قبائلی اضلاع، صوبائی اسمبلی انتخابات کا التوا

الیکشن کمیشن آ ف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق قبائلی اضلاع کے دوجولائی کو 16 حلقوں میں ہونے والے انتخابات 18 دن کے لیے ملتوی کردئیے گئے ہیںیہ انتخابات اب 2 جولائی کے بجائے 20 جولائی کو ہوں گے۔ واضح رہے خیبرپختون خوا حکومت نے الیکشن کمیشن سے انتخابات 20 روز تک پانچ مختلف وجوہ کی بناء پر ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ میں چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کی زیر صدارت قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہواجس میں تمام شرکاء کی مؤقف سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے 20 جولائی کو منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے قبائلی اضلاع میں انتخابات کو موخر کرنے پر صوبے کی سیاسی قیادت نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قبائلی اضلاع کے انتخابات میں حکومت رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گی تو اس اقدام کی بھر پور مخالفت کی جائے گی اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سکیورٹی کا بہانہ اصل میں دھاندلی کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ محض الیکشن ملتوی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ نشستوں میں اضافہ کیے بغیر الیکشن کا انعقاد قبائل کے ساتھ دھوکہ ہے بلدیاتی الیکشن صوبائی الیکشن سے پہلے کسی صورت تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ میں غیر ضروری اقدامات اٹھار ہی ہے 25جولائی2018ء کے انتخابات میں جس طرح عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا قبائلی اضلاع کے انتخابات میں بھی اسی منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جا رہا ہے اے این پی نے اس سے قبل الیکشن کمیشن کو قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات کی سکیورٹی سے متعلق وضاحت مانگی تھی تاہم الیکشن کمیشن بھی آزادانہ فیصلے نہیں کر رہی۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر قبائلی اضلاع انتخابات میں25جولائی کی روایت دہرائی گئی تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

انتخابات کے التواء پر پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر محمد ہمایوں خان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کسی بھی شعبہ میں سنجیدہ نہیںالیکشن شیڈول جاری کر کے تبدیل کرنا امیدواروں کے ساتھ دھوکہ ہے۔

ضلع باجوڑ حلقہ پی کے 101کے امیدواران جماعت اسلامی کے صاحبزادہ ہارون الرشید، عوامی نیشنل پارٹی کے لعلی شاہ پختونیار، پاکستان پیپلز پارٹی کے انیس خان سمیت دیگر امیدواران نے باجوڑ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باجوڑ میں الیکشن مہم میں حصہ لینے پر الیکشن کمیشن باجوڑ کے ایم این ایز کے خلاف فوری ایکشن لے، الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی ناقابل برادشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ الیکشن میں غیر جانبدار انہ کردارادا کرے لیکن پی ٹی آئی حکومت روز اول سے قبائلی اضلاع کے الیکشن میں روڑے اٹکا رہی ہے اور الیکشن میں تاخیر کے لیے مختلف حربے استعمال کررہی ہے۔ تمام پارٹیوں کی انتخابی مہم آخری مرحلے میںہے ایسے میں صوبائی حکومت کے جانب سے الیکشن کمیشن کو الیکشن میں تاخیر کے لیے خط لکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔

صاحبزادہ ہارون الرشید نے کہا کہ 2019کے الیکشن قواعد و ضوابط کی شق نمبر 17میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی منتخب نمائندہ الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی کسی کے لیے کمپین کرسکتا ہے لیکن باجوڑ میں اس قانون کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے گذشتہ ایک ماہ سے باجوڑ کے دونوں ایم این اے اپنے پارٹی امیدواروں کے لیے کمپین میں مصروف ہیں اور جگہ جگہ مختلف تقریبات میں ترقیاتی کاموں کے جھوٹے اعلانات بھی کررہے ہیں اور واضح طور پر الیکشن پر اثرانداز ہورہے ہیں لہٰذا ہم مشترکہ طور پر الیکشن کمیشن اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔ امیدواروں نے مشترکہ طور پر الیکشن میں تاخیر کی مذمت کی۔

اسی اثناء شمالی وزیر ستان کے صوبائی حلقوں کے امیدواروں اور یوتھ آف وزیرستان کے رہنمائوں نے انتخابات ملتوی کرانے اور دفعہ 144کے نفاذ کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

گزشتہ روز بنوں پریس کلب میں یوتھ آف وزیرستان کے صدر نور اسلام خان اور صوبائی حلقوں پی کے 111اور 112کے امیدواروں اسداللہ داوڑ، انجینئر انعام جان عرف کابل جان، فصیح اللہ، وقار احمد اور دیگر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی شکست کے خوف سے انتخابات ملتوی کرانا چاہتی ہے وزیر ستان میں دفعہ 144انتخابی مہم میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش ہے، لیکن ہم ہر گز یہ فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم اپنے مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں تو دفعہ 144کے تحت پابندی عائد کی جا تی ہے۔ خڑ کمر واقعہ پر ہر کوئی افسردہ ہے وہ ایک دردناک واقعہ تھا مگر حکومت اس واقعہ کو بنیاد پر بناکر انتخابات ملتوی نہ کرائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر مقررہ تاریخ 2جولائی کو انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔

امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا سینیٹرمشتاق احمد خان نے صوبائی حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو قبائلی اضلاع میں الیکشن کے التواء کے لیے لکھے گئے خط کو مسترد کردیاہے۔ المرکز الاسلامی پشاور سے جاری کیے گئے اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ موجودہ کٹھ پتلی حکومت کی ناکام پالیسیوں اور نااہل طرز حکمرانی کا چہرہ عوام کے سامنے آشکارہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں یہ بات صاف نظر آرہی ہے کے قبائلی اضلاع میں اگر بروقت صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو عوام انھیں مسترد کردیں گے۔ اس لیے حکومت ایسی سازشوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے اب وہ امن و آمان اور سیکورٹی کو جواز بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا اس وقت قبائلی اضلاع میں امن و آمان کی صورت حال ماضی کی نسبت کافی بہتر ہے۔ 2013ء کے قومی انتخابات کے موقع پر حالات اس سے بہت زیادہ خراب اور ابتر تھے اکثریتی علاقے فوجی آپریشن کی زد میں تھے۔ آبادی کی بڑی تعداد علاقے سے نقل مکانی کر چکی تھی۔ ان حالات میں بھی الیکشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام کو ان کے آئینی اور جمہوری حقوق دلانے کے لیے ایک طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کی گئی ہے جس میں جماعت اسلامی کا کردار سب سے زیادہ اور اہم ہے۔ اس لیے ہم کسی بھی صورت کسی کو قبائلی عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ اور سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام نے روز اول سے پاکستان کی سالمیت اور تحفظ کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر قبائلی عوام ہوئے ہیں۔ ان نقصانات کی تلافی اور ازالہ تب ہی ممکن ہے جب آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگایا جائے۔ اسی مقصد کے لیے فاٹا اصلاحات آئینی پیکج کا اعلان کیا گیا تھا۔ قبائلی اضلاع کو خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا تا کہ قبائلی عوام کے احساس محرومی کو ختم کیا جاسکے۔ اس لیے ضروری ہے کے انضمام کے ثمرات کو عوام تک پہنچانے کے لیے صوبائی اسمبلی کے انتخابات فوراً منعقد کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت موجودہ حکومت اپنی ناکامی اور نا اہلی کو چھپانے کے لیے قبائلی عوام  کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتی ہے اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ملتوی کر کے اسے اپنی گھناؤنی سیاست کے بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے جو قبائلی عوام سے غداری کے مترادف ہے جس سے ان میں مزید محرومی کا احساس پیدا ہوگا اور ان کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے انتخابات کے التواء کی کوئی سازش کی تو جماعت اسلامی اس کے خلاف بھرپور احتجاج کرے گی۔

دریں اثناء حیران کن امر یہ ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت نے اگر ایک طرف الیکشن کمیشن سے دوجولائی کوانتخابات ملتوی کرنے کی باقاعدہ درخواست دی ہے، جس پرالیکشن کمیشن نے مقررہ تاریخ کوالیکشن کے انعقاد کو ملتوی کرتے ہوئے نئی تاریخ مقرر کردی ہے تودوسری جانب ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے متعلقہ محکموں اور سیکورٹی اداروں کو تیاری کے احکامات جاری کر تے ہوئے پلان ترتیب دینے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختون خوا کی جانب سے پولیس سمیت سکیورٹی اداروں، متعلقہ محکموں، ہزارہ و مردان ڈویژن کے کمشنرز کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ضلعی اور ڈویژن کی سطح پر تمام امیدواروں اور سیاسی قائدین کو لاحق سکیورٹی خطرات کی نشاندہی کے لیے کمیٹیاں قائم کی جائیں انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی کے قیام اور اجلاس منعقد کیے جائیں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اور سیاسی قائدین کو مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے ضلعی سطح پر پولنگ سٹیشن کی تفصیلات اور وہاں سامنے آنے والے ممکنہ مسائل کی نشاندہی کر کے انہیں حل کرنے کے لیے سفارشات مرتب کی جائیں۔

عام انتخابات کے لیے خریدے گئے سی سی ٹی وی کیمرے تمام حساس پولنگ سٹیشنز پر نصب کیے جائیں، ضلعی الیکشن سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے انتخابات کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرتے ہوئے اہلکاروں کی تعیناتی کا پلان ترتیب دیاجائے جبکہ تمام اضلاع میں سامنے آنے والے مسائل کی نشاندہی کی جائے۔صوبائی حکومت کی جانب سے تمام متعلقہ محکموں اور سکیورٹی اداروں کا اجلاس آئندہ چند روز میں طلب کی جائیگا جس میں مذکورہ تمام احکامات پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائیگا۔