انور سجاد ۔ ۔ ۔کامیابی اور ناکامی کا مجسمہ

کم ہی شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں مبدائے فیض سے کئی صلاحیتیں عطا ہوں۔ انور سجاد ان ہی میں تھے جنھیںقدرت سے مختلف فنون میں دلچسپی اور مہارت ملی، لیکن مقبولیت اور ہردلعزیزی ویسی نہ مل سکی جیسی ملنی چاہیے تھی۔ وہ افسانہ نگار، ناول نگار، اداکار، رقاص، صداکار، سیاست داں، نقاد، مترجم، ڈراما نگار اور پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے سارے شعبوں میں قسمت آزمائی کی اور غالباً اسی ادھیڑبن میں رہے کہ کس شعبے کو، فن کے کس میدان کو اپنی جملہ توانائی دیں اور اسے اپنی شناخت بنائیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق وہ جیک آف آل، ماسٹر آف نن تو نہیں تھے کہ معاملہ مختلف فنون اور شعبوں میں شدبد سے کچھ آگے کا تھا۔ مثلاً افسانے کی دنیا میں ناول نگاری میں بھی انھوں نے اپنی الگ پہچان بنائی۔ حقیقت نگاری سے علامت نگاری تک ان کا اپنا جداگانہ، منفرد اسلوب رہا۔ افسانوی مجموعے ’’چوراہا‘‘ سے شروع ہوئے تو ’’استعارے‘‘ اور ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ تک انھوں نے اردو ادب کو ایک مختلف ذائقے کے افسانے اور ناول سے متعارف کرایا۔ یہ الگ بات کہ افسانہ نگاری کی یہ روش مقبول نہ ہوسکی اور علامت نگاری کا یہ تجربہ ناکام تو رہا لیکن اس نے اردو افسانے کو اسلوب اور ہیئت میں بہت کچھ دیا، اور آگے چل کر حقیقت نگاری اور علامت نگاری کے تال میل سے ایسی کہانیاں لکھی جانے لگیں جن میں ابلاغ کے ساتھ قاری کی دلچسپی بھی قائم ہوسکی۔ انور سجاد نے طبع زاد تحریروں کے ساتھ ترجمے کے کام میں بھی ہاتھ ڈالا اور ’’نیلی نوٹ بک‘‘ کے عنوان سے ایسا ترجمہ کیا جسے اردو زبان و ادب میں اضافہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے گاہے گاہے تنقیدی مضامین بھی لکھے، اور ان کے ایسے ہی مضامین کا مجموعہ ’’تلاشِ وجود‘‘ کے نام سے سامنے آیا۔ یہ ہماری روایتی تنقید سے ہٹ کر اور قدرے مختلف تنقید ہے جس میں نقاد کی بصیرت اور زاویۂ نگاہ تخلیقی سطح کا ہے… روایتی نقادوں کی کئی کئی کتابوں پر بھاری اور لائقِ مطالعہ۔
انور سجاد اداکار، صداکار تو تھے ہی، اور اس حیثیت میں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے کئی ڈراموں اور ڈراما سیریل میں اپنے فن کے جوہر بھی دکھائے، مثلاً ’’صبا اور سمندر‘‘ میں انھوں نے بہت عمدہ کام کیا، لیکن ساتھ ہی انھوں نے ایسے ڈرامے بھی لکھے جن کا شمار پاکستان ٹیلی وژن کے یادگار ڈراموں میں کیا جا سکتا ہے، جیسے ’’پکنک‘‘، ’’رات کا پچھلا پہر‘‘، ’’کوئل‘‘، ’’یہ زمین میری ہے‘‘ وغیرہ۔
پست قامت، بڑی بڑی آنکھوں اور تیز تیز گفتگو کرنے والے انور سجاد کو فنونِ لطیفہ کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ وہ بھٹو عہد میں پیپلزپارٹی میں شامل رہے اور ایک پولیٹکل ایکٹی وسٹ کے طور پر بھی متحرک و فعال رہے۔ چناں چہ جنرل ضیاء، بھٹو کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تو انور سجاد کو بھی اسیرِ زنداں ہونا پڑا۔ رہا ہوکر آئے تو بی بی بے نظیر اور اُن کے شوہرِ نامدار آصف زرداری کی سیاست سے غالباً مایوسی نے انھیں سیاست سے کنارہ کش کردیا۔ ذہین اور باصلاحیت انورسجاد جنہوں نے لاہور میں آنکھ کھولی (سالِ پیدائش 1935ء) اور کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، لیکن طبیعت اور مزاج کو یہ پیشہ کبھی نہ بھایا، اور میڈیکل پریکٹس کو ذریعۂ معاش بنانے کے بجائے انھوں نے فنونِ لطیفہ کی دنیا میں نام کمانے کو ترجیح دی۔ سچی بات بھی یہی ہے کہ وہ اپنی بھاری اور گونج دار آواز، چہرے کے تاثرات پر قدرت اور اپنے متحرک جسم کے حوالے سے صداکاری اور اداکاری کے لیے بہت موزوں تھے۔ لیکن ان کا اداکاری، صداکاری اور رقص میں دلچسپی لینے کا زمانہ بھی محدود ہی رہا، اور طویل عرصے سے ان شعبوں سے وہ الگ تھلگ ہی رہے۔ لاہور کی مجلسی زندگی میں بھی وہ ایک خاص مدت تک ہی متحرک رہے، اور اس زمانے میں لاہور آرٹس کونسل کو بھی اپنی صدارت سے رونق بخشی۔ ادبی سیاست، ادبی تنازعات اور ادبی بحث و مباحثے میں بھی ان کی شرکت بالعموم نہ ہونے کے برابر رہی۔ اس کے باوجود افسانوں میں ان کی انفرادیت کو تسلیم کیا گیا۔ اور اس زمانے میں بھی جب ادب میں انتظار حسین کے افسانوں کا طوطی بول رہا تھا، انور سجاد اس کے دوسرے سرے پر اپنے اختلافِ اسلوب کے ساتھ حوالہ بنے رہے، اور انھیں ایک اسکول آف تھاٹ کا افسانہ نگار تسلیم کیا گیا۔ یہ ان کی اہمیت کی دلیل ہے۔
اس حقیقت کے باوجود ایک طویل عرصے تک ادب و فن کی دنیا میں زندگی گزارنے کے باوجود معیار و تعداد کے اعتبار سے ان کی تصانیف گنی چنی ہی ہیں۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی متنوع دلچسپیوں میں منہمک ہونے کے سبب وہ ادب کے لیے اتنا وقت نہ نکال سکے جتنا انھیں نکالنا چاہیے تھا۔ افسانوں کے مشکل سے تین چار مجموعے، ایک ناول اور ترجمے کی ایک کتاب ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ اس کے برعکس انتظار حسین یا عبداللہ حسین کا تخلیقی سرمایہ بہت وسیع اور وقیع ہے۔ انور سجاد نے اتنا کم، اتنا مختصر کیوں لکھا؟ ادب میں کوئی بڑا بریک تھرو بھی ان سے منسوب نہیں۔ اس کی اور کیا تاویل کی جائے کہ ادب ان کی ترجیحات میں سرفہرست شاید نہ رہا ہو۔ ان کی تخلیقی توانائیاں منقسم رہیں۔ تھوڑے سے ڈرامے، تھوڑے سے افسانے، تھوڑی بہت ناول نویسی، پھر سیاست کے بکھیڑے، ساتھ ہی روزگار کی کھکھیڑ… یوں ایک آدمی جو بہت سی صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں آیا تھا، خود کو اور اپنی صلاحیتوں کو منظم نہ کر پانے کی وجہ سے اپنے ان امکانات کو نہ پا سکا جس کی اس سے توقع کی جاتی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں تلاشِ روزگار میں وہ کراچی آئے اور یہاں جیو کے اسکرپٹ رائٹنگ کے شعبے کے سربراہ ہوگئے۔ ساتھ میں ضیا محی الدین کے سرکاری ادارے ناپا(NAPA) میں بھی اسکرپٹ کے شعبے کی نگرانی کرتے رہے۔ یہ ذمہ داریاں ان کے اٹھانے کی نہیں تھیں، لیکن ہمارے معاشرے میں تخلیقی آدمی کا المیہ یہ ہے کہ پیٹ پوجا اور چولہے چکی کی مشقت اس سے وہ کچھ کراتی ہے جس سے زیادہ بڑے کام اس کے کرنے کے ہوتے ہیں، لیکن وہ کام یافت کے اعتبار سے صفر اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے تخلیقی آدمی کرے بھی تو کیا۔ سنا ہے یہیں رہتے ہوئے ان کی طبیعت ناسازہوئی اور حالت بگڑنے پر لاہور منتقل کیا گیا، جہاں کچھ ہی مہینوں پہلے فہمیدہ ریاض اللہ کو پیاری ہوئیں اور تدفین کے وقت دوچار ادیب بھی موجود نہ تھے۔ انور سجاد لاہور ہی کے تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں اچھے بھلے لوگ عمائدینِ شہر اور ادبا و شعرا موجود تھے۔ ذرائع ابلاغ نے بھی ان کی موت کی خبر کو نمایاں اہمیت دی، اور جو خبریں شائع ہوئیں یا ٹیلی کاسٹ ہوئیں اُن سے لگا کہ ایک اہم آدمی معاشرے اٹھ سے گیا۔
ان کی موت کی خبر پڑھ کر مجھے ایک دھچکہ سا لگا اور بے اختیار ایک سوال میرے سامنے آکھڑا ہوا کہ میں جو اہم اور کم اہم ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویو کرتا رہا ہوں، میرے اندر کیوں یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ انور سجاد کا انٹرویو کرلوں؟ میں اس سوال کا کوئی جواب تلاش نہ کرسکا۔ اس لیے کہ یہی سوال قرۃ العین حیدر (جن کا میں بے پناہ مداح ہوں) اور عبداللہ حسین کی بابت بھی میں اپنے آپ سے کرسکتا ہوں کہ ملاقات کے باوجود ان دونوں بلند پایہ ادیبوں کا بھی میں انٹرویو نہ کرسکا کہ خواہش ہی نہ ہوئی، دھیان اس طرف گیا ہی نہیں۔ ظاہر ہے یہ میری کم نصیبی ہے… اور یہ کم نصیبی بھی کچھ کم نہیں کہ انور سجاد اتنا عرصہ کراچی میں رہے اور ان سے ملاقات کی سعادت سے بھی محروم رہا۔ یقینا وہ اُن ادیبوں اور فنکاروں میں سے تھے جن سے مل کر، جن کی صحبت میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا۔ اور کچھ حاصل نہ بھی ہوتا تو اس سوال کا جواب ضرور حاصل کرلیتا کہ مبدائے فیض سے اتنی صلاحیتیں عطا ہوئی تھیں تو کسی ایک صلاحیت کو بھی کمال تک کیوں نہ پہنچایا؟