ڈاکٹر سید وسیم اختر کی رحلت

اللہ تعالیٰ کا ایک بہت ہی پیارا بندہ، ڈاکٹر سید وسیم اختر، اللہ تعالیٰ کے پیارے مہینے رمضان المبارک میں اللہ کو پیارا ہوگیا… انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حق مغفرت کرے، ڈاکٹر وسیم اختر ایک نہایت مخلص، محنتی، دیانت دار، سب سے محبت کرنے والے اور ہر دل میں گھر کر جانے والی شخصیت تھے۔ میری اُن سے پہلی ملاقات اکتوبر 1991ء میں ایک صحافتی ذمہ داری کے سلسلے میں بہاولپور میں ہوئی، اور آخری ملاقات بھی ایک صحافتی سفر کے دوران بہاولپور ہی میں ریلوے اسٹیشن پر ہوئی۔ سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے بعد اُن کی آواز سننا اور شکل دیکھنا نصیب نہ ہوگا۔ 1991ء میں روزنامہ مشرق لاہور میں، مَیں کام کرتا تھا اور ساتھ ساتھ جناب مجیب الرحمن شامی کی زیر ادارت شائع ہونے والے مؤقر ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کے لیے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ’’زندگی‘‘ ہی کے لیے بہاولپور کے قریب چولستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے خفیہ تربیتی مراکز سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری کے ضمن میں رات بارہ بجے لاہور سے بس میں بیٹھ کر روانہ ہوا اور علی الصبح بہاولپور پہنچ کر سیدھا ڈاکٹر سید وسیم اختر کے گھر چلا گیا۔ گھنٹی بجائی تو خود ہی باہر تشریف لائے۔ ابھی نہاکر فارغ ہوئے تھے، تولیہ ہاتھ میں تھا۔ نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ عرض مدعا کیا تو معاملے کے مختلف پہلوئوں پر بھرپور رہنمائی فرمائی اور بہاولپور میں روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے نمائندے سعید احمد صاحب سے ملواکر ہر ممکن تعاون کی تاکید کی۔ سعید احمد صاحب نے تعاون کا حق ادا کردیا اور ایک زبردست رپورٹ تیار ہوگئی جسے ’’زندگی‘‘ نے سرورق کی کہانی کے طور پر نمایاں انداز میں شائع کیا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ہر ملاقات میں ڈاکٹر وسیم اختر کو پہلے سے زیادہ اخلاص کا پیکر پایا۔ ابھی کم و بیش چار ماہ پہلے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے صحافی دوستوں کے وفد کے ساتھ بذریعہ ریل رحیم یار خان جارہے تھے، ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کو ہمارے مشترکہ دوست پاکستان ریلوے ایمپلائز (پریم) یونین کے مرکزی رہنما شیخ محمد انور صاحب کے ذریعے ہماری آمد کی اطلاع مل گئی تو وہ جماعت اسلامی کے ساتھیوں کے ہمراہ بنفسِ نفیس ریلوے اسٹیشن پر تشریف لائے اور ہمارے لیے دوپہر کا کھانا بھی لائے ۔ گاڑی کو بہاولپور اسٹیشن پر محض دو منٹ رکنا تھا، اور یہ دو منٹ سلام دعا ہی میں گزر گئے۔ اس روز بھی ڈاکٹر صاحب کی طبیعت ناساز تھی اور وہ خاصے کمزور دکھائی دے رہے تھے، مگر یہ بات تو وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی دو منٹ کی محبت و شفقت، اخلاص اور پیار کے اظہار سے بھرپور یہ ملاقات آخری ملاقات ہوگی۔ اس کے بعد اطلاعات ملتی رہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی صحت زیادہ بگڑ گئی ہے۔ مرض کی تشخیص کی خاطر وہ کراچی بھی گئے مگر پھر واپس بہاولپور آگئے۔ گزشتہ دنوں طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں بہاول وکٹوریہ اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا جہاں وہ اس دارِفانی سے کوچ کرگئے۔
ڈاکٹر سید وسیم اختر کی نمازِ جنازہ میں ہر طبقہ فکر کے لوگ امڈے چلے آئے تھے۔ جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر لیاقت بلوچ، سیکریٹری جنرل امیرالعظیم اور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور لاہور سے خصوصی طور پر جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ علاقے کے لوگوں میں سے بھی کوئی قابلِ ذکر شخص ایسا نہیں تھا جو ڈاکٹر صاحب کے جنازے اور اُن کے اہلِ خانہ کے دکھ میں شریک نہ ہوا ہو، تاہم اہم بات یہ بھی تھی کہ نمازِ جنازہ مرحوم کے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر عمر عبدالرحمن نے پڑھائی، کہ دل کی جن گہرائیوں سے بیٹا اپنے باپ کی بخشش کی التجا اپنے خالق سے کرسکتا ہے کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔
ڈاکٹر سید وسیم اختر 9 ستمبر 1956ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، یہیں گیریژن بوائز ہائی اسکول کینٹ سے میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی کے لیے سرسید ڈگری کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا، جہاں سے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی کے بعد قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں داخل ہوئے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بن گئے اور جمعیت کی طرف سے قائداعظم میڈیکل کالج کی طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوکر جماعت اسلامی میں باقاعدہ شامل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب طب کی تعلیم کے لیے بہاولپور آئے تھے مگر پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ عملی زندگی میں جماعت اسلامی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ پہلے بہاولپور شہر، پھر ضلع کے امیر رہے، چھ برس تک پورے صوبہ پنجاب کے امیر رہے، اس کے بعد جب پنجاب کی تنظیم کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا تو ڈاکٹر صاحب کو جنوبی پنجاب کا امیر منتخب کیا گیا۔ جماعت کی صوبائی و مرکزی مجالسِ شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ وفات کے وقت بھی جنوبی پنجاب جماعت کے امیر تھے۔ تحریک اسلامی کو اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے اپنے خاندان کے ایک ایک فرد کی زندگی کا حصہ بھی بنایا۔ چنانچہ آپ کے بھائی سید ذیشان اس وقت جماعت اسلامی بہاولپور کے امیر ہیں، جب کہ مرحوم کی اہلیہ محترمہ بھی جماعت اسلامی کی رکن ہیں۔ بیٹا ڈاکٹر سید عمر عبدالرحمن اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن رہا، اور پانچوں بیٹیاں بھی نہ صرف تعلیم کے میدان میں ممتاز ہیں بلکہ دین سے تعلق بھی ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔
جماعت کی جانب سے عوامی نمائندگی کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ پہلی بار 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، پھر 2002ء اور 2013ء میں بہاولپور کے عوام کی نمائندگی پنجاب اسمبلی میں کی۔ 2013ء میں وہ ایوان میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر بھی رہے۔ بہاولپور کی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ نمایاں ہے۔ علاقے کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ لاہور آتے تو علاقے کے لوگوں کی فائلوں کا ڈھیر ان کی گاڑی کی پچھلی نشست پر پڑا ہوتا۔ بہاولپور سے آبائی تعلق نہ ہونے کے باوجود انہوں نے بہاولپور کے لیے وہ خدمات انجام دیں جو یہاں کے جغادری اور نسل در نسل یہاں کے باشندے ہونے کے دعویدار بھی انجام نہ دے سکے۔ ’’بہاولپور صوبہ بحالی تحریک‘‘ کے بھی وہ روحِ رواں تھے۔ 2013ء سے 2018ء کی اسمبلی میں انہوں نے صوبے کی بحالی کے لیے پے درپے آٹھ قراردادیں پیش کرکے اس تحریک میں جان ڈال دی۔ 2010ء میں جب لاہور میں علاقے کے تمام اہم رہنمائوں کا اجلاس سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا تو صوبہ بحالی تحریک کو منظم کرنے کے لیے کور کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا سیکریٹری ڈاکٹر سید وسیم اختر کو مقرر کیا گیا۔ 2013ء کی پنجاب اسمبلی میں پورے صوبے سے ڈاکٹر سید وسیم اختر جماعت اسلامی کے واحد رکن اسمبلی تھے، مگر اکلوتے ہونے کے باوجود وہ درجنوں ارکان رکھنے والی جماعتوں پر بھاری تھے۔ وہ ہمیشہ بھرپور تیاری سے اجلاس میں شرکت کرتے اور ہلڑ بازی سے دریغ کرتے ہوئے اپنی سنجیدگی اور متانت کی بناء پر اکیلے ہونے کے باوجود اپنا مؤقف تسلیم کرا لیتے۔ پنجاب اسمبلی کے رکن کے طور پر ان کی کارکردگی مثالی رہی اور اپنوں ہی نہیں، غیروں نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا۔ ارکانِ اسمبلی کی پارلیمانی امور سے متعلق تعلیم و تربیت اور ان کی کارکردگی جانچنے کے لیے قائم بین الاقوامی حیثیت کے غیر سرکاری ادارے ’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی‘‘ (پلڈاٹ) نے ان کی زبردست کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے اسمبلی کی رکنیت کو ذاتی دولت اور اپنی معاشرتی حیثیت کو بلند تر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اس منصب کو خالصتاً عوام کی خدمت کے لیے کام میں لائے، اور ذاتی اخراجات اور گھر چلانے کے لیے رزقِ حلال کی خاطر بہاولپور کے قریب لودھراں میں باقاعدہ ایک کلینک قائم کررکھا تھا جہاں سے روزمرہ اخراجات کا بندوبست ہوتا تھا۔
ایک بہت بڑا کارنامہ جو انہوں نے اسمبلی میں انجام دیا وہ یہ تھا کہ اسمبلی میں اوّل سے انٹرمیڈیٹ تک کے نصاب میں قرآن حکیم کو بطور لازمی مضمون کے طور پر شامل کیے جانے کا بل منظور کروایا۔ اس کارنامے پر راقم الحروف نے ’’جسارت‘‘ میں ’’ایک بھی بہت ہے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو بعد ازاں ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ میں بھی شائع ہوا۔ اس ضمن میں جب ڈاکٹر وسیم اختر مرحوم سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تو یہ جان کر نہایت مسرت اور اطمینان ہوا کہ وہ صرف بل منظور کرواکر مطمئن نہیں ہوگئے بلکہ انہوں نے بتایا کہ اس بل پر عمل درآمد کے لیے وہ صوبائی سیکریٹری تعلیم سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں اور ان شاء اللہ جلد اس بل کی روشنی میں قرآن حکیم کو نصاب تعلیم کا حصہ بنوا کر دم لیں گے… مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی… اللہ کرے ان کی وفات کے بعد یہ قانون فائلوں کی زینت بن کر نہ رہ جائے۔