار کرلیا۔ ادریس کے نام میں بختیار کا لاحقہ اسی نسبت سے ہے۔ ادریس بختیار کو گھر میں والدین یاسین کے نام سے پکارتے تھے۔ ادریس بختیار کے دادا کے تین بھائی تھے اور والد کے پانچ بھائی جن میں سے ایک معروف صحافی جناب انوار قمر اور دوسرے جناب عثمان حیات ہیں، اور لاہور میں مقیم ہیں۔ ادریس بختیار کی دونوں پھوپھیاں لاہور میں ہی رہائش پذیر ہوگئیں۔
ادریس بختیار مرحوم کے پس ماندگان میں بیگم کے علاوہ تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ اللہ نے ان کی بیگم صاحبہ کو بڑی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اللہ ایسی ایثار کیش، وفا شعار بیگم نصیب والوں کو عطا کرتا ہے۔ اس خاتون نے ڈھائی مرلے کے فلیٹ، چار مرلے کے مکان اور اب سات مرلے کے مکان میں اپنے شوہر کے خاندان اور دوست احباب کی ہمیشہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے میزبانی کی۔ اسلم خان اپنے کالم میں ذکر کرچکے ہیں کہ وہ برسوں ہر ماہ ایک ہفتہ کراچی میں ان کے مہمان ہوتے تھے۔ میں نے تو ہمیشہ ان کے گھر میں مسافر خانہ کا منظر ہی دیکھا ہے، یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب خاتونِ خانہ کا دل کشادہ ہو اور وہ مہمان کو زحمت کے بجائے رحمت تصور کرتی ہو۔ اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔ (آمین)
ادریس بختیار اور ان کے خاندان خصوصاً ان کی والدہ محترمہ (مرحومہ) نے پاکستان آکر جس طرح کی تنگی ترشی دیکھی اور مشکل گھڑی میں گھر کا بھرم قائم رکھنے کے لیے گھر کی چار دیواری کے اندر چرخا کاتنے اور بیڑی بنانے کی مزدوری کی، اس کا ذکر کرتے وقت ادریس بختیار اور ان کے چھوٹے بھائی ابرار بختیار (سابق نیوز ایڈیٹر روزنامہ جنگ اور اب روزنامہ اوصاف کراچی کے ایڈیٹر) ہمیشہ آبدیدہ ہوجاتے۔ میں نے ادریس بختیار کو کبھی پاکستان سے شاکی نہیں پایا۔ انہوں نے اپنی پوری صحافتی زندگی میں اسلام اور پاکستان سے اپنی غیر متزلزل محبت کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔ جب کہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کے غیر جمہوری اور غیر آئینی رویوں نے اُن قوتوں کو موقع فراہم کیا جو پاکستان کے قیام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے مشن پہ رہتی ہیں۔
سندھ میں1972ء میں ہونے والے لسانی فسادات اور 1973ء میں سندھ میں شہری اور دیہی کی بنیاد پر کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ظالمانہ غلط پالیسیوں اور عاقبت نااندیش اقدامات سے بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے خاندانوں کے بچوں میں بھی منفی ردعمل کے رجحان نے فروغ پایا ہے، ورنہ ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ اردو بولنے والے گھرانے کے بچے گھر کی چار دیواری کے اندر بھی پاکستان کے قیام کے حوالے سے والدین کے سامنے کسی منفی ردعمل کا اظہار کرتے تو جواب میں اگر طمانچہ منہ پر نہ پڑتا تو شدید ناراضی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا۔ اس کا مشاہدہ میں نے اپنے گھر میں کیا جب میرے چھوٹے بھائی بشیر احمد سلیمی (مرحوم) نے والدہ محترمہ کے سامنے ایک دن کھانا کھاتے ہوئے یہ جملہ کہہ دیا تھاکہ اماں اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا ہندوستان میں مسلمان یہاں سے بہتر پوزیشن میں نہ ہوتے؟ آپ کیوں پاکستان آگئی تھیں؟ بھائی کے منہ سے یہ جملہ سنتے ہی والدہ صاحبہ دستر خوان سے اٹھ گئیں اور منت سماجت کے بعد بھی کھانا کھانے پر راضی نہیں ہوئی تھیں، اور صبح سحری کھائے بغیر صرف پانی پی کر روزہ رکھ لیا تھا۔ اگلے دن بڑی مشکل سے راضی ہوئیں تو ہمیں مخاطب کرکے کہا کہ یاد رکھنا اللہ ناشکری کی سزا دنیا میں ہی دے دیتا ہے، ناشکری کے عذاب سے بچو۔
ہمارے اربابِ حل و عقد کو پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج اس کمیونٹی کے ایک حصے کی نئی نسل پاکستان میں اپنے مستقبل سے اس قدر مایوس کیوں ہے؟ (جملۂ معترضہ قدرے طویل ہوگیا ہے جس کی معذرت) ادریس بختیار کی پیشہ ورانہ زندگی کی کارکردگی اور تابناک کردار پر اپنے خیالات کا اظہار جناب ظفر عباس اور محترمہ شیری رحمن اپنے ٹوئٹ میں، اور جناب مجیب الرحمن شامی، جناب قدرت اللہ چودھری، جناب شاہد ملک، جناب سجاد میر، جناب وسعت اللہ خان، جناب علی حسن، ڈاکٹر طاہر مسعود، جناب سید سعود ساحر، جناب رؤف طاہر، جناب اسلم خان، جناب تاثیر مصطفی، جناب عطا الرحمن، جناب ناصر بیگ چغتائی، جناب رفعت سعید، میاں منیر اور جناب فاروق عادل اپنے کالموں میں کرچکے ہیں۔ میں اپنی کم مائیگی کی بنا پر ان کے اس پہلو پر بات کرنے کا اہل نہیں ہوں، اس لیے اپنی بات میں ادریس بختیار کی زندگی کے ان پہلوؤں کا ذکر کررہا ہوں جن سے آگاہی صحافت سے وابستہ نئی نسل کے نوجوان صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں کام آسکتی ہے۔ اگر ان کی زندگی کو ایک جملے میں بیان کیا جائے تو بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ حرف کی تقدیس اور قلم کی حرمت کی پاسداری میں کوئی خوف اور کوئی لالچ ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہیں کرسکا۔
ادریس بختیار صحافت میں ان اعلیٰ روایات کے امین تھے جو کبھی اس شعبے میں آنے والوں کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھیں، اور اب خوف، دبائو اور ہوسِ زر کی وجہ سے دم توڑتی جارہی ہیں۔ انہوں نے جو بھی تحقیقی اسٹوریز کیں وہ صحافت کے بین الاقوامی معیار کی ہوتیں اور زبان و بیان کے سقم سے بھی پاک ہوتیں۔ ان کا شمار اُن ممتاز قلم کاروں میں تھا جو بیک وقت انگریزی اور اردو زبان میں لکھنے پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے اس پیشے میں آنے والوں کی رہنمائی کرنے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی بھی کشادہ دلی سے کرتے تھے۔ انہوں نے ساری صحافتی زندگی میں دائیں بازو والوں کے ساتھ ٹریڈ یونین کی سیاست کی۔ پی ایف یو جے (دستور) کے قیام میں تو ان کا کلیدی کردار رہا، جب کہ وہ 2017ء کے آخر تک پی ایف یو جے (دستور) کے مرکزی صدر رہے۔ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں کوشش کی کہ صحافیوں کی ساری ٹریڈ یونینز ایک ہوجائیں جو بوجوہ کامیاب نہ ہوسکی۔
ادریس بختیار ایک نظریاتی آدمی تھے۔ وہ کسی طلبہ تنظیم اور جماعت میں شامل نہیں رہے، مگر وہ سید مودودی کی اسلامی فکر سے متاثر اور اس کے اسیر تھے، وہ انہیں مجددِ عصر مانتے تھے۔ انہوں نے اپنے نظریات کو مخفی رکھنے کی کبھی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اپنے نظریات کی وجہ سے کبھی معذرت خواہانہ طرزعمل اختیار کیا۔ مگر اس کی گواہی اُن کے نظریات سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی دیتے تھے اور دنیا سے اُن کے رخصت ہونے کے بعد بھی دے رہے ہیں کہ انہوں نے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی مکمل دیانت داری اور پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر غیر جانب داری کے ساتھ کی۔ اللہ نے ادریس بختیار کو ہمیشہ خبطِ عظمت کے مرض میں مبتلا ہونے سے بچائے رکھا جس کا شکار بدقسمتی سے عموماً سارے ہی نظریاتی ہوجاتے ہیں۔ اس میں دائیں بازو یا بائیں بازو والوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ خبطِ عظمت کا مرض ہی وہ ناسور ہے جس نے معاشرے کو انتہا پسندی کی آگ میں جھونکا ہوا ہے۔ اللہ نے ادریس بختیار کو تنگ دل ہونے کے بجائے کشادہ دل اور کشادہ ظرف رکھنے والا انسان دوست آدمی بنایا تھا۔ اُن پر اُن کی والدہ محترمہ کے اس پہلو کا بڑا اثر تھا کہ انہوں نے نہایت تنگ دستی میں بھی اپنے بچوں کے حلق میں رزقِ حلال کے سوا کوئی لقمہ نہیں جانے دیا تھا۔ ان کی والدہ محترمہ کا ایک سال قبل ہی مئی کے مہینے میں جمعہ کے روز اُس وقت انتقال ہوا تھا جب وہ جمعہ کی نماز کی تیاری میں مصروف تھیں۔ ان کی والدہ نے طویل عمر پائی مگر آخری وقت تک کسی مدد اور سہارے کے بغیر اپنے سارے کام خود کرتی رہیں۔ نماز کی تیاری سے قبل وہ ادریس صاحب کے پاس آئیں، ان سے دیر تک باتیں کیں اور پھر انہی کے موبائل سے اپنی بیٹیوں سے بات کرتے کرتے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ اب مجھے نماز کی تیاری کرنی ہے۔ ادریس بختیار اپنی والدہ کے انتقال کے بعد یہ کہتے تھے کہ اللہ مجھے میری ماں کی طرح آخری وقت میں کسی محتاجی کے بغیر ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے پاس بلا لے۔ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول کی۔ انتقال سے چار دن قبل ہفتے کی شام 25 مئی کو وہ کراچی پریس کلب کے یو جے (دستور) کے افطار ڈنر میں شرکت کے لیے گھر سے اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرکے آئے تھے۔ دیر تک پریس کلب میں صحافی دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف رہے۔ وہیں کھانا کھایا۔ پریس کلب آنے سے پہلے سہ پہر کو کوئی چار بجے کے قریب مجھ سے ٹیلی فون پر خاصی دیر گفتگو رہی اور کہا کہ یار میں دن میں تو ٹھیک رہتا ہوں، رات کو نہ جانے کیوں مجھے کمزوری اور تھکن آ گھیرتی ہے۔ دل کی بیماری اور شوگر کے مرض میں تو وہ خاصے عرصے سے مبتلا تھے۔ کئی بار وہ اس وجہ سے اسپتال میں داخل بھی ہوتے رہے۔ انجیو پلاسٹی بھی ہوچکی تھی، مگر اس بار ڈاکٹر یہ تشخیص ہی نہ کر پا رہے تھے کہ انہیں روز رات کو کمزوری اور تھکن کیوں ہورہی ہے۔ وہ اپنی بیماری کے حوالے سے کوئی لاپروا آدمی بھی نہیں تھے سوائے سگریٹ نوشی کے، جس سے باز رکھنے میں سارے ہی دوست اور گھر والے ناکام رہتے۔
رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد پریس کلب سے نکلتے وقت کلب کے گیٹ سے انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے ارسلان بختیار کو اسلام آباد اُس کے موبائل پر فون کیا کہ کسی کو کہو کہ میرے پاس آئے، مجھے شدید تکلیف ہورہی ہے۔ فوراً ہی رضوان بھٹی، ارمان صابر، اے ایچ خانزادہ اور دیگر صحافی دوست ان کو اسپتال لے کر جانے لگے تو ان کا اصرار رہا کہ وہ گاڑی خود ڈرائیو کریں گے، جسے ارمان صابر نے نہیں مانا۔ تاہم اسپتال میں وہ گاڑی سے اتر کر ایمرجنسی وارڈ تک پیدل چل کر گئے۔ اسی دوران ان کو ہارٹ اٹیک ہوا، اگلے دن انجیو پلاسٹی کے دوران ہی ان کو ایک اور شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا اور دس بارہ منٹ تک دل مکمل طور پر بند رہا جس کی وجہ سے انہیں وینٹی لیٹر پر جانا پڑا۔ اسپتال میں ڈاکٹروں نے ملاقات پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔ گھر والے اور دوست احباب دن رات ہی اسپتال میں رہے۔ ان کی اہلیہ جو سات برس سے گردوں کے مرض کا شکار ہیں اور ہفتے میں تین بار انتقالِ خون کے لیے ڈائیلاسز کے لیے اسپتال جاتی ہیں وہ بھی ادریس صاحب کو دیکھنے اسپتال آئیں، مگر بات ان کی بھی نہ ہوسکی۔ بدھ کی صبح ارسلان بختیار نے نمازِ فجر کے بعد میرے بڑے بیٹے سعد کو فون کیا کہ آپ انکل کو لے کر اسپتال آجائیں، ڈاکٹر اپنی سی کوشش تو بہت کررہے ہیں مگر مجھے ابا کی حالت اچھی نہیں لگ رہی، انکل آکر دیکھ لیں۔
ہم دونوں باپ بیٹے دن کے بارہ بجے تک اسپتال میں رہے۔ ڈاکٹروں کی بڑی منت سماجت کے بعد چند منٹ کے لیے ادریس بھائی کو دیکھنے کی اجازت ملی۔ شام تک ڈاکٹر یہی بتا رہے تھے کہ ایک ڈائیلاسز کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن افطار کے وقت ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کردیا۔ افطار کے ذرا دیر بعد ادریس بختیار ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ اللہ نے انہیں اپنے پاس رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بلایا۔ جس دن تدفین ہوئی وہ طاق رات تھی۔ اس ماہِ مبارک میں اللہ اپنے بندوں پر زیادہ مہربان ہوتا ہے۔ ان کے انتقال کو پندرہ دن سے زائد ہوگئے ہیں مگر ان کے گھر تعزیت کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ادریس بھائی کے حلقۂ احباب کا دائرہ ہر شعبۂ زندگی میں بڑا وسیع تھا۔ اگر صرف شعبۂ صحافت میں ہی ان کے قریبی احباب کا ذکر کیا جائے تو کئی کالم ان کے ناموں کی فہرست کے لیے کم پڑ جائیں گے۔ اختصار سے بھی کام لیا جائے تو اس کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اگر صحافیوں میں ان کے صرف ایک دوست کا نام لیا جائے تو وہ نام جناب ظفر عباس کا ہے، دوسرا نام جناب علی حسن کا، تیسرا قیصر محمود، چوتھا نام ضرار خان کا ہے۔ باقی قریبی دوستوں میں جناب اظہر عباس، جناب ہمایوں عزیز، جناب عمر لطیف (جن کو وہ اپنا محسن کہتے تھے، کیوں کہ انہی کے توسط سے وہ ڈان گروپ میں آئے)، افضال محسن، رفعت سعید، حسنات احمد، اویس اسلم علی، سہیل سانگی، ڈاکٹر طاہر مسعود، وسعت اللہ خان، خواجہ رضی حیدر، ظہور احمد نیازی، نصیر ہاشمی، اطہر ہاشمی، اسلم خان، جاوید قریشی، محسن رضا، شکیل ترابی، اویس توحید، مظہر عباس، سید عابد علی، حبیب خان غوری، ناصر خلیل، زاہد حسین، اے ایچ خانزادہ، اجمل سراج، طارق ابوالحسن، مسعود انور، عارف الحق عارف، مظفر اعجاز، رؤف طاہر، عامر لطیف، امتیاز فاران، اعظم گوندل، شہاب محمود، ڈاکٹر توصیف احمد، ضیا زبیری، سید محمد یعقوب اور خالد فرشوری سمیت بہت سے دوست تھے جن کے ساتھ ان کی اگر ملاقات نہ ہوتی تو موبائل فون، واٹس ایپ اور ای میل پر رابطہ ضرور رہتا تھا۔
اس ناچیز کا بھی ادریس بھائی سے تعلق نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ پہلی سرسری ملاقات تو 1967ء میں حیدرآباد میں محترم الطاف حسن قریشی صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ ادریس بختیار اُن دنوں انڈس ٹائمز میں کام کررہے تھے۔ باقاعدہ تعلق ان کے کراچی شفٹ ہونے کے بعد قائم ہوا۔ وہ کراچی آئے تو پہلے ہی ہفتے میں ان سے ملاقات ہوئی تھی، تب سے محبت کا یہ رشتہ مرتے دم تک برقرار رہا۔کراچی کے گلی کوچوں میں اور کراچی سے باہر بھی فیلڈ میں رپورٹنگ کے سلسلے میں برسوں ان کا ساتھ رہا اور ہمیشہ ان سے سیکھنے کو ملا۔ وہ سارے دوستوں کی خوش و غمی میں شامل رہتے تھے اور فکرمند بھی۔ یہی معاملہ میرے ساتھ بھی رہا۔ اگست 2018ء میں میرا جناب مجیب الرحمن شامی صاحب کے ہفت روزہ زندگی اور روزنامہ پاکستان سے 30 سالہ تعلق ختم ہوا تو اطلاع ملنے پر گھر آئے اور دیر تک رہے، چلتے ہوئے کہنے لگے ’’کہیں اگر باقاعدہ ملازمت نہیں کرنی ہے تو کہیں نہ کہیں لکھو، یا پھر دوبارہ سے اردو ڈائجسٹ میں شخصیات پر جو مضامین کا سلسلہ تھا، شروع کرو‘‘۔ اس سلسلے میں روزنامہ ڈان کی پہلی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے سول سروس چھوڑ کر صحافت میں آنے والے خلیق نزیری (مرحوم) کی شخصیت پر لکھنے کے لیے انہوں نے ڈان کے ریکارڈ سے معلومات بھی فراہم کیں اور اس سلسلے میں کئی نشستیں بھی ہوئیں، مزید جو معلومات درکار تھیں اس کے لیے انہوں نے خواجہ رضی حیدر اور حسنات احمد سے ملنے کا مشورہ دیا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
nn