مقبوضہ کشمیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور مردہ عالمی ضمیر

مقبوضہ کشمیر یوں تو ایک ایسا قید خانہ ہے جہاں کم وبیش تین دہائیوں سے آزاد میڈیا، حقوقِ انسانی کے نمائندوں، بیرونی سفارت کاروں کا گزر ممکن نہیں، مگر اس عرصے میں بارہا ایسا ہوا کہ انسانی حقوق سے وابستہ کسی فرد، وفد یا کسی سفیر اور میڈیا نمائندے کو وادی میں داخل ہوکر حالات کا بہ چشم ِخود جائزہ لینے کی محدود اور مختصر سی آزادی ملی، اور اس کے نتیجے میں ہوش ربا مظالم اور واقعات دنیا کو سننے کو ملے۔ ذرائع ابلاغ بلکہ سماجی رابطوں کے میڈیا کے اس دور میں بھی بھارت نے گوکہ وادی کو پابندیوں اور بے خبری کے آہنی پردے کے پیچھے چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، مگر مقامی رضاکاروں کی مدد سے کبھی کبھار رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔ یہ رپورٹس وادی کی صورتِ حال کی مکمل تو نہیں مگر کسی حد تک عکاسی کرتی ہیں۔ چند برس قبل یورپی یونین کے وفد کی تہلکہ خیز رپورٹ ’’کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین قید خانہ‘‘ کے نام سے منظرعام پر آئی تھی۔ سال بھر پہلے اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کمیشن کی 49 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بھی بھارتی مظالم کی واضح لفظوں میں نشاندہی کی گئی تھی۔ اب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بھارت کے ظالمانہ مرکزی قوانین اور ان کے بے جا استعمال کے نتیجے میں ہونے والے روح فرسا واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جاری کردہ 40 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بغیر الزام یا مقدمے کے مشتبہ شخص کو دوسال کے لیے گرفتار رکھنے کا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ بھارتی اور عالمی انصاف کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ وادی میں گزشتہ تیس برس میں اس قانون کے تحت ہزاروں افراد کر نظربند رکھا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کے مطابق یہ قانون بھارتی اور عالمی انسانی حقوق کے قانون کے خلاف اور مقبوضہ وادی میں حکام اور شہریوں کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔ رپورٹ میں 2012ء سے 2018ء تک 210 قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ستّر فیصد مقدمات میں قیدیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور ایک جیسے  الزامات کی بنیاد پر انہیں فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مسرت عالم ایک معروف سیاسی کارکن ہیں، عدالتیں جن کی رہائی کے 38 بار احکامات جاری کرچکی ہیں، مگر وہ اب بھی جیل میں بند ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی پولیس عدالتی کارروائی کی حامی نہیں، کیونکہ اس طرح انہیں قیدی سے متعلق ٹھوس ثبوت دینا پڑتے ہیں۔
ایمنسٹی کے نمائندوں کو یہ رپورٹ سری نگر میں میڈیا کو جاری کرنا تھی مگر بھارتی حکومت اور فوج نے اس پریس کانفرنس کو منعقد نہیں ہونے دیا۔ پریس کانفرنس ہال کو تالے لگاکر انسانی سول سوسائٹی کے نمائندوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ رپورٹ اُس وقت سامنے آئی جب کشمیر کے معروف اخبارنویس اور ’رائزنگ کشمیر‘ نامی اخباری گروپ کے بانی ڈاکٹر شجاعت بخاری کی پہلی برسی منائی جارہی تھی۔ شجاعت بخاری ایک جرأت مند قلم کار تھے جن کا حلقۂ احباب سری نگر سے دہلی، اسلام آباد اور دنیا کے کئی ممالک تک وسیع تھا۔ انہیں گزشتہ برس رمضان المبارک میں سری نگر کے ہائی سیکورٹی زون میں نامعلوم حملہ آوروں نے گولیاں مار کر شہید کیا تھا۔ اُس وقت سے آج تک اُن کے قاتل نامعلوم ہیں۔ اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کمیشن کی رپورٹ کی تیاری میں شجاعت بخاری کے کردار اور اس رپورٹ کو اجاگر کرنے پر بھارت کے حلقے اُن سے ناراض تھے، اور عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ناراضی ہی اُن کی جان لینے کا باعث بنی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اب ایک ایسی تلخ حقیقت ہیں جس سے بھارت کا زچ اور رسوا ہونا تو فطری ہے، مگر عالمی ضمیر کی بے حسی بھی ان مظالم میں عیاں ہورہی ہے۔ دنیا میں کہیں پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو عالمی طاقتیں اپنا پاندان اُٹھائے مداخلت کرنے پہنچ جاتی ہیں، مگر وادیٔ کشمیر میں تیس برس سے بھارت نے ظلم وستم کا بازار گرم کررکھا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر کئی رپورٹیں منظر پر آچکی ہیں، مگر اس ٹھوس ثبوت کے باوجود عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے علَم بردار کہلانے والے طاقتور ممالک اس ظلم کا نوٹس نہیں لے رہے۔ ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ کا بھی عالمی برادری کوئی نوٹس لے گی، اس کی توقع قطعی عبث ہے۔ البتہ اس طرح کی رپورٹ اگر پاکستان کے کسی علاقے اور مسلمان حکومت کے زیراثر علاقے کے حوالے سے سامنے آئے تو عالمی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ممالک اس پر خوب سیاست چمکا سکتے ہیں۔ وادی کے نوجوان اکثر سوشل میڈیا پر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ خدا جانے دنیا بھر کے مسائل اور انسانوں پر مظالم پر چہچہانے والا عالمی ضمیر اُس وقت کیوں مُردہ اور گنگ ہوجاتا ہے جب معاملہ کشمیر جیسی کسی مسلمان آبادی کا ہو، اور اس پر مظالم ڈھانے والا کوئی غیر مسلم ہو۔ عالمی طاقتوںاور اداروں کا یہ تضاد امنِ عالم کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔