مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط المعروف محمد مرسی عدالت میں سماعت کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ مصری عدالت کے مطابق صدر مرسی نے عدالت کے روبرو اپنا بیان درج کرانے کی درخواست کی تھی، چنانچہ انھیں 17 جون کو عدالت طلب کیا گیا۔ جج سے اجازت ملنے پر ’خطرناک‘ ملزمان کے پنجرے میں بند ڈاکٹر مرسی اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے تھے۔ ابھی ان کے خطاب کو 20 منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ اچانک گرپڑے۔ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے، ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ پنجرے میں غش کھاکر گرتے ہی انتقال کرگئے تھے۔
دوسال پہلے ستمبر 2017ء میں اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام (امیر) محمد مہدی عاکف بھی قاہرہ جیل سے ملحق اسپتال میں انتقال کرچکے ہیں۔ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا 89 سالہ عاکف صاحب نے اس حال میں دم توڑا تھا کہ اُن کے پیروں میں بیڑیاں تھیں جن کے ذریعے یہ ’خطرناک مجرم‘ اپنے بستر سے بندھا ہوا تھا۔ 2013ء میں مہدی عاکف جب گرفتار کیے گئے تو حراست میں لیتے وقت انھیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے ان کا دایاں پائوں ٹوٹ گیا تھا۔گرفتاری کے فوراً بعد انھیں دل کا دورہ پڑا اور اپنی موت تک وہ مسلسل بیمار رہے۔
دل کا دورہ یا اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانا کوئی حیرت انگیز واقعہ نہیں۔ اس قسم کا واقعہ عدالت، تھانے اور جیل سمیت کسی بھی جگہ پیش آسکتا ہے، تاہم ڈاکٹر مرسی کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے انتقال پر اسے سمجھنے کے لیے دسمبر 2010ء کے اختتام پر تیونس سے اٹھنے والی عوامی بیداری کی عظیم الشان مہم کا سرسری ذکر ضروری ہے۔
اس عظیم الشان تحریک کا آغاز بہت ہی بے ضرر طریقے پر کچھ اس طرح ہوا کہ 24 دسمبر 2010ء کو بے روزگاری سے تنگ ایک نوجوان نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے خود کو نذرِ آتش کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نے آزاد میڈیا کی کمی پوری کردی اور سارے تیونس میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ 23 سال سے شخصی اقتدار کا مزا لوٹتے زین العابدین علی اس جسارت پر سخت مشتعل ہوئے اور مظاہرین کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی کے بعد معافی تلافی کا ڈول ڈالا گیا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، اور ہنگامہ اتنا بڑھاکہ صرف 3 ہفتے بعد 14 جنوری 2011ء کو تیونس کے مردِ آہن اہلِ خانہ کے ساتھ ایک خصوصی پرواز سے سعودی عرب فرار ہوگئے۔
تیونس میں عظیم الشان کامیابی سے آمریت کے ستائے دوسرے ملکوں کو تقویت ملی۔ مصر، الجزائر،کویت، لیبیا، یمن، بحرین اور شام میں لاکھوں نوجوان اللہ، مملکت اور آزادی کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ قومی پرچم تھامے ان لوگوں نے میدانوں اور چوراہوں پر ڈیرے ڈال دیے۔ ابتدا میں آزادی کی یہ قومی تحریک جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالاتر تھی اور مظاہریں صرف قومی جھنڈے کے نیچے جمع تھے۔کسی شخصیت کے لیے زندہ باد و مُردہ باد کی صدا نہ تھی، اور نعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتا ہے۔ آمروں کو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے اُن سے عزت کے ساتھ ارحل (تشریف لے جایئے)کی درخواست کی گئی۔ بدقسمتی سے یہ عظیم الشان تحریک شام، بحرین اور یمن میں فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگئی، جبکہ لیبیا میں قبائلی منافرت نے عوامی اخوت کی اس تحریک کو نفرت کے الائو میں تبدیل کردیا۔
مصر میں اس تحریک پر نظریاتی رنگ نمایاں تھا کہ اس کی قیادت ابتدا ہی سے اخوانیوں کے ہاتھ میں تھی۔ مصری فوج نے اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کرلیا، لیکن مصری نوجوانوں کے عزم کے سامنے حسنی مبارک کو سرنگوں ہونا پڑا اور انھوں نے اقتدار فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی کے حوالے کردیا۔ جنرل طنطاوی نے تیاری کے نام پر انتخابات کو لمبے عرصے تک ٹالا اور طریقۂ انتخاب کو جان کر ایسا پیچیدہ بنایا کہ کسی ایک جماعت کے لیے اکثریت حاصل کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ انتخابی مرحلہ اس قدر پُرپیچ اور طویل تھاکہ لوگ ووٹ دے دے کر بیزار ہوگئے۔ پہلے عوامی (قومی) اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیا۔ یہ سلسلہ تین مرحلوں میں مکمل ہوا۔ ہر مرحلے پر دو دن ووٹ ڈالے گئے اور پچاس فیصد سے کم ووٹ لینے والے امیدواروں کے درمیان فیصلہ کنRun Off معرکہ ہوا۔ 28 نومبر کو شروع ہونے والا یہ سلسلہ 11جنوری کو مکمل ہوا۔ قومی اسمبلی کے بعد شوریٰ کونسل (سینیٹ) کے انتخابات دو مرحلوں میں ہوئے اور یہ سلسلہ 22 فروری کو مکمل ہوا۔
ان انتخابات سے پہلے اخوان المسلمون نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے نام سے علیحدہ سیاسی ونگ قائم کردیا جس کے سربراہ محمد مرسی منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں اخوان المسلمون کا جمہوری اتحاد سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر ابھرا جس نے 508 کے ایوان میں 235 نشستیں جیت لیں۔ سلفی رجحان کی حامل النور پارٹی کو 123، دائیں بازو کی دوسری جماعتوں کو مجموعی طور پر 48 نشستیں حاصل ہوئیں، جبکہ سیکولر اتحاد حزب المصر صرف 35 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوسکا۔ سینیٹ کی صورت حال اس سے بھی زیادہ دلچسپ تھی۔ 180نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں اخوان المسلمون کو 105سیٹوں پر کامیابی ہوئی۔ 45 نشستیں سلفیوں نے جیت لیں، جبکہ دائیں بازو کی وفدالجدید نے 14نشستوں پر کامیابی حاصل کی، اور صرف 8 نشستیں حزب المصر کے ہاتھ لگیں۔
ان واضح نتائج سے مصری فوجی جنتا کو عوام کے تیور کا اندازہ ہوگیا، چنانچہ آئینی عدالت کو میدان میں لایاگیا۔ سب سے پہلے یہ نکتہ اٹھا کہ عوامی اسمبلی کی ایک تہائی نشستیں آزاد امیدواروں کے لیے وقف تھیں جن پر سیاسی کارکنوں نے آزاد حیثیت سے حصہ لیا۔ اس طرزعمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان نشستوں پر انتخاب کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد انتخابی قوانین کے بارے میں ایک پٹیشن داخل کی گئی۔ انتخابی کمیشن نے صدر حسنی مبارک کے ساتھیوں کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ عدالت نے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ساری پارلیمان کا انتخاب غیر آئینی قرار دے دیا، اور 16جون کو فوجی عبوری کونسل نے پارلیمان تحلیل کردی۔
اتفاق سے اسی دن صدارتی انتخاب کا Run Off معرکہ ہونا تھا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پارلیمان کی تحلیل کے لیے اس دن کا انتخاب محض اتفاق نہیں بلکہ اخوان کو مشتعل کرنا مقصود تھا، تاکہ فوج کے منظورِ نظر جنرل احمد شفیق کے لیے راستہ ہموار ہوجائے۔ لیکن اخوانی کارکن کامل یکسوئی کے ساتھ عوام سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے رہے۔ گنتی کا آغاز ہوتے ہی اخوانیوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر دھرنا ڈال دیا اور تصدیق شدہ نتائج حاصل کرنے کے بعد ہی اپنے گھروں کو واپس گئے۔ اخوانیوں کے حاصل شدہ نتائج کے مطابق ان کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی 52 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوچکے تھے، لیکن انتخابی کمیشن نتائج کے اعلان کے لیے تیار نہ تھا۔ فوجی عبوری کونسل نے اعلان کیا کہ انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اسی دوران شکست خوردہ امیدوار احمد شفیق کے انتخابی کیمپ نے افواہ اڑا دی کہ دھاندلی ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن نے ڈاکٹر مرسی کے 13 لاکھ ووٹ منسوخ کردیے ہیں جس کی بنا پر احمد شفیق کو 4 لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل ہوگئی ہے، اور اس کے ساتھ ہی سیکولر طبقہ سڑکوں پر نکل آیا۔ اس دھاندلی کے خلاف اخوان المسلمون نے رات تحریر اسکوائر پر شب بیداری کی۔ دس لاکھ افراد نے رات تحریر اسکوائر پر گزاری جن میں بوڑھے، خواتین اور شیرخوار بچے بھی شامل تھے۔ فوجی جنتا کی جانب سے دھمکیوں کے باوجود مجمع ڈٹا رہا اور عوام کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مرسی نے اعلان کیا کہ ہم نتیجے کے اعلان سے پہلے منتشر نہیں ہوں گے۔ بالآخر الیکشن کمیشن نے ڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان کردیا، جس کے بعد یہ دھرنا تقریبِِ تشکر میں تبدیل ہوگیا۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی ڈاکٹر مرسی نے اخوان المسلمون کی بنیادی رکنیت اور اس کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ جماعتی وابستگی ترک کررہے ہیں، کہ اب وہ سارے مصر کے صدر ہیں اور ان کی نظر میں اخوانی و اخوان مخالف سب برابر ہیں۔ انھوں نے عیسائیوں سے کہا کہ مسیحی برادری مصری معاشرے کاحصہ ہے، انھیں ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں گے اور ان کی جان، مال و آبرو کی حفاظت میری ذاتی ذمہ داری ہے۔
ساٹھ سالہ ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط کو مصر کا پہلا منتخب صدر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ جنوبی کیلی فورنیا سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اسی یونیورسٹی میں تین برس درس و تدریس کے علاوہ امریکہ میں خلائی تحقیق کے ادارے NASA سے وابستہ رہے۔ جس کے بعد وطن واپس آئے اور مقامی جامعہ میں ملازمت کے ساتھ مشقِ سیاست جاری رکھی۔ 2000ء میں صدر حسنی مبارک نے محدود جمہوریت کے تحت پارلیمنٹ کی کچھ نشستوں پر آزادانہ انتخابات کا آغاز کیا تو اخوان المسلمون نے 20 فیصد نشستیں جیت لیں اور جناب مرسی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
جلد ہی حسنی مبارک کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اخوان کے خلاف شکنجہ ایک بار پھر کس دیا گیا۔ اس کے گرفتار ہونے والے رہنمائوں میں جناب مرسی بھی شامل تھے۔ ربیع العربی تحریک کے دوران کارکنوں نے حکومت کی دوسری تنصیبات کے ساتھ جیلوں کا گھیرائو بھی کیا اور دوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ مرسی کو بھی عوامی ہجوم نے رہا کرا لیا۔ ستم ظریفی کہ فوجی بغاوت کے بعد ڈاکٹر مرسی کے خلاف فردِ جرم میں جیل توڑنے کا یہ الزام بھی شامل تھا۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ 2012ء کے صدارتی انتخابات میں اخوان کے امیدوار خیرت الشاطر تھے، لیکن انھیں الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا، چنانچہ متبادل کے طور پر کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے والے محمد مرسی صدارتی امیدوار قرار پائے، اور انتخاب جیت کر انھوں نے 30 جون 2012ء کو مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر کا حلف اٹھا لیا۔
شدید عوامی دبائو کی بنا پر مصری فوج نے اقتدار ڈاکٹر مرسی کے حوالے تو کردیا لیکن روڑے اٹکانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلم قوتوں کی بدنصیبی کہ اخوانیوں کی پشت میں چھرا گھونپنے کا آغاز النور پارٹی نے کیا، جو اس بات پر صدر مرسی کے خلاف سڑکوں پر آگئی کہ وہ شریعت کے نفاذ میں مخلص نہیں۔ دوسری طرف عرب دنیا کے شیوخ و ملوک کو عوامی بیداری کی اس نئی لہر پر شدید تشویش تھی اور انھیں یہ معلوم تھا کہ تبدیلی کی یہ خواہش جلد یا بدیر اُن کے اقتدار کو بھی بہا لے جائے گی۔ اسرائیل اور مغربی دنیا کو بھی صاف نظر آرہا تھا کہ تیونس کے بعد مصر میں آمریت کے خاتمے اور عوامی حاکمیت نے ساری اسلامی دنیا میں ان کے وفاداروں کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ چنانچہ مرسی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بدنصیبی کہ النور اسلام مخالف سیکولر قوتوں کا ہراول دستہ بن کر میدان میں اتری۔ دوسری طرف مشہور جوہری سائنس دان ڈاکٹر محمد البرادعی کی قیادت میں قوم پرست اور سیکولر طبقے نے تمرد یا بغاوت کے عنوان سے حکومت مخالف تحریک شروع کی، اور آخرکار صرف 13 ماہ بعد جولائی 2013ء کو صدر مرسی معزول کردیے گئے، اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عدلی منصور کو عبوری صدر بنادیا گیا۔
اس بغاوت کے خلاف عوامی مزاحمت کو بھرپور فوجی قوت استعمال کرکے کچل دیا گیا۔ قاہرہ کے چوک میں بیٹھے مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ مصریوں نے جس جواں مردی سے اس آفت کا سامنا کیا اس کی مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، لیکن ساری دنیا کا مقابلہ ان نہتے لوگوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس بہیمانہ ظلم کے خلاف ترکی کے رجب طیب اردوان کے سوا کسی کو ہمدردی کی توفیق بھی نہ ہوسکی۔ اخوانیوں کا خیال ہے کہ ایک ہفتے کے دوران ان کے پانچ ہزار کارکن مارے گئے اور لاپتا ہونے والوں کا کوئی شمار نہیں۔ تقریباً 70 ہزار رہنما اور کارکن جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔
محمد مرسی کو معزولی کے وقت ’حفاظتی حراست‘ میں لے کر گھر پر نظربند کیا گیا اور فوج کے سربراہ جنرل السیسی نے کہا کہ مرسی کو سابق صدر کا پروٹوکول دیا جارہا ہے۔ لیکن چند ہفتے بعد انھیں بدنام زمانہ سجن الطرہ یا طرہ جیل منتقل کردیا گیا۔ تشدد کے جو طریقے یہاں اختیار کیے جاتے ہیں اسے سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہاں آنے والے نئے ملزموں کا استقبال ان کے ننگے جسم پر بچھو چھوڑکر کیا جاتا ہے جس کی بنا پر یہ قیدخانہ سجن العقرب یا بچھو جیل کے نام سے مشہور ہے۔
ڈاکٹر مرسی ذیابیطس اور بلند فشار خون کے مریض تھے اور ذیابیطس کی وجہ سے ان کے گردے بھی متاثر تھے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے Human Rights Watch یا HRW نے ڈاکٹر مرسی کے انتقال پر ایک سطری بیان میں اسے 6 سال کے بدترین مصائب و آلام کے بعد دردناک اور متوقع موت قرار دیا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد HRW نے مصری حکومت کو ڈاکٹر مرسی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کی شفاف اور کھلی تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔ HRWکے مطابق مرسی کو قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ قیدِ تنہائی کی 4 فٹ چوڑی اور 7 فٹ لمبی کھولی میں بچھے ایک متعفن گدے کے بعد قدم رکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ چاروں طرف سے بند کھڑکی یا روشن دان سے محروم اس پنجرے میں باتھ روم بھی نہیں، اور ضرورت کے وقت قیدی کو گھنٹی بجاکر گارڈ کو بلانا ہوتا ہے جو کھولی سے نکال کر باتھ روم کا راستہ دکھاتا ہے۔ رات کے وقت گارڈ صاحب اگر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوں تو وہ گھنٹی کا جواب نہیں دیتے۔ اسی بنا پر مرسی نے دوپہر کے بعد پانی پینا چھوڑ دیا تھا کہ رات کو باتھ روم کی ضرورت پیش نہ آئے۔
مرسی کے انتقال پر اپنے تعزیتی ٹویٹ میں HRW مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کی سربراہ محترمہ سارہ وٹسن (Sarah Whitson)نے کہا کہ ہمیں مصر کے پہلے منتخب صدر کی موت پر شدید صدمہ تو ہوا لیکن ذرّہ برابر حیرت نہیں ہوئی کہ اُن سے روا بدسلوکی کی بنا پر ہمیں اس خبر کا بہت پہلے سے اندیشہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ جناب مرسی کو ان بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھاگیا تھا جو اخلاقی مجرموں کوحاصل ہیں۔ محترمہ وٹسن نے کہا کہ جناب مرسی کو علاج تو ایک طرف، غذا سے بھی محروم رکھا گیا اور HRWکے برابر توجہ دلانے کے باوجود انھیں غیر انسانی قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ HRWکا کہنا ہے کہ مصری جیلوں میں انسانی حقوق کی صورت حال ویسے ہی بہت خراب ہے اور ڈاکٹر مرسی کے ساتھ تو بدسلوکی کی انتہاکردی گئی تھی۔ چھ برس کی قید کے دوران ان کے اہلِ خانہ کی صرف تین بار اُن سے ملاقات کروائی گئی۔
HRWکی درخواست پر گزشتہ سال مارچ میں برطانیہ کے ارکانِ پارلیمان اور وکلا کے ایک نمائندہ وفد نے طرہ جیل کے دورے کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر ڈاکٹر مرسی کو علاج کی فوری طور پر سہولت فراہم نہیں کی گئی تو ان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ اس وفد کی قیادت عالمی Detention Review Panel کے چیئرمین ڈاکٹر کرسپن بلنٹ (Crispin Blunt) کررہے تھے۔ ڈاکٹر بلنٹ نے مرسی سے روا رکھے جانے والے سلوک کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے شک ظاہر کیا تھا کہ یہ سب کچھ ’اوپر‘ کے اشارے پر کیا جارہا ہے۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دوائوں سے محرومی کے علاوہ انھیں جو غذا دی جارہی ہے وہ مرض کو مزید بڑھانے والی ہے۔ ان کے کھانے میں نمک کی مقدار معمول سے بہت زیادہ ہے جو ان کے بلڈ پریشر کے لیے ٹھیک نہیں، اور ان کی کافی اور قہوے میں بے دریغ چینی ڈال کر اسے زہر ہلاہل میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کے لیے چہل قدمی ضروری ہے، جبکہ ان کی کھولی کی چھت اتنی نیچی ہے کہ وہ ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ کمرے میں بہت تیز روشنی کا ایک بلب ہر وقت آن رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے پُرسکون نیند بھی مشکل ہے۔
مصر کے پہلے منتخب صدر کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں ڈیڑھ سال سے منظرعام پر تھیں لیکن دنیا خاموش رہی، اور آخرکار جناب مرسی دم توڑگئے۔ ان کے انتقال پر بھی السیسی کی آتشِ انتقام سرد نہیں ہوئی، اور ان کے خاندان کو تدفین کے حق سے محروم رکھا گیا۔ ان کی میت کو ساتھی قیدیوں نے طرہ جیل میں غسل دیا اور ڈھائی بجے رات قاہرہ کے ایک قبرستان میں انھیں خاموشی سے دفنا دیا گیا۔ ان کے خاندان کے صرف دو افراد کو تدفین میں شرکت کی اجازت تھی۔ ان کی اہلیہ نجلا مرسی کو اپنے شوہر کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ صبر کے اس نسوانی پہاڑ نے پُرامید لہجے میں کہا’’مجھے اپنے رب پر بھروسا ہے، اس کی توفیق پر اپنے محبوب کی زیارت کے لیے قیامت کا انتظار کرلوں گی، لیکن ظالموں سے منت کرکے اپنے شہید شوہر کو رسوا نہیں کروں گی۔‘‘
جس طرح جیل میں اخوان کے کسی رہنما کی موت کوئی نیا واقعہ نہیں اسی طرح اہلِ خانہ کو تدفین سے محروم کرکے لواحقین پر ذہنی تشدد مصری فوج کا پرانا حربہ ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ 70 برس پہلے امام حسن البنا کی شہادت کے موقع پر پیش آیا تھا۔ شہید کی میت فوج کی نگرانی میں ان کے گھر پہنچا دی گئی اور ان کے غمزدہ والد نے اس حکم کے ساتھ لاش وصول کی کہ 2 گھنٹے میں تدفین ہوجائے۔ باپ نے میت کو غسل تو دے دیا لیکن گھر میں میت کو کاندھا دینے والا کوئی اور مرد نہ تھا۔ شہید کے والد، پھوپھی، بہن اور چھوٹے لڑکے نے جنازہ گھر کے قریب قبرستان پہنچایا، اور باپ نے اپنے لختِ جگر کو اپنی بہن اور بیٹی کی مدد سے قبر میں اتارا۔ جس کے بعد خواتین واپس چلی گئیں اور باپ نے اپنے کم عمر پوتے کے ساتھ مٹی سے قبر کو بھردیا۔ اپنے قائد کی طرح محمد مرسی بھی زندگی بھر اللہ کے دشمنوں کے لیے خوف کا سبب بنے رہے، اور موت کے بعد ان کی بے جان لاش نے بے ضمیر قاتلوں پر لرزہ طاری رکھا۔ بے شک ساری تعریفیں صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔