فرائیڈے اسپیشل فورم: وفاقی بجٹ 2019

وفاقی بجٹ پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا نکتہ نظر جاننے کے لیے فرائیڈے اسپیشل نے فورم کا اہتمام کیا، جس میں عوامی نمائندے، تاجر، مزدور، جائداد کی خرید فروخت سے افراد کے علاوہ سرکاری ملازمین کی یونین کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

نواب زادہ افتخار احمد خان بابر
(رکن قومی اسمبلی پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین)

حکومت اپنی نالائقی اور عوام دشمن بجٹ ہونے پر پارلیمان میں بحث شروع نہیں ہونے دے رہی۔ اقتصادی سروے 2018-19ء تمام پرچوں میں فیل ہے۔ 5.8 فیصد پر چلتی معیشت کو آدھا کردیا گیا، مہنگائی تین گنا کردی گئی، 10 ماہ میں نالائق حکومت نے 5500 ارب کا ٹیکس لیا، وہ کدھر گیا؟ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر کدھر گئے؟ 10 ماہ میں 15 سے 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، اس کا جواب دیں۔ دس ماہ میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، اُس کا بھی جواب دیں۔ حکومت کسے بے وقوف بنارہی ہے کہ یہ عوام کابجٹ ہے! یہ تو آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ ہم اپنے چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر چل رہے ہیں اور یہ عوام دشمن آئی ایم ایف بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ حقائق کیا ہیں، انہیں جو پٹی پڑھائی جاتی ہے وہ اسی پر چل پڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں زرعی شعبے کا مسئلہ الگ ہے اور صنعتی شعبے کا مسئلہ الگ۔ انہیں باہم ملایا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح سرکاری ملازمین، نجی شعبے کے ملازمین اور مزدوروں کے مسائل ان سے بھی مختلف ہیں، مگر حکومت نے ان تمام کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی ہے جس میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ٹیکس ہمیشہ آمدنی پر ہوتا ہے، لیکن یہاں حکومت نے پہلے خود ہی اندازہ لگایا اور پھر خود ہی اس پر ٹیکس لگادیا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے ڈیٹا اکٹھا کرتی اور پھر فیصلے کرتی۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ حکومت پر لوگوں کا اعتماد اٹھ رہا ہے بلکہ اٹھ چکا ہے۔ جہاں تک ٹیکس کی بات ہے، یہ تو روٹی اور گندم سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ گندم کا آٹا پستا ہے اور مارکیٹ میں آتا ہے، اس کی فروخت پر ٹیکس ہے۔ اس آٹے سے روٹی بن کر دکانوں میں ملتی ہے، اس پر بھی ٹیکس ہے۔ اس آٹے سے میدہ نکالا جاتا ہے اور جب یہ مارکیٹ میں آتا ہے تو اس کی قیمت میں ٹیکس شامل ہوتا ہے۔ اس میدے سے ڈبل روٹی بنتی ہے، اس کی قیمت میں بھی ٹیکس شامل ہوتا ہے، اور اسی ڈبل روٹی سے سینڈوچ بنتے ہیں اُن پر بھی ٹیکس ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہر چیز پر اسی طرح کئی کئی ٹیکس ہیں۔ تنخواہ دار بھی ٹیکس دیتا ہے، پیٹرول ڈلوانے والا بھی دیتا ہے، حتیٰ کہ ہر شے خریدنے بیچنے پر ٹیکس ہے، اور یہ کہتے ہیں کہ ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اچھا اب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، معیشت مستحکم ہوگئی ہے، وزیراعظم بتائیں کہ عوام کا کب تک رس نچوڑیں گے؟ ان کے تو خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔

شمس الرحمان سواتی
( صدر نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان)

نیشنل لیبر فیڈریشن ملک بھر کے مزدوروں کی ایک نمائندہ نتظیم ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ اس بجٹ میں مزدور کُش فیصلے کیے گئے ہیں اور ان کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، حتیٰ کہ اب غیر تنخواہ دار طبقہ بھی ٹیکس کی زد میں آچکا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 70کھرب 36ارب کا بجٹ پیش کیے جانے اور بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہ دیے جانے، اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کیے جانے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کیے جانے پر سخت احتجاج کیا جائے گا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، ان حالات میں قومی بجٹ نے غریبوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ حکومت نے مہنگائی میں تقریباً ساٹھ فیصد اضافہ کیا ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ بجٹ حکومتِ پاکستان کا بجٹ نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور اُس کے تنخواہ داروں کے ہاتھوں کا بنایا ہوا بجٹ ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان اس عوام دشمن بجٹ کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ اس بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان آئے گا۔ بجٹ تجاویز پر عمل درآمد کے نتیجے میں مہنگائی میں ناقابلِ برداشت ریکارڈ تاریخی اضافہ ہوگا۔ وفاقی بجٹ تجاویز میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تجویز کردہ اضافہ بھی مہنگائی کے تناسب سے بہت کم ہے لیکن انتہائی مایوس کن بات یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین جو کہ بدترین استحصال کا شکار ہیں، کے بارے میں حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے ریلیف کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ غیر ہنرمند مزدوروں کی تنخواہوںکے تعین کا حق اب حکومت کو براہِ راست حاصل نہیں ہے، بلکہ اس مقصد کے لیے صوبوں میں کم سے کم اجرت بورڈ تشکیل دیے گئے ہیں، جن کی سفارشات پر صوبائی حکومتیں کم از کم تنخواہ کا تعین کرسکتی ہیں۔ وفاقی حکومت بجٹ تجاویز پر نظرثانی کرکے عوام پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کرے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے اداروں کی انتظامیہ کو نوٹیفکیشن کے ذریعے پابند کیا جائے کہ وہ بھی اپنے اداروں کے ریگولر ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم وہی اضافہ کریں جوکہ حکومت اپنے اداروں کے ملازمین کے لیے مقرر کرتی ہے۔

اسرارالحق مشوانی
( مرکزی کوآرڈی نیٹر فیڈریشن رئلٹرز آف پاکستان)

یہ بجٹ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کے لیے نئی مشکلات پیدا کرچکا ہے، اب لوگ اس شعبے کی طرف آنے سے گھبرائیں گے۔ حکومت کی جانب سے 11جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ غریب دشمن بجٹ ہے، ضرورت کی تمام اشیاء تیل، گھی، چینی سمیت دیگر اشیاء جو غریب عوام اور محنت کش استعمال کرتے ہیں، ان پر براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس عائد کیے گئے۔ ملک پہلے ہی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کے سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، ہر ماہ پیٹرول اور گیس کے نرخ میں اضافہ حکومت کا معمول بن گیا ہے، محنت کشوں کی بنیادی تنخواہ میں اضافہ نہ کرکے حکومت نے مزدور دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں اور ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں تلے دبا دیا گیا ہے، اور یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے۔ محنت کش اس بجٹ کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان بار بار یہ اعلان کررہے ہیں کہ میں قومی دولت لوٹنے والوں کا بلا تفریق احتساب کرکے اُن سے لوٹی ہوئی رقم کی پائی پائی وصول کروں گا۔ یہ احتساب نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ قومی دولت لوٹنے والوں سے جلد از جلد وہ رقم واپس نکلواکر تعلیم، نئے اسپتالوں کی تعمیر اور عوام کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے پر خرچ کی جائے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، یہاں روزگار کے مواقع بھی محدود ہیں اور بے روزگاری عام ہے۔ عوام کی بڑی اکثریت غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

تجمل حسین خالد
(ای او بی آئی ایمپلائز فیڈریشن پاکستان، سی بی اے)

حکومت نے بجٹ میں EOBI کی پنشن میں اضافے کا اعلان نہ کرکے بوڑھے ریٹائرڈ پنشنرز کو مایوس کیا ہے۔ حکومت EOBI پنشن کو 15 ہزار روپے ماہوار کرنے کا اعلان کرے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جس کی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حکومت ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کی مناسبت سے اضافہ کرے۔ حکومت نے محنت کشوں کے لیے کم سے کم 17500 روپے ماہانہ تنخواہ کا اعلان کیا ہے۔ اگر مارکیٹ میں موجود افراط زر کا جائزہ لیا جائے تو محنت کشوں کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ 30000 روپے ماہوار ہونی چاہیے، حکومت اپنے اعلان پر نظرثانی کرتے ہوئے محنت کشوں کی کم سے کم تنخواہ 30000 روپے ماہوار کا اعلان کرے اور جلد سے جلد اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرے۔ قومی بچت اسکیموں میں زیادہ تر ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان اپنی جمع پونجی رکھواتے ہیں، اس بجٹ میں اس اہم شعبے کو نظرانداز کرتے ہوئے قومی بچت اسکیموں کے منافع میں کسی اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا، جبکہ مارکیٹ میں روپے کی قدر میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ حکومت اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قومی بچت اسکیموں کے منافع میں اضافے کا اعلان کرے۔ حکومت تمام EOBI پنشنرز اور ریٹائرڈ ملازمین کو ہیلتھ کارڈ جاری کرے۔ حکومت بار بار ملک بھر میں نئے مکانات بنانے کا اعلان کررہی ہے، ان مکانات میں EOBI کے پنشنرز اور دیگر مزدوروں کے لیے کوٹہ مختص کیا جائے۔ EOBIکی پنشن میں جو اضافہ دیا گیا ہے وہ پاکستان کی اب تک کی تاریخ میں سب سے کم اضافہ ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ ناکافی ہے۔

چیئرمین چودھری سجاد سرور
(وائس چیئرمین سارک اسمال میڈیم انٹرپرائزر (ایس ایم ای) کمیٹی)

حکومت ٹیکس کے بجائے دبئی جیسا نظام لائے جس میں ہر کاروبار کے لیے ایک فیس رکھی گئی ہے اور حکومت ہر سال یہ فیس لیتی ہے۔ اس سے حکومت کو ہر حال میں مناسب محاصل مل جاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام ہے جس میں بہت سے مسائل ہیں۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا ہے۔ یہ بجٹ غیر منتخب مشیر نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر بنایا اور عوام پر لاگو کردیا ہے۔ بجٹ میں تین بنیادی نکات ہیں، گزشتہ بجٹ کے حجم سے تیس فی صد زائد حجم کے ساتھ بجٹ پیش کیا گیا ہے، یہ بجٹ زمینی حقائق کے برعکس اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور نئی ڈیوٹیاں نافذ کی گئی ہیں، اسی وجہ سے چینی، گھی، سیمنٹ مہنگے ہوجائیں گے، لیکن اس کے باوجود بجٹ خسارہ کم نہیں ہوگا جو اس وقت 3560ارب ہے۔ بجٹ میں صنعتوں اور برآمدی شعبے کو نظرانداز کیا گیا ہے، زیرو ریٹڈ سہولت کے خاتمے سے صنعتیں تباہ اور برآمدات کم ہونے کے خدشات ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے منتخب ہونے کے بعد پہلے خطاب میں صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی اور برآمدات کے فروغ کا وژن دیا تھا، جس کا بزنس کمیونٹی نے خیر مقدم کیا تھا، تاہم حکومت کے پہلے بجٹ میں پالیسیاں اس وژن کے مطابق نظر نہیں آتیں۔ جب تک ملکی صنعتی شعبے کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل نہیں دی جائیں گی، اُس وقت تک معاشی استحکام کی منزل حاصل نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم عمران خان برآمداتی صنعتوں کو حاصل زیرو ریٹڈ سہولت واپس لینے کی تجویز پر نظرثانی کریں۔ اس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگا اور برآمدات میں اضافے کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ صنعت کاروں کی جانب سے حکومت کی معاشی ٹیم کے سامنے صنعتوں اور برآمداتی شعبے کے مسائل کے پیش نظر زیرو ریٹڈ سہولت برقرار رکھنے کا مطالبہ رکھا گیا، لیکن اس پر کان نہیں دھرا گیا۔ گارمنٹس اور لیدر سمیت پانچ بڑے درآمداتی شعبوں پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ اور توانائی کے نرخوں پر دی گئی رعایت کے خاتمے کے بعد ان کی برآمدات میں اضافے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے! شرح سود میں اضافے سے ایس ایم ایز پہلے ہی شدید خطرات سے دوچار ہیں اور حالیہ بجٹ میں اس سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ غیر حقیقی ٹیکس اہداف اور متوسط طبقے پر ٹیکس میں اضافے سے محصولات کا دائرہ وسیع کرنے کی پالیسی دانش مندانہ نہیں۔

سید عمران بخاری
( فنانس سیکریٹری اسلام آباد رئیل اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن اسلام آباد )

حکومت اپنے پہلے ہی بجٹ میں پچاس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ تقریباً ترک کرتے ہوئے دکھائی دی ہے۔ اسی طرح پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی اپنے پہلے بجٹ میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دے سکی۔ زیادہ تر زور درآمدات، برآمدات اور سبسڈیز ختم کرنے یا کم کرنے پر دیا گیا ہے۔ بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ ملکی قرضے اور ادائیگیاں31 ہزار ارب ہوگئے تھے، زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب سے گرکر 10فیصد رہ گئے ہیں اور مالیاتی خسارہ 2200 ارب تک پہنچ گیا ہے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالرتک پہنچ چکا ہے۔ بجٹ میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ چین سے 313 اشیاء پر ڈیوٹی فری تجارت ہوگی۔ اس سے ملکی معیشت میں کیا فرق پڑے گا، اس کاکوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کو5550 ارب کا ہدف دیا گیا ہے، ہمیں یہ ہدف مصنوعی لگتا ہے اور اسے پورا کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ بجٹ تجاویز حکومت نے اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیے بغیر تیار کی ہیں۔ ہر شے کی خریداری ڈالروں میں ہوتی ہے، اس اعتبار سے ہر ادائیگی پر ڈالر کی قیمت بڑھنے یا روپے کی قدر گرنے کے اعتبار سے اضافہ ہوگیا لیکن ملک پھر بھی دیوالیہ نہیں ہوا۔ وزیراعظم صاحب کو اس بات کا فرق ہی محسوس نہیں ہورہا ہے کہ دیوالیہ پن کیا ہوتا ہے! انہوں نے ملک کس کو سمجھا ہوا ہے، یہ تو انہیں ہی پتا ہوگا، لیکن عوام مکمل دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ تو مہنگائی پہلے ہی کھا چکی تھی۔ پیٹرول مہنگا، سی این جی مہنگی، بجلی ہر ماہ مہنگی، آٹا، دال چاول، گوشت سب مہنگا… یہ کسی اور نے نہیں حکومت نے کہا ہے۔

فہد جعفر
( ایجوکیشن سیکریٹری ڈیفنس، کلفٹن رئیل اسٹیٹ ایجنٹس)

کراچی کے لیے 45.5 ارب روپے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا جائے گا۔ نوجوانوں کے لیے آسان قرضوں کے پروگرام، اور 5 ارب روپے ریسرچ سپورٹ فنڈزکی تجویز بھی شامل ہے۔ بجٹ میں کفایت شعاری، مالیاتی نظم و نسق، بیرونی شعبے کے انتظام اور غریب طبقے کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ سماجی شعبے کی ترقی کے لیے 94 ارب، ترقیاتی منصوبوں پر925 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ توانائی منصوبوں کے لیے 80 ارب، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لیے 200 ارب، جبکہ پانی سے متعلق منصوبوں پر70 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔صحت اور آبادی سے متعلق منصوبوں کے لیے 20 ارب، ماحولیات کی بہتری کے لیے 8 ارب، اور ایس ڈی جیز پروگرام کے لیے 24 ارب روپے، جبکہ آزاد کشمیر اور فاٹا کے لیے 49 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹریکٹر پرسیلز ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ اسٹیل مصنوعات پر بھی ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے، اور 70 ارب کی چھوٹ ختم ہوگی، اور 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگیں گے۔ نئے مالی سال کے بجٹ کا حجم 6 ہزار 800 ارب روپے ہوگا جس میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب رکھنے کی تجویزہے۔ نئے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بڑھانے کی تجویز ہے، جبکہ سیمنٹ، اسٹیل، چینی سمیت الیکٹرانک مصنوعات، گاڑیاں اور مشینری مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ لگژری درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی لگانے اور ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔آڑھتی، کمیشن ایجنٹ، مڈل مین کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ بجٹ میں کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس میں کمی نہ کرنے کی تجویز ہے، جبکہ چھوٹے کاروباری افراد پر فکسڈ ٹیکس لاگو ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ سالانہ 12 لاکھ سے کم کرکے 6 سے 8 لاکھ کرنے کی جبکہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس میں کمی نہ کرنے کی تجویز ہے۔ 5 برآمدی سیکٹرز کے لیے زیرو ریٹ ٹیکس کی سہولت ختم کرنے کی تجویز ہے جس میں ٹیکسٹائل، چمڑہ، قالین، کھیلوں کی مصنوعات، سرجیکل آلات شامل ہیں۔

رانا محمد ایاز
(سابق صدر اسلام آباد اسمال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اسلام آباد)

وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، معیشت مستحکم ہوگئی، کٹھن راستہ طے کرلیا، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 30 فیصد کم کردیا۔ ایسے ہی دعوے پاکستانی قوم کئی برس سے سن رہی ہے۔ کوئی ماہرِ معاشیات یہ نہیں بتا سکا کہ دیوالیہ پن کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی ایک دو درجن مرتبہ بچایا ہے۔ جرنیلوں نے جب بھی اقتدار سنبھالا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، انہوں نے بچا لیا۔ بھٹو صاحب نے ملک سنبھالا تو دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ان کو نکالا تو ضیا الحق نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ وہ گئے تو بے نظیر بھٹو، نوازشریف اور پھر بے نظیر اور نوازشریف باری باری آئے اور ہر ایک نے ہر مرتبہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ معین قریشی، جنرل پرویز اور اس کے بعد زرداری اور پھر نوازشریف نے بھی یہی کہا، اور اب عمران خان نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ لیکن عمران خان سمیت کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ دیوالیہ پن اور کیا ہوتا ہے! 104 روپے کا ڈالر 157 روپے کا ہوگیا، اس کے نتیجے میں بیٹھے بٹھائے قرضے میں 1000 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تو ملک پر قرض بھی بڑھ چکا ہے، اور حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے ملک دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے!

عمران شبیر عباسی
(سابق ایگزیکٹو ممبر اسلام باد اسمال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اسلام آباد )

ہم تو کہتے ہیں کہ فکسڈ ٹیکس ہونا چاہیے۔ وزیراعظم اس سے قبل بھی ایسی ہی باتیں کرچکے ہیں کہ ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ٹیکس دینے والا اور فائلر دو الگ چیزیں ہیں۔ گندم کھیت سے فلور مل جاتی ہے، وہ خریدتا ہے، اس پر ٹیکس وہ کتنا ادا کرتا ہے، کتنا چراتا ہے یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن گندم کی خریداری کے ساتھ ہی ٹیکس شروع۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ہر چیز پر اسی طرح کئی کئی ٹیکس ہیں۔ تنخواہ دار بھی ٹیکس دیتا ہے، پیٹرول ڈلوانے والا بھی دیتا ہے، حتیٰ کہ ہر شے خریدنے بیچنے پر ٹیکس ہے، اور یہ کہتے ہیں کہ ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اچھا اب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، معیشت مستحکم ہوگئی ہے، کٹھن راستہ طے کرلیا گیا ہے، تو جناب اب اسی تیز رفتاری سے عوام کو اس خوش خبری کے ثمرات بھی ملنے چاہئیں۔ خان صاحب بتائیں کہ عوام کا کب تک رس نچوڑیں گے! ان کے تو خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔ اوروں کی طرح انہوں نے بھی دعویٰ تو کردیا کہ ملک کو بچا لیا گیا ہے، لیکن ملک بچاکر، معیشت مستحکم کرکے عوام کو فائدہ کیا پہنچایا۔ عالمی مارکیٹ کے نام پر پیٹرول مہنگا کرنے میں ایک دن نہیں لگتا۔ مستحکم معیشت کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ فی کس آمدنی بڑھ جاتی ہے۔ جو پی ٹی آئی کے وزرا ہیں، یہ کبھی پرویزمشرف کے وزیر تھے، کبھی نوازشریف کے اور کبھی زرداری کے وزیر تھے۔ یہ کسی کے وزیر نہیں ہیں، یہ اپنی مدد کرنے کے لیے پارٹیاں بدلتے ہیں۔

شیخ سلیم
( چیئرمین آل پاکستان ٹریڈر اتحاد)

میں بھی فیس کے آئیڈیا کی حمایت کرتا ہوں کہ جس طرح دبئی میں ہوتا ہے اگر اس طرح ہمارے ملک میں ہوجائے تو ہر دکان دار سال کا حساب رکھے گا اور فیس دے گا۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے، گرفتار ہونے والے این آر او کی تلاش میں ہیں، ملکی معیشت مستحکم ہوچکی ہے، ماضی کی حکومتوں کے دور میں لیے گئے 24 ہزار ارب روپے کے قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن جلد قائم کیا جائے گا، ماہرین معاشیات سمجھتے ہیں کہ قومی پیسے کو خرچ کرتے وقت شفافیت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یہ درست ہے کہ ایسے منصوبے پیسے کے بغیر نہیں بنتے، لیکن 26 ہزار ارب روپے کی رقم بھی کچھ کم نہیں، اگر کسی نے کوئی غلط کام نہیں کیا توکمیشن سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔ توقع ہے کہ تحقیقاتی کمیشن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے تحقیقات میں غیر جانب داری سے کام لے گا۔ تحریک انصاف کا ایجنڈا ہی احتساب ہے، اس سے ہٹنا ناکامی کے مترادف ہوگا۔ غیر جانب دارانہ احتساب کو منطقی انجام تک پہنچانے سے ہی معیشت مضبوط ہوگی۔ اب جب کہ وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ کٹھن راستہ طے ہوچکا، معیشت مضبوط ہوچکی ہے، تو پھر حکومت اب عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر عوام کو ریلیف ملے گا تو اس سے حکومت پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

عمران خان مروت
(کنسلٹنٹ برائے شعبۂ تعمیرات)

بجٹ میں ہرشعبے کے لیے اچھائی ہے، اور جس طرح کہا جارہا ہے اور بجٹ پر تنقید کی جارہی ہے یہ درست نہیں ہے۔ تحریک انصاف عام آدمی کی فلاح اور بھلائی چاہتی ہے۔ اس بجٹ کا فوری رزلٹ نہیں ملے گا، لیکن سسٹم بن جائے تو نتائج مل جائیں گے۔ صنعت اور زراعت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو مکمل ریلیف ملے گا۔ ایف بی آر کو5550 ارب کا ہدف دیا گیا ہے، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے، بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا جائے گا، نوجوانوں کے لیے آسان قرضوں کے پروگرام، 5 ارب روپے ریسرچ سپورٹ فنڈزکی تجویز بھی شامل ہے۔ بجٹ میں کفایت شعاری، مالیاتی نظم و نسق، بیرونی شعبے کے انتظام اور غریب طبقے کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ سماجی شعبے کی ترقی پر 94 ارب، ترقیاتی منصوبوں پر 925 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ چھوٹے کاروباری افراد پر فکسڈ ٹیکس لاگو ہوگا۔تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ سالانہ 12 لاکھ سے کم کرکے 6 سے 8 لاکھ کرنے، جبکہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس میں کمی نہ کرنے کی تجویز ہے۔ 5 برآمدی سیکٹرز کے لیے زیرو ریٹ ٹیکس کی سہولت ختم کرنے کی تجویز ہے۔