انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ خرطوم قتلِ عام کی منصوبہ بندی جنرل السیسی کے ان ہی رفقا نے کی ہے جو رابعہ العدویہ قتلِ عام کے ذمہ دار ہیں
شمال مشرقی افریقہ کا مسلمان ملک سوڈان کئی ماہ سے شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ سوڈان کی سب سے دلچسپ بات اس کا قومی ترانہ ہے جس کا آغاز نحن جنداللہ (ہم اللہ کے سپاہی ہیں) سے ہوتا ہے۔ یکم جنوری 1956ء کو آزادی کے ساتھ ہی سوڈان میں عام انتخابات ہوئے اور اسماعیل الازہری نے ملک کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ لیکن ’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے‘ کہ مصداق یہ نوخیز کلی صرف 13 سال میں زرد ہوگئی اور 25 مئی 1969ء کو کرنل جعفرالنمیری نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ آئین منسوخ، پارلیمنٹ تحلیل اور تمام سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے دی گئیں۔ جولائی 1971ء میں کمیونسٹوں نے کرنل نمیری کا تختہ الٹا لیکن چند ہی دن بعد جوابی کارروائی میں تمام باغی گرفتار ہوگئے اور نمیری حکومت مزید مضبوط ہوگئی۔ اسی دوران جنوبی سوڈان میں مسیحیوں کی جانب سے علیحدگی کی تحریک چلی۔ جنرل نمیری نے طاقت کے بجائے بات چیت سے معاملے کو سلجھا لیا اور جنوبی سوڈان کو صوبائی خودمختار ی دے دی گئی۔ انھوں نے اسلامی خیالات کی حامل امہ پارٹی سے بھی مصالحت کرلی جس کے قائد صادق المہدی تھے۔
1985ء میں فیلڈ مارشل عبدالرحمن سوارالذہب نے جنرل نمیری کا تختہ الٹ دیا، عام انتخابات منعقد ہوئے اور ایک سال بعد اقتدار منتخب وزیراعظم صادق المہدی کے حوالے کرکے جنرل صاحب گھر چلے گئے۔ اس طرح سوڈان ایک بار پھر جمہوریت کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم جمہوریت کی یہ ننھی سی کونپل بھی صرف تین سال بعد 1989ء میں فوجی بوٹوں سے بری طرح کچل دی گئی اور بریگیڈیئر عمرالبشیر نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے انھوں نے اسلامی قوتوں کی طرف دستِ تعاون دراز کیا اور نیشنل اسلامک فرنٹ سے اتحاد کرلیا۔ فرنٹ کے قائد سابق اٹارنی جنرل حسن الترابی تھے۔ تاہم جلد ہی اسلامی شریعت کے نفاذ پر ان کے حسن الترابی سے اختلافات پیدا ہوئے اور عمرالبشیر نے دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام لگاکر حسن الترابی کو گرفتار کرلیا۔ اُس وقت حسن ترابی سوڈان پارلیمان کے منتخب اسپیکر تھے۔ امریکہ اور اُس کے یورپی اتحادیوں کو سوڈان میں حسن الترابی کا بڑھتا ہوا اثررسوخ پسند نہ تھا، چنانچہ انھیں گرفتار کرکے جنرل بشیر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ بننے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام رہی۔
اسی دوران جنوبی سوڈان میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ آزادی کی اس تحریک کو مسیحی دنیا کی بھرپورحمایت حاصل تھی۔ بغاوت کو کچلنے کے لیے سوڈانی فوج کی کارروائی پر انسانی حقوق کے علَم برداروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور جنرل صاحب کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم ہوئے۔ یہ دبائو اتنا بڑھا کہ جنرل عمرالبشیر جنوبی سوڈان کی علیحدگی پر راضی ہوگئے اور ایک ریفرنڈم کے بعد 9 جولائی 2011ء کو جنوبی سوڈان ایک آزاد ملک بن گیا۔
جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے سوڈان کو شدید معاشی جھٹکا لگا۔ سوڈانی تیل کا اٹھانوے فیصد حصہ جنوبی سوڈان سے حاصل کیا جاتا ہے۔ معاہدے کے مطابق تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی سوڈان اور جنوبی سوڈان میں برابر برابر تقسیم کی جانی تھی۔ تیل کی ترسیل کے لیے سوڈان کی پائپ لائن استعمال ہوگی اور خرطوم کی ریفائنریاں خام تیل کو صاف کریں گی۔ تیل کے ساتھ دریائے نیل سوڈانی زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عظیم الشان دریا جنوبی سوڈان سے بہتا ہوا سوڈان اور پھر مصر سے گزر کر بحر روم میں گرتا ہے۔ معاہدۂ نیروبی میں یہ بات بھی صراحت سے درج ہے کہ جنوبی سوڈان دریائے نیل پر کوئی ڈیم یا رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔
لیکن نیتوں کو بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے! سوڈان کو آمدنی سے محروم کرنے کے لیے جنونی سوڈان تیل کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر کررہا ہے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوڈان کی پائپ لائن اور بندرگاہوں کے بجائے اس نے اپنے مشرقی پڑوسی ایتھوپیا کے ذریعے بحراحمر تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ صفائی کے لیے جنوبی سوڈان کا خام تیل کینیا اور یوگینڈا کی ریفائنریوں کو بھیجا جارہا ہے۔ دریائے نیل پر بھی کئی ڈیم تعمیر کیے جارہے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سوڈان تقسیم ہوگیا، تیل کی دولت چھین لی گئی اور نیل کے پانی پر سوالیہ نشان کے ساتھ سوڈان کے مغربی حصے دارفور میں بھی آزادی کی تحریک اپنے عروج پر ہے۔ جنرل بشیر کو توقع تھی کہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد ان کے ملک پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائیں گی، لیکن جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جوبا میں آزادی کی تقریب میں صدر اوباما کی مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر سوزن رائس نے وہاں موجود عمرالبشیرکی طرف دیکھتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’مہذب دنیا‘‘ میں واپسی کے لیے سوڈان کو دارفور کا مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔ یعنی جنوبی سوڈان سے دست برداری کا خرطوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور اب اسے دارفور چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
ان ساری پریشانیوں کے ساتھ سوڈانی فوج کی کرپشن اور مالی بدعنوانیوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ سوڈانی پونڈ گراوٹ کا شکار ہے اور افراطِ زر کی شرح 70 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری دونوں عروج پر ہیں۔ بڑے شہروں میں قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان، مسلح ڈکیتیوں اور پُرتشدد جرائم نے عام لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔
اس پس منظر میں حالیہ ہنگاموں کا آغاز 19 دسمبرکو اُس وقت ہوا جب حکومت نے روٹی کی قیمتوں میں 3 گنا اضافہ کردیا، اور مہنگائی سے تنگ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ صدر عمرالبشیر نے مظاہرین کی بات سننے کے بجائے ’’ریاست بہت مضبوط ہے‘‘ کا مؤقف اپنایا اور حسبِ روایت حکومت نے مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں دارالحکومت خرطوم میں ہونے والا مظاہرہ ایک ملک گیر تحریک بن گیا، اور ’’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے‘‘ کے مصداق قوت کے استعمال سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔
ان ہنگاموں میں پولیس والوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جبکہ ہزاروں گرفتار ہیں۔ معاملہ مزید خراب اُس وقت ہوا جب جنرل عمرالبشیر اپنے حامیوں کو میدان میں لے آئے اور دارالحکومت میں بشیر بشیر کے نعرے لگاتے ہزاروں افراد کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب نے کہا کہ انھیں سوڈانیوں کی اکثریت نے صدر منتخب کیا ہے اور وہ چند شرپسندوں کے مطالبے پر مستعفی نہیں ہوں گے۔ انھوں نے مخالفین کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کی زندگی اجیرن کرنے کے بجائے اگلے برس انتخابات کی تیاری کریں۔
صدر عمرالبشیرکی ریلی سے کچھ ہی فاصلے پر اُن کے مخالفین مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ جب صدر عمرالبشیر کے حامیوں نے ان لوگوں پر غدار کی پھبتی کسی تو مخالفین میں سے کسی نے اللہ،آزادی، سوڈان اور ارحل یا بشیر (جناب البشیر ہماری جان چھوڑ دیجیے) کی صدا بلند کی۔ اس نعرے نے دسمبر 2010ء میں تیونس سے شروع ہونے والی عظیم الشان تحریک کی یاد تازہ کردی جس نے سارے مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ عوامی بیداری کی اس تحریک کو سیاست و عمرانیات کے علما ’الربیع العربی‘ یا ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اس دن صدر بشیر کے حامیوں اور مخالفین میں کوئی تصادم تو نہ ہوا لیکن ’ارحل یا بشیر‘ کا نعرہ نوشتۂ دیوار بن گیا، یعنی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عوام کا معصوم سا احتجاج طاقت کے غیر ضروری استعمال اور صدر عمرالبشیر کی بے تدبیری کی بنا پر حکومت مخالف تحریک بن گیا۔
فوج کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مظاہرین خرطوم میں سوڈانی فوج کے ہیڈکوارٹر پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ عوامی تحریک سے فوج کے طالع آزمائوں نے فائدہ اٹھایا۔ 11 اپریل کو جنرل احمد عواد ابن عوف نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور عمرالبشیر معزول کرکے جیل بھیج دیے گئے۔ قوم سے اپنے خطاب میں جنرل صاحب نے ’معصوم‘ عوام کے خلاف عمرالبشیر کے آمرانہ ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں نشانِ عبرت بنادینے کا وعدہ کیا۔ مزے کی بات کہ جنرل ابن عوف صدر عمرالبشیر کے نائب صدر اور وزیر دفاع تھے۔ جنرل ابن عوف کی تقریر میں نئے انتخابات کا کوئی ذکر نہ تھا، چنانچہ سوڈان پروفیشنل ایسوسی ایشن (SPA) نے مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔
جنرل ابن عوف کے انقلاب کے دوسرے ہی دن جنرل عبدالفتاح برہان نے جنرل ابن عوف کو معزول کردیا اور خود کو عبوری ملٹری کونسل کا سربراہ نامزد کرکے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جنرل برہان نے بھی اپنی تقریر میں ’ڈکٹیٹر‘ عمرالبشیر کے خلاف عوام کی شاندار جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے عوامی امنگوں کی ترجمان ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ SPA نے قومی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر انتخابات کا مطالبہ کیا جس پر جنرل برہان سخت غصے میں آگئے اور اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’عام لوگوں کو کیا پتا کہ ملک کو کیسی سنگین صورت حال کا سامنا ہے، اور اگر اس دلدل سے نکلنے کے لیے فوری طور پر اہم اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے‘‘۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کو انتخابات کی نہیں بلکہ ایک ’محب وطن‘ ٹیکنوکریٹ حکومت کی ضرورت ہے۔
جنرل صاحب کی تقریر سے عام لوگ مایوس ہوئے اور مظاہروں میں شدت آگئی۔ خرطوم میں فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر دھرنا دینے والے ہجوم کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، اور اب لوگ فوج کے خلاف بھی نعرے لگانے لگے۔
اسی دوران جنرل عبدالفتاح برہان اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے مکہ روانہ ہوئے جہاں انھوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور مصر کے جنرل السیسی سے مشورہ کیا۔ علاقے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مؤقر آن لائن جریدے مڈل ایسٹ آئی (MEE)کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBS، ان کے اماراتی ہم منصب شہزادہ محمد بن زید (MBZ) اور مصر کے جنرل السیسی تینوں کا خیال تھا کہ الجزائر میں بھی شدید بے چینی ہے۔ علاقے میں ایرانی مداخلت اپنے عروج پر ہے، اور اگر سوڈان کے مظاہرے کو سختی سے نہ کچلا گیا تو عرب اسپرنگ کی طرح بدامنی کی ایک نئی لہر جنم لے سکتی ہے جس سے سارا مشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ اس موقع پر سوڈان کی مالی اعانت کی غرض سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے 3 ارب ڈالر کا وعدہ کیا، جبکہ جنرل السیسی نے فوجی آپریشن کے لیے تیکنیکی تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ عوامی مظاہروں کو طاقت سے کچلنے میں مصری فوج کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ او آئی سی سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں سوڈان کے خلاف عالمی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اس یقین دہانی کے بعد جنرل برہان جیسے ہی ملک واپس آئے 3 جون کو سوڈانی فوج اپنے ہیڈکوارٹر کے باہر دھرنا دیے مظاہرین پر اچانک ٹوٹ پڑی اور انھیں چاروں طرف سے گھیر کر گولی چلادی۔ عینی شاہدین کے مطابق انسانی خون کی ندی بہہ اٹھی، اور یہ ویسا ہی بھیانک منظر تھا جو 14 اگست 2013ء کو قاہرہ کے رابعہ العدویہ چوک پر نظر آیا تھا جب صدر مرسی کی معزولی کے خلاف دھرنا دیے مصری مظاہرین پر السیسی کی فوج ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہوئی تھی۔ اس ریاستی دہشت گردی میں شیرخوار بچوں اور عورتوں سمیت ایک ہزار سے زیادہ نہتے افراد ذبح کردیے گئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ خرطوم قتلِ عام کی منصوبہ بندی جنرل السیسی کے ان ہی رفقا نے کی ہے جو رابعہ العدویہ قتلِ عام کے ذمہ دار ہیں۔
اپنی وحشت کو چھپانے کے لیے سوڈانی فوج نے لاشوں کو ٹرک پر لاد کر دریائے نیل میں بہادیا اور صرف 30 افراد کی ہلاکت کا اعتراف کیا، لیکن دودن بعد دریائے نیل سے 40 لاشیں نکال لی گئیں۔ SPA کا کہنا ہے کہ فوجی حملے میں دو سو سے زیادہ مظاہرین مارے گئے۔
اس خوفناک قتلِ عام کے باوجود سوڈان میں عوامی تحریک دبتی نظر نہیں آرہی، اور تمام بڑے شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور جنرل السیسی کے ساتھ جنرل برہان کو روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے۔
سلامتی کونسل میں سوڈان کی فوجی حکومت کے خلاف یورپی ممالک کی قرارداد کو روس و چین کی ویٹو کی دھمکی پر واپس لے لیا گیا۔ ان مظاہروں میں جنرل برہان کے ساتھ MBS,MBZ کے خلاف بھی نعرے لگائے جارہے ہیں۔SPA الزام لگا رہی ہے کہ ٹیکنوکریٹ کا ڈھول خلیجی شہزادوں نے سوڈانی جنرل کو تھمایا ہے۔ ان شہزادوں کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں ووٹ، انتخاب اور جمہوریت جیسی بدعات اخوان المسلمون عام کررہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کا استحکام گولی و شمشیر کا مرہونِ منت ہے، پرچۂ انتخاب کا یہاں کیا کام؟
دوسری طرف افریقی ممالک کی انجمن افریقی یونین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سوڈان کی رکنیت ختم کردی ہے۔ افریقی یونین کی ہدایت پر ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد علی نے ثالثی کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے حزبِ اختلاف کے رہنما محمد عصمت اور یاسر ارمان سے ادیس ابابا میں ملاقات کی۔ ابتدا میں جنرل برہان مصالحت کے حامی نظر آرہے تھے، لیکن ملک واپسی پر انھوں نے دونوں رہنمائوں کو گرفتار کرلیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل صاحب تذبذب کا شکار ہیں۔ مالی امداد فراہم کرنے والے خلیجی ممالک مظاہرین کو نشانِ عبرت بنادینے پر زور دے رہے ہیں تاکہ دوسرے عرب ممالک کے جمہوریت پسندوں کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوسکے، جبکہ ان کے معتدل ساتھی معاملے کو بات چیت اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کا مشورہ دے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ معتدل رفقا کی بات ماننے کی صورت میں ایک طرف انھیں اربوں ڈالر سے ہاتھ دھونا پڑیں گے، تو دوسری جانب عام انتخابات پر رضامند ہونے کا مطلب اقتدار واختیار سے کنارہ کشی ہے۔
امتحان دونوں فریق کا ہے۔ یعنی جنرل برہان خلیجی ممالک کے درہم و دینار اور اپنے ہم وطنوں کی جان و مال میں سے کس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور اگر جنرل صاحب نے عبد الدرہم و دینار بننے کو ترجیح دی تو مظاہرین کتنی دیر ثابت قدم رہتے ہیں۔ تاہم تشدد کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں ڈر ہے کہ کہیں سوڈان شام یا لیبیا نہ بن جائے۔ اللہ ہمارے سوڈانی بھائیوں پر رحم فرمائے۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔