آئی سی سی ورلڈ کپ ۔ ۔ پاکستانی ٹیم تنقید کی زد میں

سید وزیر علی قادری

12ویں آئی سی سی ورلڈ کپ کا آغاز 30مئی 2019ء سے ہوچکا ہے اور ٹورنامنٹ میں شامل 10کی 10ٹیمیں کم از کم 9میچوں میں سے 4میچ کھیل چکی ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھی ان ٹیموں میں شامل ہے، جس نے 5میچ کھیل لیے ہیں اور اب چھٹا میچ جنوبی افریقا کے خلاف 23جون کو کھیلا جائے گا۔ اب تک پاکستان نے صرف ایک میچ جیتا، ہے جس کی وجہ سے اس کو 2پوائنٹس مل گئے، ایک میچ بارش کی وجہ سے نہ ہوسکا جس کی وجہ سے اس کے کھاتے میں ایک پوائنٹ ڈال دیا گیا۔2میچوں میں اس کو شکست ہوئی جس میں روایتی حریف بھارت بھی شامل ہے، جس نے گرین شرٹس کو 89 دن سے قابو کیا۔اس طرح پاکستان پوائنٹس ٹیبل پر 3پوائنٹس کے ساتھ موجود ہے۔
قومی ٹیم ویسے تو ورلڈ کپ کے شروع ہونے سے پہلے ہی بہت زیادہ فیورٹ ٹیموں میں شامل نہیں تھی مگر اتنا ضرور ہے کہ قوم کو اس سے بہتر کارکردگی کی توقع ضرور تھی۔ اس کی ایک وجہ تو ٹیم میں 10ایسے کھلاڑیوں کا شامل ہونا تھا جوپہلی دفع ورلڈ کپ کھیل رہے تھے، توقع یہ کی جارہی تھی کہ نیا خون ،نیا جذبہ اور نیا ٹیلنٹ سبز ہلالی پرچم کو رواں میگا ایونٹ میں وکٹری اسٹینڈ پر نہ بھی لاسکا مگر ممکن ہے کسی صورت آخری 4یعنی سیمی فائنل تک اس کی رسائی ہوجائے۔ یہ قیاس آرائیاں اور امیدیں ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل تھیں۔ لیکن جیسے جیسے پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے میچ کھیلنے کے لیے میدان میں اترتی رہے اتنا اتنا قوم کی امیدیں ماند پڑتی رہیں اور اس پر 16جون کو حتمی مہر سبت ہوگئی جب بھارت کے خلاف ہوئے میچ میں کپتان نے ٹاس جیت کر خود پہلے بیٹنگ کرنے کے بجائے روایتی حریف کو پہل کرادی۔ یہ فیصلہ ہی دراصل میچ کا فیصلہ ثابت ہوا اور پورے ملک میں آویزاں بڑی بڑی اسکرینز پر شیروں کو گیدڑ بنتے دیکھ کر شائقین کرکٹ خون کے آنسو روتے رہے۔ 300سے زیادہ کا مجموعہ کرنے والی ٹیم بھارت نے گرین شرٹس کے اوسان خطا کردیے ،ہاتھ پائوں پھولنے والے بولر زاپنی لینتھ اور بریتھ ہی بھول گئے۔ میچ کے دوران بارش بھی میچ کے آڑے آئی مگر اس سے کچھ قبل قوم کی رب العزت سے وہ دعا کارگر نہ ہوسکی کہ ٹیم کی کارکردگی تو کھڈے لائن لگ گئی، رم جھم نہ تھمے اور ایک ایک پوائنٹ مل جائے تو نہ صرف ہار کی خفت سے بچ جائیں گے ۔ 6مرتبہ لگاتار شکست کا طعنہ بھی سننے کو نہیں ملے گا۔ افسوس کہ یہ سب آرزوئیں اسی طرح کارگر نہ ہو سکیں جس طرح محمد عامر کی بہترین بولنگ کے ساتھ 3وکٹیں۔
پاکستان کے ہارنے کے بعد ہمیشہ کی طرح ڈریسنگ روم میں ہیڈ کوچ اور بعد میں کپتان نے شکست خوردہ اور مرجھائے ہویے پلیئنگ الیون کو آڑے ہاتھوں لیا اور جتنا برس سکتے تھے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرلیا۔ اسی میں کپتان تو اشاروں میں بہت کچھ کہ گئے۔
رواں ورلڈ کپ میں شامل 10ٹیموں میں سے پاکستان واحد ٹیم ہے، جس کا وزیر اعظم اور اس کی وزیروں اور مشیروں کی ٹیم براہ راست ان کھلاڑیوں سے رابطے میں رہی۔ ہوسکتا ہے اس جملے پر اعتراض ہو مگر سوشل میڈیا کے ذریعے تو بہرحال رابطہ رہا۔ اس کے علاوہ لیجنڈ اور سابق قومی کھلاڑیوں کی ایک بہت بڑی تعداد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے کپتان اور مینجمنٹ کو گر سکھاتے رہے۔ وزیر اعظم جو1992ء ورلڈ کپ کے فاتح اور ہیرو بھی ہیں ٹیم کی انگلینڈ روانگی سے قبل ملاقات سے لے کر بھارتی ٹیم سے ٹکرائو کے لیے ٹاس ہونے سے پہلے تک یہ کہتے رہے کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنی ہے اور شیروں تک جھپٹنا ہے مگر کپتان جب فیلڈ میں گیا اور ٹاس ہوا تو اس کے حواس باختہ ہوگئے ۔ پریشر اور بلڈ پریشر اتنا شوٹ کرگیا کہ وہ سن ہوگیا اور فوری درست فیصلہ کرنے سے قاصر رہا۔ ذرائع کے مطابق کیونکہ وہاں پہلے سے موجود مینجمنٹ خود گروپنگ کا شکار تھی اور ٹیم کے 15کھلاڑی بھی اس وبا کا شکار ہوگئے ۔
گزشتہ چند روز سے کپتان سرفراز احمد اور میڈیا رپورٹس اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ ٹیم میں گروپ بند ی کی وجہ سے رواں ورلڈ کپ میں قومی ٹیم سے زیادہ توقعات نہ باندھی جائیں، کپتان کا کہنا ہے کہ میں اکیلا نہیں جائوں گا بلکہ دو تین کو ساتھ لے کر جائوں گا۔ ہمارے نزدیک یہ بہت سنگین مسئلہ ہے اور جس طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاک بھارت میچ میں بنفس نفیس موجود تھے ، خود وزیر اعظم پورے میچ کو مانیٹر کرتے رہے تو یقینا ان کو یہ سب باتیں جو میڈیا کے ذریعے عام فرد تک پہنچ رہی ہیں ان تمام باتوں کا علم ان کو بھی ہورہا ہوگا۔
کہا یہ بھی جارہا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین انضمام الحق کی ایونٹ میں موجودگی سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے اور ہیڈ کوچ اور بیٹنگ، فیلڈنگ، بولنگ کوچز بھی ان کی موجودگی کو مناسب نہیں سمجھ رہے لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ کو اب فوری طور پر انہیں واپس بلالینا چاہیے۔ ان کا کیا کام کہ وہ فیلڈ اور وکٹ کا معائنہ کریں۔ ذرائع کے مطابق ٹاس جیت کر فیلڈنگ کرنے کا مشورہ انہیں کا تھا اور کپتان نے دبائو میں آکر اسی وقت ان ہی کی ہدایت کو سامنے رکھا اور وہ فیصلہ کرلیا جو پوری قوم کے لیے حیران کن تھا۔
ان حالات میں جبکہ ابھی 4میچ باقی ہیں اور اگر مگر کی کہانی شروع ہوچکی ہے، وزیر اعظم عمران خان ہم سب سے زیادہ وہاں گزرنے والی کیفیات سے آشنائی اور اگاہی ہے، انہیں بحیثیت سرپرست پاکستان کرکٹ بورڈفوری مداخلت کرنی چاہیے اور بورڈ کے ذمہ داران جس میں چیئرمین اور اوپر سے نازل ہوئے منیجنگ ڈائریکٹر شامل ہیں سے بازپرس کی جائے۔ پی سی بی سے تعلق رکھنے والے اہم عہدوں پر فائز افرادکی بہت بڑی تعداد انگلینڈ میں موجود ہے اور سیر و تفریح میں لگی ہوئی ہے۔حتی کہ میچ کے ٹکٹوں کے حصول کے لیے کشمکش جاری ہے۔ کھلاڑیوں کو اپنی فیمیلز کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ گھومنے کا شاخسانہ تو میڈیا میں آہی گیا۔ اس کے علاوہ جس ٹیم میں 10نئے کھلاڑی شامل کیے گئے ہوں اس ٹیم میں گروپ بندی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جہاں لالچ اور طمع کے ساتھ ساتھ حسد و کینہ جمع ہوجائے اور دوسری طرف غرور و تکبر عروج پر پہنچ جائے وہاں قومیں زوال پزیر ہوجاتی ہیں یہ تو صرف ایک کھیل ہے۔
آئی سی سی کے اس بڑے ٹورنامنٹ میں جس طرح جوا کھیلا جارہا ہے اور جس طرح پاک بھارت میچ دیکھنے کے لیے ایک شائق نے پاکستانی 6لاکھ روپے میں ٹکٹ حاصل کیا، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ؟۔ ایک اطلاع کے مطابق صرف پاک بھارت میچ کے ٹاس پر 3 ارب روپے کا جوا کھیلا گیا اور پورے میچ پر 37ارب روپے کا سٹہ کھیلا گیا۔ یہ ہی نہیں ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل بمبئی، دبئی اور جہانسبرگ میں بکیز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اطلاعات کے مطابق پورے ٹورنامنٹ میں اربوں روپے کا جوا اور سٹہ گزشتہ ورلڈ کپ کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا ۔دیکھنا یہ ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہویے قومی ٹیم کے کھلاڑی اس سے کس طرح بچ سکیں گے اور اسپاٹ فکسنگ کا شکار نہیں ہونگے ۔
nn