بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عدالتِ عظمیٰ کے ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف 14 جون کو صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں ہوئی۔ اس روز سپریم کورٹ کی عمارت سمیت ملک بھر کی عدالتوں میں وکیل احتجاج پر تھے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطے کے اندر وکیل ظہر تک دھرنا دئیے بیٹھے رہے۔ ججوں کے مسئلے پرشور وکلا کی تقسیم کا بھی موجود ہے۔ ایسی ہی باتیں کوئٹہ کے اندر بھی ہورہی ہیں۔ بہرحال کوئٹہ اور بلوچستان کی تمام وکلا تنظیمیں ججوں کے حق میں اور ریفرنس کی مخالفت میں کھڑی ہیں۔ اب یہ و کیلوں پر منحصر ہے کہ وہ احتجاج کو کس طرح مؤثر و بھرپور بناتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اُن پر تحریک کو آگے بڑھانے کی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
14 جون کو بلوچستان ہائی کورٹ کے اندر دھرنا تعداد کے لحاظ سے متاثر کن نہ تھا۔ وکیلوں کی جانب سے نکالی گئی ریلی چند وکلا پر مشتمل تھی۔ گویا اگر احتجاج میں وکیلوں کی شمولیت و حاضری کا یہ عالم ہو تو مقصد پانے میں کامیابی کا امکان کم ہوگا۔ یقینا وکیل عدالتوں میں پیش نہ ہوں گے، اس طرح معمول کی عدالتی کارروائی ماند پڑ جائے گی۔
جیسے کہ کہا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ کو ئٹہ سے متصل شمال کی جانب ضلع پشین(شہر) ان کا آبائی مسکن ہے۔ ان کے والد قاضی محمد عیسیٰ تحریک پاکستان کے نمایاں قائدین میں سے تھے۔ قاضی عیسیٰ محمد علی جناح ؒ کی دعوت پر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے، جنہوں نے بلوچستان کے چند دیگر معتبرین جیسے سیٹھ محمد اعظم، ملک جان محمد کاسی، میر جعفر خان جمالی، سردار عثمان جوگیزئی اور دیگر کے ساتھ مل کر صوبے میں تنظیم قائم کرلی۔ قاضی عیسیٰ مسلم لیگ کے پہلے صوبائی صدر بنے۔ قاضی عیسیٰ نے کوئٹہ کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد ازاں قانون کی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے تھے۔ یعنی وہ قانون دان بھی تھے۔ قاضی عیسیٰ کا انتقال 19جون 1976ء کو ہوا اور مدفن ضلع پشین ہی ہے۔ یہی شہر ان کی جائے پیدائش بھی ہے۔ یہ خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے پشین آیا ہے۔ قاضی جلال الدین ان کے والد تھے۔ یہ خاندان افغانستان کے صوبے قندھار میں رسوخ و مرتبے کا حامل تھا۔ قاضی خاندانی لقب ہے۔ قاضی جلال الدین اور ان کے بزرگ افغانستان میں قضاء کے محکمے سے وابستہ تھے۔ قاضی جلال الدین ریاست قلات میں وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔ قاضی عیسیٰ کے بھائی قاضی محمد موسیٰ بھی نامور شخص تھے، جنہوں نے ایک آئرش خاتون’’جنیفر‘‘سے شادی کرلی تھی۔ اس خاتون نے بھی 1948ء میں پشین میں سکونت اختیار کرلی تھی، جن کا انتقال 13جنوری 2008ء کو ہوا اور پشین ہی میں سپردِ خاک کردی گئیں۔ ان کی کوکھ سے جہانگیر اشرف قاضی نے جنم لیا۔ جہانگیر اشرف قاضی بھی تعارف کی ضرورت نہیں رکھتے، جو پاکستان کے انتہائی تجربہ کار اور سینئر سفارت کار رہ چکے ہیں۔ جنیفر موسیٰ کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے رہا۔1970ء کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی بنیں۔1973ء کے آئین پر بلوچستان کے ان تین اراکین اسمبلی میں جنیفر موسیٰ بھی شامل تھیں، جنہوں نے دستخط نہیں کیے۔ آئین پر دستخط نہ کرنے والوں میں نواب خیر بخش مری مرحوم اور عبدالحئی بلوچ بھی شامل تھے۔
قاضی فائز عیسیٰ 5 اگست 2009ء کو عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے، جس کے بعد 5ستمبر 2014ء کے بعد انہیں عدالتِ عظمیٰ کا جج منتخب کیا گیا۔ ان کی پہچان ایک کھرے جج کی ہے۔ 8 اگست 2016ء کو سول اسپتال خودکش دھماکے کے بعد جس میں ستّر سے زائد وکیل جاں بحق ہوگئے تھے، ان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سانحہ حکومت کی غفلت قرار دیا، جس میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارورائی کا حکم بھی دیا گیا۔ فروری 2017ء کو فیض آباد دھرنے کے ازخود نوٹس کا فیصلہ گویا برداشت نہ ہوا اور جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف اندر ہی اندر انتقامی بندوبست کا آغاز ہوگیا۔ پیش ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی ایسے ہی انتقام کا نشانہ بنے۔ جسٹس صدیقی بڑی آسانی سے ملازمت سے سبک دوش کردئیے گئے۔ وکیلوں نے ان کے حق میں علامتی احتجاج تک نہ کیا۔ تب وکیل بے غرض ہوکر عدلیہ کی خودمختاری کے لیے ڈٹ جاتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچ پاتی۔ غرض اگر وکلا کا احتجاج غیر مؤثر ثابت ہوا تو اس کے بعد عدالتیں ہمیشہ کے لیے ماتحت ہوکر رہ جائیں گی۔ کیونکہ یہ سب کچھ آزمائشی طور پر ہورہا ہے، وکیلوں، سیاسی جماعتوں اور عوام کا پیمانۂ احتجاج ناپا جارہا ہے، جس میں فی الواقع برہمی اور اصل مسائل کو سمجھنے اور ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ چنانچہ آخرکار مملکت کے سارے نظام کا کنٹرول عملاً کوئی اور سنبھال لے گا۔ الغرض وکیلوں کی ایک تعداد یہ بھی سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے۔
nn