امریکہ معاشی بحران کو سیاسی بحران میں تبدیل کرنا چاہتا ہے

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا بجٹ پر خصوصی تجزیہ

ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ملکی و عالمی معاشی، سیاست اور اس سے جڑے اہم موضوعات پر گہری اور عمیق نظر رکھتے ہیں۔ ان کے تجزیے میں سماجی، سیاسی اور عالمی حالات کا گہرا عکس ہوتا ہے۔آپ بینکنگ کا تیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اس وقت آپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس (کراچی) کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ انشورنس لندن، اور انٹرنیشنل بینکرز ایسوسی ایشن کے رکن ہونے کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ممبر اکیڈمک کونسل، کالج آف بزنس مینجمنٹ کے ممبر برائے ریسرچ ایڈوائزری کونسل، خیبر بینک کے شریعہ سپروائزری بورڈ کے ممبر، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (NICVD) کے فنانشل ایڈوائزر، جرنل آف دی انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر اور کارپوریٹ ماہرین کے مجلّے ’’دی کارپوریٹ سیکرٹری‘‘ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب ’’اسلامک بینکنگ‘‘ جیسی قابلِ قدر کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں تین سو سے زائد مقالات و مضامین بھی تحریر کرچکے ہیں۔ فرائیڈے اسپیشل وقتاً فوقتاً ملکی اور بین الاقوامی خصوصی اور معاشی صورتِ حال پر اپنے قارئین کے لیے ان کا تجزیہ لیتا رہتا ہے۔ پاکستان کے مالی سال 2019-20ء کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر فرائیڈے اسپیشل سے خصوصی گفتگو میں بجٹ پر خصوصی تجزیہ پیش کیا جس سے یقیناً قاری کو ملک کی نہ صرف آئندہ معاشی اور اقتصادی صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ معاشی بحران اور عالمی کھیل کے پس منظر میں آئندہ ملک کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا اسے بھی بخوبی سمجھا جاسکے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے۔ بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے ہوگا۔ اپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا جس سے سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس بجٹ کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دے رہی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بجٹ پاکستان اور طاقتور ممالک کے کھیل کے پس منظر میں ایک اہم بجٹ ہے، جس کے اثرات کا سامنا نہ صرف ملک کے عوام کو کرنا پڑے گا بلکہ اس کے ملک کی سلامتی پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے کئی لحاظ سے مشکل ہوگا۔ اس پس منظر میں جب ہم نے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے پوچھا کہ وہ نئی حکومت کے بجٹ کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور مستقبل کے پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پر مبنی، زمینی حقائق سے مبرا اور پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور سے براہِ راست متصادم طاقتور طبقات کو نوازنے کا جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں غریب عوام پر ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ چنانچہ یہ وفاقی بجٹ معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے نمٹنے، بیمار معیشت کو بحال کرنے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر لانے کی قطعی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بجٹ تجاویز کے مطابق اگلے مالی سال میں معیشت کی شرح نمو تقریباً 4 فی صد رہنے کی توقع ہے، جبکہ جنوبی ایشیا کی اوسط شرح نمو 7 فی صد ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو جو شرح نمو ورثے میں ملی تھی وہ 5.4 فی صد تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے دوسرے سال میں بھی معیشت کی شرح نمو میں اس سے پیچھے رہے گی جو اسے ورثے میں ملی تھی، جس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ آپ دیکھیں کہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا گیا ہے، اگر دیکھا جائے تو دفاع کی مد میں تقریباً 1150 ارب روپے اور قرضوں پر سودکی ادائیگی کے لیے 2900 ارب روپے، اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت 3250 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ ان تینوں مدوں میں 7300 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے، جبکہ وصولی صرف5550 ارب روپے ہے، یعنی اگر ہدف حاصل ہوجائے تب بھی ان تین مدوں میں پورا نہیں ہوگا۔ جب کہ سوال یہ ہے کہ باقی اخراجات کس طرح پورے ہوں گے؟ جبکہ اس کے علاوہ ترقیاتی اخراجات، تنخواہیں اور دوسرے اخراجات کو قرضے لے کر، نوٹ چھاپ کر اور عوام پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ بجلی، پیٹرول، گیس کے نرخوں میں اضافے کی شکل میں اور قومی اثاثے بیچ کر پورا کیا جائے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’یہ قومی سلامتی اور قومی مفادات سے متصادم چیز ہوگی۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا محور یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ کی آشیرباد سے پاکستان کو بیرونی قرضے مل جائیں اور طاقتور طبقات جو ٹیکس چوری کرتے ہیں، قومی دولت لوٹتے ہیں اُن کی مدد سے اقتدار کو برقرار رکھا جائے، یعنی ڈالر اور اقتدار کا حصول ہی اس بجٹ کا اصل مرکزی نقطہ ہے۔‘‘
جب یہ پوچھا گیا کہ اس بجٹ کے کیا اثرات پڑیں گے؟ تو ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’بجٹ کے معیشت پر منفی اثرات ہوں گے، عوام اور متوسط طبقے کے افراد کچلے جائیں گے۔ مراعات جو تھوڑی بہت دی گئی ہیں وہ عوام کی دوسری جیب سے اس سے کہیں زیادہ نکال لی جائیں گی۔“
ٹیکسوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100 دن کے اندر ہم معیشت کو بحال کرنے، اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے عدل پر مبنی ٹیکسوں کی پالیسی نافذ کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاق اور صوبے ہر مقررہ رقم سے زیادہ رقم اورآمدنی پر ٹیکس لگائیں گے، معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔ کالے دھن کو سفید نہیں کیا جائے گااور کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں لائی جائے گی۔ لیکن ان وعدوں کے برعکس تمام کام کیے گئےہیں۔ اگر ان وعدوں پر عمل کیا جاتا تو ملک کے 70فیصد معاشی مسائل حل ہوجاتے۔ اب افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان اصلاحات کے لیے نہ ان کی کابینہ تیار ہے، نہ پارلیمنٹ تیار ہے، نہ صوبے۔ طاقتور ٹیکس چور طبقات کو نوازنے والے ماضی کے بجٹ جیسا ہی طریقہ کار اپناتے ہوئے وہی کیفیت دہرائی گئی ہے اور بدترین بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں بھی عدل پر مبنی ٹیکسوں کی پالیسی نافذ نہیں ہوسکے گا۔ ٹیکس ایمنسٹی میں تو یہ کہا گیا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت جو باہر لے کر گئے ہیں وہ باہر ہی رہنے دی جائے، جو کہ خودتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اپنے سب سے بڑے نعرے کی نفی ہے۔ اس سے قومی سلامتی خطرات بڑھیں گے۔ ملک کے اند رناجائز اثاثوں کے ضمن میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر صرف ڈیڑھ فیصد دے کر۔ اگر ایک غریب معذور آدمی جس کے بینک میں دس ہزار روپے ہوں اس کے منافع پر تو دس فیصد ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، لیکن اربوں روپے لوٹنے والے سے صرف ڈیڑھ فیصد لیا جارہا ہے۔ یہ مضحکہ خیز اور شرمناک بات ہے کہ حکومت طاقتور طبقات اور پراپرٹی مافیا کے آگے جھک گئی ہے۔ حکومت جو ڈیڑھ فیصد ایمنسٹی دے رہی ہے اس کو مسترد ہونا چاہیے، اور جو لوگ اس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ یہ ذہن میں رکھیں کہ جب بھی اچھی دیانت دار حکومت آئے گی تو یہ سارے کیس دوبارہ کھلیں گے، اس طرح نہیں ہوگا کہ یہ چوری کے سارے پیسوں کو ہضم کرجائیں۔ یہ جو بجٹ ہے اسے مسترد کیا جانا چاہیے۔ اگر ملکی قوانین کے تحت ٹیکس لیا جائے تو ایک ہزار ارب روپے مل جائیں گے اور اس کے نتیجے میں اضافی ٹیکس نہیں لگیں گے اور مزید مہنگائی نہیں ہوگی۔ آپ اس سے اندازہ کریں کہ ایف بی آر جو ٹی وی اشتہار چلا رہا ہے وہ تک عام دکاندار اور متوسط طبقے کو ٹیکس چور دکھا رہا ہے۔‘‘
پھر اپنے سوال کو دہرایا کہ کیا غربت میں مزید اضافہ ہوگا؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ ’’اگر پاکستان میں معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری و غربت بڑھے گی۔ موجودہ مالی سال میں 3.3فیصد شرح نمو حاصل ہوئی ہے۔ حکومت میں جو پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان سے معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کم از کم پہلے تین سال ملک میں معاشی شرح نمو نیچے ہی رہے گی اور غربت و بے روزگاری لامحالہ بڑھے گی۔‘‘ ٹیکس ایمنسٹی سے متعلق سوال پر آپ کا کہنا تھا کہ ’’ٹیکس ایمنسٹی کے لیے وزیراعظم کہتے ہیں کہ ناجائز آمدن سے بنے اثاثوں کی بہت معلومات ہیں، ان پر اخراجات اس لیے کیے گئے کہ وہ رقم واپس لائی جائے گی۔ یہی ان کا بنیادی نعرہ تھا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پیسہ آپ باہر رکھ لیں۔ یہ اختیار تو حکومت کو ہے ہی نہیں۔ یہ تو اختیارات کا ناجائز استعمال ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ ملک کو ڈالر کی شدید ضرورت ہے، آپ ایک جانب آئی ایم ایف کے پاس بھاگ رہے ہیں اور دوسری جانب لوٹی ہوئی دولت کو باہر رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔ جو لوگ یہاں سے دولت چوری کرکے لے گئے اور آپ کو پتا بھی چل گیا، تو لوٹی دولت واپس لانے اور ان لوگوں پر مقدمات کرنے کے بجائے آپ ان کو کہہ رہے ہیں کہ وہ پیسہ باہر رکھو! یہ تو آئین کی روح سے بھی متصادم ہے۔ جنہوں نے پچھلی ایمنسٹی سے فائدہ نہیں اٹھایا اُن کی کئی جائدادیں یہاں ہیں، آپ کو معلومات بھی مل چکی ہیں، ان پر آپ ڈیڑھ فیصد ٹیکس مانگ رہے ہیں اور دیگر پر چار فیصد۔ ڈاکا ڈالنے والے کے بارے میں بھی پتا چل گیا اور ڈاکے کی رقم بھی آپ کو پتا چل گئی اور آپ ان کو کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ فیصد دے کرمعاملہ ختم کرسکتے ہو۔ یہ تو 21کروڑ عوام پر سراسر ظلم ہوگا۔ عوام کو اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’کھیل یہ چل رہا ہے جس سے ہر پاکستانی کی روح کانپ جائےگی۔
امریکہ نیو گریٹ گیم کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے، معیشت کو کمزور اور معاشی بحران کو سیاسی بحران میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ بجٹ تجاویز اور حکومتی پالیسیاں ان مذموم مقاصد کی شعوری و غیر شعوری کوشش نظر آتی ہیں۔ اس بات کو سنجیدہ طبقات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جس کی کمیٹی کا وائس چیئرمین بھارت ہے، اُسے وہ کس طرح سے استعمال کررہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔ پاکستان کی سرحدوں پر تنائو، ہمارے جوہری پروگرام پر سوالات، بھارت کو علاقے کا چودھری بنانے کا پلان… یہ سب ایک خاص حکمت عملی کا حصہ ہے۔ دوست ممالک کے 9 ارب ڈالر بغیر امریکی اجازت کے نہیں مل سکتے، ایسا نہ ہو کہ ہم کو مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ملوث کردیا جائے۔ یہ صرف مہنگائی، بے روزگاری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یہ خطرات اس قسم کے بجٹ اور معاشی پالیسیوں سے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ اس بجٹ کو رد کرکے انقلابی تبدیلی بلکہ انتخابی منشور کے مطابق تبدیلی نہیں کی گئی تو مستقبل تابناک نہیں ہوگا۔ یہ ایک بدترین استحصالی بجٹ ہے۔
تعلیم اور صحت کی مد میں امسال صوبے کم رقم لگا رہے ہیں، جی ڈی پی میں ہم کم ترین تناسب والے ملک ہیں، تعلیم و صحت میں بھی یہی حال ہے۔ قوم کو دیکھنا ہوگا، میڈیا کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا کہ معاشی بحران سیاسی بحران میں بدل کر کسی بیرونی ایجنڈے کی راہ ہموار نہ کرسکے۔