ڈی ایچ لارنس کا معرکہ آراء فقرہ ہے ’’ہم اپنی جنس اور معاش کو شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے‘‘۔ لارنس نے یہ فقرہ پاکستان کے بارے میں نہیں کہا تھا، اس لیے کہ لارنس کو پاکستان کی موجودگی کا علم بھی نہیں تھا۔ لارنس کا انتقال 1930ء میں ہوگیا تھا، مگر لارنس کا فقرہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے پوری طرح کفایت کرتا ہے، اس لیے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اہلِ پاکستان کے جنسی جذبات اور احساسات کو ذرائع ابلاغ کے شیاطین کے حوالے کردیا ہے۔ رہی معیشت، تو ہماری معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے معاشی شیطانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بجٹ ایک تماشا بن کر رہ گیا ہے۔ اس تماشے میں ہماری معیشت کی حیثیت اس بندریا کی سی ہے جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی ڈگڈگی پر ناچتی رہتی ہے۔ پاکستانی قوم اس تماشے میں مدتوں سے’’تماشائی‘‘ کا کردار ادا کررہی ہے۔
معیشت اور بالخصوص بجٹ ایک پیچیدہ چیز ہے، چنانچہ ہمارے حکمران معاشی اصطلاحوں اور معاشی اعداد و شمار کو ایک پردے کی طرح بروئے کار لاتے ہیں، اور عوام کو کبھی معلوم نہیں ہونے دیتے کہ وہ عوام کے ساتھ کیسا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کی معیشت کو ’’قرضوں کی معیشت‘‘ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنرل ایوب کے وزیر خزانہ ڈاکٹر شعیب عالمی بینک سے آئے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے وزیر خزانہ محبوب الحق کا تعلق بھی عالمی بینک سے تھا۔ جنرل پرویزمشرف کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کا تعلق بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تھا۔ نگراں وزیراعظم بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنٹ تھے۔ نوازشریف اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بھی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر ناچتی رہیں۔ صرف میاں نوازشریف نے ملک و قوم پر 38 ارب ڈالر کے قرضوںکا بوجھ لادا (ویب سائٹ، ڈیلی ٹائمز)۔ عمران خان کی پوری معاشی ٹیم اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے حوالے کی ہے اور اس ٹیم کے کئی اہم لوگ آئی ایم ایف کے اہلکار نہیں اُس کے ایجنٹ ہیں۔ قومیں صرف اپنی ’’سیاسی آزادی‘‘ سے نہیں، اپنی ’’معاشی آزادی‘‘ سے بھی پہچانی جاتی ہیں، مگر جیسے ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے ہمیں کبھی امریکہ کے شکنجے سے نکلنے اور سیاسی آزادی حاصل نہیں کرنے دی اسی طرح انہوں نے ہمیں شعوری طور پر معاشی آزادی سے بھی محروم رکھا۔
ہماری بجٹ دستاویز ہماری معاشی غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2019-20ء کے بجٹ کا مجموعی حجم 6800 ارب روپے ہے۔ اس رقم میں سے 3000 ارب روپے بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ قومی دفاع پر 1150 ارب روپے صرف ہوں گے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہماری ’’معاشی غلامی‘‘ پوری طرح آشکار ہوجاتی ہے، اس لیے کہ ہمارے قومی بجٹ کا 44 فیصد بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر صرف ہوگا جب کہ 17 فیصد بجٹ قومی دفاع پر خرچ ہوگا۔ آپ بات کو آسان زبان میں سمجھنے کے لیے فرض کیجیے کہ ایک قوم کی حیثیت سے مالی سال 2019-20ء کے لیے ہمارے پاس 100 روپے ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ 100 روپے میں 44 روپے بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوگئے، 17روپے قومی دفاع پر خرچ ہوگئے۔ اب ہمارے پاس صرف 39 روپے رہ گئے۔ 39 روپے میں 26 روپے ملک و قوم کی ترقی، اور باقی رہ جانے والے 13 روپے تنخواہوں اور انتظامی اخراجات میں صرف ہوں گے۔ بجٹ میں کراچی کے 9 منصوبوں کے لیے 45 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، یہ رقم بجٹ کے 100 روپے میں صرف 66 پیسے کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی 45 ارب روپے 6800 ارب روپے کا 0.66 فیصد بنتا ہے۔ یہ ہے ہمارے قومی بجٹ کی ’’حقیقی عظمت‘‘۔ یہ ہے پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ’’انقلابی بجٹ‘‘۔
ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ اس ملک کی معاشی آزادی کا کیا حال ہوگا جس کے قومی بجٹ کا 44 فیصد صرف بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف ہورہا ہو۔ اگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کی معیشت کو قرضوں کی معیشت، عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی معیشت نہ بنایا ہوتا تو ہم 3000 ارب کی جو رقم 2019-20ء کے بجٹ میں سود کی ادائیگی پر صرف کررہے ہیں وہ قوم کی تعلیم، صحت، زرعی و صنعتی ترقی اور دفاع پر صرف ہوتی تو ہم حقیقی معنوں میں ایک توانا قوم ہوتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جن فوجی اور سول حکمرانوں نے قومی معیشت کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے شیاطین کے حوالے کیا ہے وہ ملک و قوم کے غدار ہیں، اس لیے کہ انہوں نے قوم کی معاشی آزادی، شرح نمو، زرعی و معاشی ترقی، قوم کی تعلیم اور صحت کو بیچ کھایا ہے۔ عام طور پر ایسے کام ملک و قوم کے دشمن کرتے ہیں، مگر ہمارے یہاں یہ ’’نیک کام‘‘ ملک پر 50 سال سے مسلط فوجی اور سول حکمرانوں نے کیا ہے۔
بلاشبہ عمران خان کو 97 ارب ڈالر کے قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ملی، بلاشبہ انہیں 2260 ارب روپے کا مالیاتی خسارہ ورثے میں ملا، بلاشبہ انہیں 32 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ مہیا ہوا، انہیں برآمدات منجمد ملیں، لیکن بدقسمتی سے وہ خود بھی وہی کام کررہے ہیں جو نوازشریف اور اُن سے پہلے دیگر حکمرانوں نے کیا ہے، یعنی وہ خود بھی آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ ملک پر 7 ارب ڈالر کے قرضے کا بوجھ بڑھا رہے ہیں، بلکہ انہوں نے آئی ایم ایف کی ترجیحات اور مطالبات کے مطابق بجٹ بنایا ہے۔ آئی ایم ایف نے عمران خان کی حکومت کو جو معاشی پروگرام دیا ہے وہ 39 ماہ پر پھیلا ہوا ہے، لیکن اگر 39 ماہ میں بھی ملک کی معیشت نہ سنبھل سکی تو پھر کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب عیاں ہے۔ ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہونا پڑے گا۔ ابھی آئی ایم ایف نے ہمارے دفاعی بجٹ کو محدود کیا ہے، پھر اس کے بعد وہ شاید ایٹمی پروگرام کو محدود یا بند کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ ملک کے معاشی حالات خراب ہوئے تو پاکستان کے فوجی اور سول حکمران کہہ دیں گے کہ اب ملک چلانا ہے تو ایٹمی پروگرام سے متعلق آئی ایم ایف کے مطالبات کو ماننا ہوگا۔ علاقے سے متعلق امریکہ کی حکمت عملی عیاں ہے۔ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے کی طاقت بنانا چاہتا ہے اور خطے میں پاکستان کے سوا بھارت کی مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں۔ اس مزاحمت کی سب سے بڑی بنیاد ہمارا ایٹمی پروگرام ہے۔ امریکی ایک بار نہیں دس بار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرانے کی سازش کرچکے ہیں، وہ پاکستان کے چھوٹے ایٹم بموں یا Tactical Nuclear Weapons کو ختم کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ بلاشبہ ہم نے اس دبائو کو قبول نہیں کیا، مگر معیشت کی خراب حالت نے ہمیں پہلی بار دفاعی بجٹ پر سمجھوتے کے لیے مجبور کیا ہے، چنانچہ معیشت کی حالت مزید خراب ہوئی تو آئی ایم ایف کے مطالبات کی فہرست میں کچھ بھی شامل ہوسکتا ہے… ایٹمی پروگرام کا خاتمہ ہی نہیں، آئین سے اسلام کا اخراج بھی۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارت اپنے ’’جنگی بجٹ‘‘ میں مسلسل اضافہ کرکے پاکستان کی معیشت پر دبائو بڑھا رہا ہے، وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی معیشت ایک نہیں کئی خرابیوں کا شکار ہے۔ بھارت اس سلسلے میں تنہا ہوتا تو زیادہ خطرے کی بات نہیں تھی، مگر امریکہ بھارت کا اتحادی بن چکا ہے اور اس کے پاس چین کا ایک ہی ’’علاقائی جواب‘‘ ہے… ’’بھارت‘‘۔ چنانچہ پاکستان سے متعلق بھارت کے عزائم پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے ملک کی معیشت کو ’’قرضوں کی معیشت‘‘ نہ بنایا ہوتا تو آج طرح طرح کے معاشی، سیاسی، تزویراتی اور دفاعی خطرات ہمارے سروں پر نہ منڈلا رہے ہوتے۔تاریخی حقائق سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے امریکی اورمغربی استعمار کے ہتھیاروں کی حیثیت رکھتے ہیں، ان ہتھیاروں کا مقصد غریب اور کمزور بالخصوص اسلامی ممالک کی معیشت کو بحران سے نکالنا نہیں بلکہ اسے بحران میں مبتلا کرنا اور بحران میں مبتلا ’’رکھنا‘‘ ہے۔
پاکستان کی معیشت کی خرابی کی بات مذاق نہیں۔ آئی ایم ایف کے نمائندے اور ترجمان ڈاکٹر حفیظ شیخ نے صاف کہا ہے کہ اگر ہم نے معاشی چیلنجوں کا جواب نہ دیا تو پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے (ڈان کراچی۔ 11 جون 2019ء) سوال یہ ہے کہ یہ حفیظ شیخ کا صرف ’’تجزیہ‘‘ ہے یا پاکستان کے مستقبل سے متعلق آئی ایم ایف کا منصوبہ ان کی زبان پر آگیا ہے؟ یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستان کی معیشت کا ’’دیوالیہ پن‘‘ اپنی اصل میں پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کا شاخسانہ ہے۔ ان کے ذہنی و نفسیاتی دیوالیے پن کا حاصل ہے، ان کے علم اور مہارت کے دیوالیے پن کا اشتہار ہے۔ یعنی حقیقی معنوں میں دیوالیہ پاکستان کی معیشت نہیں بلکہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہے۔ جب تک پاکستان کے حکمران نہیں بدلیں گے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آئے تھے، مگر انہوں نے لفظ تبدیلی کی ایسی تذلیل کی ہے کہ اگر اس لفظ کے لیے ممکن ہو تو وہ خودکشی کرلے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیں نعروں سے نہیں اہلیت و صلاحیت سے بدلتی ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ جس میں جرنیل بھی شامل ہیں اور سول حکمران بھی، یہ تاثر دیتا رہتا ہے کہ انہیں ریاست چلانی آتی ہے، انہیں “State Craft” آتا ہے، اس کے برعکس مذہبی لوگ تو بس مذہب کو جانتے ہیں۔ مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں کی State Craft میں مہارت کا یہ عالم ہے کہ اس سے گزشتہ پچاس سال سے نہ سیاست” “Manage ہورہی ہے، نہ معیشت” Manage “ہورہی ہے، یہاں تک کہ وہ ملک کے سب سے بڑے اور جدید شہر کراچی سے کچرا تک نہیں اٹھا پارہا۔ جو حکمران یہ بھی نہیں کرسکتے وہ پھر کر ہی کیا سکتے ہیں! ہمیں یقین ہے کہ مذہبی عناصر دس سال بھی اقتدار میں رہے ہوتے تو نہ ملک کی معیشت دیوالیہ پن کے قریب ہوتی، نہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ بنتا، اور نہ ہماری جنس اور معاش شیاطین کے قبضے میں گئی ہوتیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو 2019-20ء کے بجٹ سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ حکومت کے جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق حکمرانوں کا خیال تھا کہ معیشت کی شرح نمو 6.2 فیصد رہے گی، مگر یہ شرح صرف 3.2 فیصد رہی ہے۔ قومی معیشت کے 20 میں سے 15 ذیلی شعبے اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں افراطِ زر کی شرح بلند رہے گی۔ افراطِ زر کی بلند شرح کا مطلب ہے عام آدمی کی معیشت بیمار رہے گی۔ عام آدمی کی معیشت کی بیماری کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اِس سال عید کے موقع پر بازاروں میں 20 سے 40 فیصد تک کم خریداری ہوئی ہے۔ برانڈڈ چیزوں کی طلب میں کمی واقع ہوئی اور غیر برانڈڈ اشیاء زیادہ فروخت ہوئیں۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ بجٹ میں 1500 ارب روپے کے اضافی محصولات عائد کیے گئے ہیں، ظاہر ہے کہ جہاں محصولات کی بھرمار ہوگی، بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا وہاں کروڑوں افراد کی زندگی شدید معاشی دبائو کا شکار ہی ہوگی۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کرکے ہمیں مغرب کا مزید سیاسی و معاشی غلام بنادیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی معیشت کی ابتری نے کروڑوں غریب عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے مگر ملک کی کوئی سیاسی جماعت عوامی جذبات و احساسات کی بھرپور ترجمانی کا فریضہ انجام نہیں دے رہی۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے بجٹ پر سنگین اعتراضات کیے ہیں اور اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنے زمانے میں خود بھی امریکہ اور اُس کے مالیاتی اداروں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرتی رہی ہیں، چنانچہ بجٹ پر ان کے واویلے کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں۔ آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز گرفتار ہوچکے ہیں اور دونوں جماعتوں کے مزید افراد گرفتار ہوسکتے ہیں، چنانچہ یہ جماعتیں اچھلیں کودیں گی نہیں تو اور کیا کریں گی؟ کاش غریب عوام کے جذبات اور احساسات کی حقیقی ترجمانی کرنے والا کوئی ہو۔