تبصرہ کتب :  مرقع نستعلیق لاہوری

کتاب : مرقع نستعلیق لاہوری (رنگین) ۔

مصنف و مرتب : خطاط خالد محمود صدیقی

صفحات : 50

قیمت : 500روپے

ناشر: کیلی گرافرز ایسوسی ایشن آف پاکستان
2-S گلبرگ II ،دبستانِ اقبال لاہور
فون نمبر:042-32802464
0300-0460405
:ای میل
khatateen@gmail.com
:ویب گاہ
www.khatateen.org
ناشرکے علاوہ درج ذیل پتوں سے بھی دستیاب ہے
کتاب سرائے اردو بازار لاہور۔

اسلامک پبلی کیشنر منصورہ۔

مکتبہ معارفِ اسلامی منصورہ لاہور۔

دارالسلام، لوئر مال سیکریٹریٹ اسٹاپ لاہور۔

فضلی بک سپر مارکیٹ اردو بازار کراچی۔

دارالسلام طارق روڈ پی ای سی ایچ ایس نزد سندھ لیب کراچی۔

دارالسلامُ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔

اردو بازار گوجرانوالہ۔

۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

برادرم خالد محمود صدیقی نے مجھے بتایا کہ میں نے خطِ نستعلیق کا ایک کراسہ تیار کیا ہے، آپ اس کو دیکھ کر اپنی رائے دیں۔صدیقی صاحب کو اللہ پاک نے خطاطی کا قابلِ رشک ذوق عنایت کیا ہے۔ ان کی ساری عمر خطاطی کے دشت کی سیاحی میں گزری۔ ان کی تحریر کردہ خطاطی کی مشقیں دیکھنے سے یہ محسوس ہوا کہ ہم خطاطی کے چمنستان کی سیر کررہے ہیں۔ صدیقی صاحب کو مختلف خطوط ِعربیہ و فارسیہ میں عبور حاصل ہے۔ یہ کراسہ خطِ نستعلیق لاہوری میں مدون ہوا ہے، جس کی اس وقت بہت ضرورت ہے کہ لاہوری نستعلیق پر تحقیق ہو، اور اس کے قابلِ قدر نمونے طالب علموں اور شائقینِ فن کے سامنے لائے جائیں۔ زمانہ تبدیل ہوگیا ہے۔ ہر طرف تبدیلی کا غلغلہ ہے۔ فنِ خطاطی مسلمانوں کا عظیم فن ہے، اہلِ اسلام نے اس میں عظیم الشان تخلیقی قابلیت کا ثبوت دیا ہے اور عربی لکھنے کے لیے بہت سے خط ایجاد کیے، اور ان کو اس قدر خوبصورت بنایا کہ تاریخِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلامی فنونِ لطیفہ کا تعلق بھی اللہ پاک کی الہامی کتاب قرآن مجید سے ہے۔ فنِ قرأت اور فنِ خط ہی اسلامی فنونِ لطیفہ میں اصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فنِ خطاطی کوئی جامد فن نہیں،، بلکہ اس کے اصول و قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر عہد میں خط کو خوب سے خوب تر بنانے میں خطاطوں نے اپنی صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ لاہوری نستعلیق کے اساتذہ عبدالمجید پروین رقم، محمود اللہ صدیقی، حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم مخمور سدیدی، انور حسین نفیس رقم اور بہت سے اساتذہ کے نمونے مرتب کرکے مختلف کتابوں یا ایک کتاب میں شائع کرنے چاہئیں، کیونکہ خطاطی کا دورِ جدید شروع ہوچکا ہے اور خطاطی کے عالمی مقابلوں میں پاکستانی خطاطوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ان کو مرتب نہیں کیا گیا۔ پاکستان سے خط کی کوئی جامع کتاب ایسی نہیں ہے جو دوسرے اسلامی ممالک سے چھپنے والی کتاب کے مقابلے میں پیش کی جا سکے۔ امید ہے کہ اس کتاب سے پاکستان میں خطاطی کو پیش کرنے کے دورِ جدید کی شروعات ہوگی۔ ضرورت ہے کہ سرکاری طور پر ایک مدرسہ تحسین الخطوط بنایا جائے، جس کے تحت تمام خطاطوں کو مجتمع کیا جائے اور اسی مدرسے سے کتبِ خطاطی کم قیمت پر مہیا کی جائیں۔ امید ہے دوسرے محترم خطاط حضرات بھی اس طرف متوجہ ہوں گے۔ خالد صدیقی صاحب بھی خطاطِ ہفت قلم ہیں، دوسرے خطوط کے کراسے بھی مرتب کریں گے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے، اپنے والد محمود اللہ صدیقی اور خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم کے نمونے جمع کردیے ہیں۔
کتاب کی شانِ نزول کے متعلق خالد محمود صدیقی تحریر فرماتے ہیں:
’’الحمدللہ! اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد اور توفیق کی بدولت یہ کاوش آپ کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ اس کے لکھنے کی غرض و غایت دراصل میری وہ ذہنی اور قلبی کیفیت ہے جو تقریباً تیس سال دیارِ غیر میں گزارنے کے بعد ہوئی۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ گزشتہ چالیس سال میں پاکستان کی خطاطی کو عروج حاصل ہوا۔ بڑے بڑے نابغۂ روزگار اساتذۂ فن اپنی ہمہ جہتی کی بدولت منصۂ شہود پر نمودار ہوئے اور خط کی آبیاری کرکے ایک تناور درخت بنادیا۔‘‘
صوفی عبدالمجید، پروین رقم کے ایک شاگرد بمبئی میں تھے۔ فیض مجددی صاحب ان کے وہاں ایک شاگرد تھے۔ اسلم کرتپوری اور پھر ان کے شاگرد تھے ڈاکٹر ریحان انصاری یوسف صاحب۔ خالد محمود صدیقی صاحب نے کمپیوٹر کے ذریعے اپنے لکھے ہوئے پینل ڈاکٹر ریحان کو بھیونڈی مہاراشٹر بھارت بھیجے، انہوں نے جواباً جو لکھا ہم اس کو یہاں درج کرتے ہیں:
’’خطِ لاہوری کی تابانیاں بکھیرتے اوراق سے نظریں ہٹا نہیں پایا۔ سرمۂ نورونظر نکلا۔ آپ کی سعیٔ مشکور کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک ملی۔ آئینہ خانہ خطِ لاہوری یا طرزِ پروینی ہے۔ اس کے صفحات پر جن کاوشوں کو ٹانکا گیا ہے وہ مبتدین ہی نہیں، مشاق خطاط کے لیے بھی رہنما ہیں۔ پھر آپ نے ہکار الفاظ یعنی ہندی آواز والے الفاظ کو جس طرح سے جگہ دی ہے وہ اس مرقع کو امتیازی بناتی ہے۔ نقاط و علامات بھی مناسب ترین منظر پیش کرتے ہیں۔ حروف و الفاظ کی نشست و ترتیب مناسب تر ہے۔ طرزِ پروینی میں پروین رقم صاحب کا تتبع پوری طرح واضح دکھائی دیتا ہے۔ پروین رقم صاحب کے علاوہ بیشتر نستعلیق نویسوں کے ہاں بائے خرداور بائے دراز کے پیوند میں فرق ملتا ہے، لیکن پروین رقم صاحب کے یہاں وہ فرق واضح نہیں ہے۔ بائے خرد کو بیشترنستعلیق نویس جوڑنے سے قبل چھوٹی رے نما پیوند لگاتے ہیں اور بائے دراز میں کہنی نما پیوند۔ آپ نے پروین رقم صاحب کو فالو کیا ہے، اور اس کا اعلان تو صفحہ اول پر بھی موجود ہے، پھر یہ کوئی نزاع بھی نہیں ہے بلکہ امتیازی وصف ہے۔ آپ کی مساعیٔ جمیلہ نے واقعی روح کو سرشار کردیا۔ اس مرقع کے صفحات نے ایک ہفت رنگ قوسِ خیال سے آسمانِ فن کو تازہ منظر سے سجا دیا ہے۔ مرقع کو عصرِ نو کی خوبی عطا کی ہے۔ حروف اور الفاظ عروسی پیکر میں ظاہر ہورہے ہیں۔ ہر مقام پر فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ میری جانب سے بہت بہت مبارک بادیں۔ ان شاء اللہ اس دور کے خطاطین کی محنتوں اور ندرتوں سے فنِ خطاطی اپنی نشاۃ ثانیہ میں داخل ہوگی اور اس میں آپ کا یہ مرقعِ نستعلیق اپنی خوبیوں کے لیے مقبول بھی ہوگا۔‘‘
عرفان احمد قریشی صاحب نے بتایا کہ ان کے ہاں سے صوفی خورشید عالم رقم پر ایک کتاب جس میں ان کے تحریر شدہ خطاطی کے نمونے بھی شامل کیے گئے ہیں، طباعت کے لیے تیار ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب نے حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم پر چار سو صفحات پر مشتمل کتاب بھی طباعت کے لیے تیار کی ہے، دعا ہے کہ جلد طبع ہو جائے۔ اسی طرح خالد محمود صدیقی صاحب بھی دوسری کتاب تیار کررہے ہیں، وہ بھی جلد ہی منصہ شہورد پر ظہور کرے گی۔ ان شاء اللہ۔