جامعاتی تحقیق میں سرقے کا فروغ

ڈاکٹر معین الدین عقیل

حالیہ ایک دو دہائیوں میں ہمارے ملک میں تحقیقی سرگرمیاں زیادہ تر جامعات میں دیکھنے میں آرہی ہیں اور ان کے فروغ میں ایک بڑا کردار سرکاری سطح پر جامعات میں قائم تعلیم و تحقیق کے سرپرست و نگران ادارے ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ (ایچ ای سی) کا ہے، جس نے ایسے متعدد مفید اقدامات تجویزکیے ہیں کہ جن کے تحت جامعات میں معیاری تحقیق کو فروغ حاصل ہو اور ان سے اساتذہ میں تحقیقی مطالعات کا ذوق و شوق پیدا ہو، اور وہ اپنی تحقیقات و مطالعات میں عالمی سطح کے معیار تک پہنچ سکیں۔ تحقیق کے معیار کا ایک اظہار اس امر پر بھی منحصر ہے کہ وہ تحقیق کس حد تک حصول ِ نتائج میں کامیاب رہی ہے؟ اور اس نے کس حد تک ایک معیاری تحقیق کے لیے مقررہ اصول و ضوابط اور رسمیات و لوازمات کی پاس داری کی ہے؟ اور ساتھ ہی آیا وہ سرقے (Plagiarism) سے گریزں ایسی تحقیق ہے جو محقق کی ذاتی محنت، جستجو اور کدوکاوش کا نتیجہ ہے؟
تحقیق کو جامعات اور اساتذہ دونوں کے لیے یہ جانچنے کا ایک معیار بھی بنایا گیا ہے کہ جامعات نے سالانہ بنیادوں پر کس معیار کی اور کس نوعیت کی تحقیقی سرگرمیوں کا ثبوت دیا ہے؟ اور ان کی تعداد و مقدار کیا ہے؟ اور ان تحقیقات و مطالعات کی بازگشت (Impact Factor)کا شمار کس درجے پر ہے، جومعیار کے ضمن میں خود متعلقہ جامعہ کے درجے کے تعین کے لیے معاون ہوتا ہے۔ اسی پیمانے سے جامعات کے درجات طے ہوتے اور ان درجات کی بنیاد پر ان کے معیار اور ان کی اہمیت و وقعت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جامعات کے اساتذہ کے لیے بھی تحقیق کو لازم قرار دیا گیا ہے اور ان کے تقرر و ترقی کے لیے ان کی تحقیقی کارکردگی کو ایک پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کارکردگی ان کے تحقیقی منصوبوں کی نوعیت اور ان کے معیار و مقدار کو دیکھ کر طے کی جاتی ہے۔ ان کے ایسے منصوبے بالعموم ان کی تحقیقات اور مطالعات میں پیش کیے جاتے ہیں جو تحقیقی مجلات میں شائع ہوتے ہیں، خود جن کے بہتر معیار کے لیے ایچ ای سی نے ضروری شرائط طے کررکھی ہیں، اور جن کی پابندی اور پیروی مجلوںکے لیے ضروری قرار دی گئی ہے۔ چناں چہ خود جامعات اپنے اور اپنے اساتذہ کے تحقیقی منصوبوں، مطالعات و مقالات کے پیش کیے جانے کے لیے مجلے جاری کرتی اور ان میں تحقیقات و مطالعات کو پیش کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔
اس اہتمام کے علاوہ ایچ ای سی تحقیقات و مطالعات میں سرقے کی روک تھام اور حوصلہ شکنی کے لیے بھی خاصی شدومد سے کوشاں رہتی ہے، جو بہت صائب ہے، لیکن جس میں اسے کہیں کامیابی اور کہیں ناکامی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اس اہتمام کے ذیل میں تحقیقی مجلات میں اشاعت کے لیے موصولہ مسودات میں ممکنہ سرقے اور تناسبِ مشابہت (Similarity Report) کو جانچنے یا اشاعت کے لیے منظور کرنے کا انحصار بالعموم مدیرِ مجلہ ؍مجلس ادارت یا بیرونی ماہرانہ رائے پر ہوتا ہے، لیکن مسودات کو جانچنے کا یہ انداز بوجوہ تسلی بخش نہیں ہے، کیوںکہ مدیر یا مجلس ادارت یا مجلس مشاورت بھی ضروری نہیں کہ متعلقہ موضوع یا زیر تنقیح مطالعے یا مقالے کو معیار کے ساتھ ساتھ سرقے کے امکانات کے تحت بھی جانچ سکے۔ جو بھی صورت ہو بہرحال مقالے میں سرقے کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ مدیر اور مجلس ادارت ہی کی حد تک ہوجانا چاہیے اور توثیق کے بعد ہی جانچنے کا اگلا مرحلہ یا بیرونی ماہرانہ رائے کے حصول کی کوشش ہونی چاہیے۔ بیرونی ماہرانہ رائے پر انحصار میں یہ خدشہ رہتا ہے کہ مقالہ نگار کی جانب سے سفارش اور دباؤ کی صورت میں ماہرانہ رائے کے مقالہ نگار کے حق میں دیے جانے کے امکان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا،کہ یہ عمل ہمارے معاشرے کی عصری اخلاقیات سے کچھ بعید نہیں۔ بیرونی ماہرین کے نام پر بالعموم ان ہی افراد سے ماہرانہ رائے حاصل کرنے کا عام رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے جو اصلاً ہمارے ہی معاشرے سے نکل کر اب بیرونی ممالک میں آباد یا مقیم ہیں اور جو ہمارے مزاج و نفسیات سے مختلف نہیں۔
اس مقصد کے لیے انگریزی مقالات کی حد تک ایک عرصے سے ترقی یافتہ دنیا میں ایسے وسائل اور طور طریقے اختیار کیے جانے لگے ہیں جن سے سرقے کے ہونے یا نہ ہونے، یا ہونے کی صورت میں اس کے تناسب کی مقدار کا تعین کچھ آسان ہوگیا ہے، لیکن یہ سہولتیں اردو مقالات کے لیے ہمیں میسر نہیں، اور فی الحال اس کا امکان بھی نہیں، اس لیے ہم اپنے سابقہ و متعلقہ مطالعے کی بنیاد پر تو کچھ سمجھ سکتے ہیں، لیکن یقینی یا ٹھوس اور فوری شہادت کی بنیاد پر نہیں کہہ سکتے کہ کسی مقالے میں سرقہ ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو کس حد تک موجود ہے؟ جب کہ اب یہ لازم ہونا چاہیے کہ انگریزی زبان کی طرح اردو کے لیے بھی ایسے وسائل اور ذرائع ایجاد کیے جائیں جو سرقے کی نشان دہی کرسکیں۔ متون کے جانچنے کے لیے موجود سب سے بڑے وسیلے یا ذخیرے آن لائن سروس ’’ٹرن اِٹ اِن‘‘ (Turn-it-in) کے پاس بھی اردو مسودات کو جانچنے کا کوئی انتظام نہیں، جب کہ اس کی جانب سے دنیا کی تیس زبانوں، بہ شمول عربی اور فارسی، مسودات کے بارے میں سرقے اور تناسبِ مشابہت سے متعلق اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ متون کے ان ذخائر میں تنا سب ِ مشابہت سے مراد کسی مسودے میں پہلے سے موجود متون سے مشابہت کس حد تک ہے، یعنی ان ذخائر میں مختلف رنگوں سے مسودے کے بارے میں بتایا جاتا ہے، جیسے نیلارنگ (مشابہت بالکل نہیں)، سبزرنگ (ایک فی صد سے24 فی صد)، پیلارنگ (25 فی صد سے49 فی صد)، نارنجی رنگ (50 فی صد سے74 فی صد) اور سرخ رنگ(75فی صد سے 100فی صد) استعمال کیے جاتے ہیں۔ افسوس All Postsکہ اردو مسودات یا مقالات کے بارے میں جانچنے کا ایساکوئی نظام موجود نہیں۔ ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اردو زبان کی ترقی کے کئی صاحبِ ثروت ادارے ہمارے ہاں موجود ہیں لیکن کسی میں یہ شعور تک کہیں نظر نہیں آتا کہ وہ اس اہم علمی ضرورت کے لیے اردو زبان کے لیے اس میں ناموجود سہولتوں کے اختیار کرنے کے بارے میں سوچے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کی بابت اقدامات کرے اور منظم و مؤثر منصوبہ بندی کرے۔
اسی ضرورت کے پیش ِ نظر تحقیقی مجلات میں شائع ہونے سے قبل مقالہ نگاروںکے مسودات میں سرقہ آمیز مواد کی نمایاں نوعیتیں اور اُن کے تناسب کو بھی تحقیق کا موضوع بنایا جانا چاہیے۔ یہ کام مذکورہ آن لائن سروس ’ٹرن اِٹ اِن‘ نے انجام دیا ہے جس میںمقالہ نگاروں کی جانب سے پیش کردہ مسودات میں سرقہ آمیزی کی دس نمایاں ترین نوعیتیں پیش کی گئی ہیں اور اُن کا ہوش رُبا تناسب بھی زیربحث لایا گیا ہے۔ ہوش رُبا تناسب کی نوعیت یہ ہے کہ مقالہ نگاروں کے مسودات میں سب سے زیادہ وہ متون ملے ہیں جن میں حرف بہ حرف سرقہ ملتا ہے۔ ’ٹرن اِٹ اِن‘ کے مطابق سرقے کی دس نمایاں نوعیتیں یہ ہیں: (1)حرف بہ حرف سرقہ (2)اصل ماخذ میں کچھ تبدیل کرکے اپنا بنانے کا رجحان (3)کلیدی الفاظ اور اہم اصطلاحات کو تبدیل کرنے کا رجحان (4)اصل ماخذ کا حوالہ دیے بغیرسرقہ کرنا(5)اپنے الفاظ میں کئی حوالہ جات کو ملا کر پیش کرنا(6) پیش کردہ حوالے میں سرقہ آمیز مواد کو جعل سازی کے ذریعے شامل کرنا(7)مختلف مآخذ سے مواد کو خلط ملط کرکے پیش کرنا،تاکہ اصل تک رسائی ممکن نہ ہو(8)اُن مآخذ کاحوالہ دینا جن کا کہیں وجود ہی نہیں 9))غیر بنیادی یا ثانوی مآخذ کا حوالہ دینا(10)اصل ماخذ پر انحصار، لیکن الفاظ اور عبارتوں پر من و عن انحصار کرنا۔
یہ تو اُن معاشروں کی روداد ہے جہاں سرقے کی روک تھام میں تیز ترین ذرائع میسر ہیں۔اردوکی ادبی تحقیق کا کیا کہنا جہاں سرقے کی روک تھام صرف اور صرف ذاتی اورمعاصر رائے پر چھوڑ دی گئی ہے، جب کہ اردو تحقیق کو ہر مضمون میںسرقے کا شدید سامنا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ ان سرقہ آمیز مقالات کی نوعیتیں کیا ہیں؟ ان کا سد باب کس طرح ممکن ہو اوروہ سرقہ آمیز مقالات جو شمار میں بھی آچکے ہیں، اُن کے بارے میں علمی اداروں کا رویہ کیا ہو؟ ہمارا مقتدر ادارہ ’ایچ ای سی‘ اردو کی ادبی تحقیق کو سرقے کے عفریت سے کس طرح بچا سکتا ہے؟ جب کہ اس نے اب تک سرقے سے متعلق اپنی صفر رواداری کی حکمت کا پرچار توکیا ہے لیکن اردو میں تحقیق کے لیے اب تک متون یا مآخذ کے کسی ایسے ذخیرے کی تیاری کے بارے میں پیش رفت نہ کی جو کم وقت میں اردو کی کسی تحریر کے بارے میں سرقہ آمیز ہونے یا اس تحریر میں مشابہت کے تناسب کا تعین کرسکے۔ اس کانقصا ن یہ بھی ہوا ہے کہ اب بھی اردو تحقیق میں سرقے کے تعلق سے قابلِ غور بہت سے سوالات اور موضوعات تشنہ ہیں۔
ہمارے اردو مجلوں کے مدیران کے پاس اس نوع کے تمام خدشات اور سوالات کا ایک ہی حل ہے کہ وہ موصولہ مسود ے پر معاصر رائے حاصل کرتے ہیں اور بس۔ جب کہ اس سلسلے میں اس عمل کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ معاصر رائے بھی صرف ایچ ای سی کی فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لی جاتی ہے، کیوں کہ جامعات کے پروفیسر صاحبان کے مقالات کو اگر واقعی تنقیح کے درست معیارات پر پرکھا جائے تو کسی فنی وسیلے (ٹیکنالوجی)کے سہارے کے بغیر بھی مقالات کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جن میں نہ تحقیق ہوتی ہے اور نہ ہی کسی نئے مطالعے یا تجزیے کی بازگشت نظر آتی ہے۔ یہ مقالات صرف جامعات میں تقرر وترقی کے حصول کے لیے مدیر مجلہ کی چاپلوسی کرکے یا سفارشوں اور سماجی دباؤ کے زیرِاثر چھپوائے جاتے ہیں۔ معاصر رائے دینے والا ماہر کتنا بھی وسیع المطالعہ ہو لیکن اُس کے لیے متون کے ایسے ذخیرے کا تقابل کرنا ممکن نہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں مقالات، کتابیں، محفوظ شدہ دستاویزات اور آن لائن مواد محفوظ ہو۔ یہاں ’ٹرن اٹ ان‘ جیسے، یا اس نوع کے متون کے دیگر ذخائر کی طرف اشارہ مقصود ہے جہاں کسی متن کے نہ صرف سرقہ آمیز ہونے کا پتا چل جاتا ہے بلکہ متون کے یہ ذخیرے سرقے کا تناسب بھی متعین کردیتے ہیں۔
اس افسوس ناک اورمایوس کن صورت حال میں ’ایچ ای سی‘ سے یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ:
1۔ اردو زبان کے ادبی، لسانی، تاریخی اور سماجی علوم پر مبنی ذخائرِ علمی کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ان ذخائر کی مدد سے مسودات کی جانچ پڑتال آسان ہوسکے، یا اردو کے لیے بھی’ٹرن اِٹ اِن‘ کی سہولت فراہم کی جائے۔
2۔اردو میں شائع شدہ تحقیقی مقالات کوبھی سرقے اورتناسبِ مشابہت کے حوالے سے ازسرِ نو بحث اور تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔
3۔اس موضوع پر تحقیق کے دائرے کو وسعت دینی چاہیے کہ اردو تحقیق کو سرقے کے ضمن میں کن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور ان کا حل کیاہوسکتا ہے۔
4۔ سالانہ بنیادوں پر اردو میں ہونے والی تحقیق میں سرقے کی مختلف نوعیتوں کے حوالے سے اعدادو شمار پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے، اور یہ طے کیا جائے کہ اردو رسائل میں شامل مقالات میں پہلے سے موجود متون میں مشابہت کا تناسب کتنا گوارا ہونا چاہیے۔
5۔آج کی علمی ترقی کے دور میں یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ اردو رسم الخط یا فونٹ(Font) کو کس نظام کے تحت استعمال کیا جائے کہ ہماری مطبوعات کو ساری دنیا کے مروجہ نظاموں میں فوری رسائی حاصل ہوسکے، مثال کے طور پر جیسی رسائی ’مائیکروسوفٹ ورڈ‘ (MSWord)کو حاصل ہے۔
6۔اردو میں تحقیق کے لیے ’ایچ ای سی‘ کو کم از کم ایسی رسمیات کو اختیار کرنے کی بھی سفارش کرنی چاہیے جو نہ صرف عالمی معیار کے مطابق ہوں بلکہ ان کے ذریعے بھی تحقیقی مواد میں سرقے کی نو عیت کو پرکھا جاسکے۔
یہ وہ گزارشات ہیں کہ جو اردو زبان میں ہونے والی تحقیق کے فروغ اور ترقی اور اس کے معیار میں بہتری میں معاون و مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔