عدالتِ عالیہ اسلام آباد نے پیر 10 جون کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے نیب کو دونوں رہنمائوں کی گرفتاری کی اجازت دے دی۔ عدالتِ عالیہ نے یہ فیصلہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے ان رہنمائوں کے خلاف بنائے گئے جعلی اکائونٹس کیس میں سنایا۔ آصف علی زرداری چونکہ اِس وقت بھی رکن قومی اسمبلی ہیں، اس لیے نیب حکام نے عدالتِ عالیہ سے گرفتاری کی اجازت ملنے کے باوجود پہلے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو اس معاملے سے متعلق صورت حال سے آگاہ کیا، اور پھر اسلام آباد کے ایف ایٹ سیکٹر میں واقع زرداری ہائوس پہنچ کر آصف علی زرداری کو گرفتار کیا، اور راولپنڈی میں میلوڈی میں قائم اپنے دفتر منتقل کردیا۔ اس دفتر میں جناب زرداری کو زیر حراست رکھنے کے لیے ایک خصوصی کمرہ تیار کیا گیا ہے جس میں ائرکنڈیشنر، ڈبل بیڈ اور ایک صوفہ لگایا گیا ہے۔ کمرے کے باہر بائیو میٹرک سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ زیر حراست آصف علی زرداری کا ایک دن میں دوبار تفصیلی طبی معائنہ بھی کرایا گیا جس میں وہ مکمل طور پر صحت مند پائے گئے۔ اس کے باوجود نیب حکام نے اُن کے زیرِ حراست رہنے کے عرصے کے لیے ایک ایمبولینس فراہم کرنے کی درخواست حکومت سے کی ہے۔ دوسری جانب محترمہ فریال تالپور کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا بلکہ نیب کی خواتین افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی جو سابق صدر کی ہمشیرہ محترمہ کے گھر جاکر اُن سے تفتیش کرے گی۔
ادھر منگل 11 جون کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب، موجودہ قائدِ حزبِ اختلاف قومی اسمبلی میاں شہبازشریف کے فرزندِ ارجمند حمزہ شہبازشریف، جو خود بھی پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ہیں، مبینہ منی لانڈرنگ اور رمضان شوگر ملز کے کیس میں عدالتِ عالیہ لاہور کے دو رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے اور اپنی ضمانت میں توسیع کی درخواست کی، جو عدالت نے منظور نہیں کی، جس کے بعد نیب حکام نے انہیں کمرۂ عدالت ہی سے گرفتار کرلیا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ان رہنمائوں کی گرفتاری ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب کہ حکومت نے ایک سخت اور عوام کے لیے مشکل سے ہضم ہونے والا بجٹ پیش کیا ہے، اور خدشہ ہے کہ حزبِ اختلاف اس بجٹ کو بنیاد بناکر ملک میں احتجاجی تحریک منظم کرسکتی ہے، بلکہ حزبِ اختلاف کی قیادت رمضان المبارک میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی میں یہ عندیہ دے بھی چکی ہے کہ عید کے بعد مولانا فضل الرحمن کُل جماعتی کانفرنس بلائیں گے جس میں حکومت کے خلاف تحریک کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ حزبِ اختلاف کے اہم رہنمائوں کی ایسے وقت میں گرفتاریوں کا ایک مقصد یقیناً یہ ہوسکتا ہے کہ ایسی کسی حکومت مخالف تحریک کو روکا جا سکے۔ تاہم اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ خود یہ گرفتاریاں بھی حزبِ اختلاف کو مشتعل اور احتجاجی تحریک منظم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ حکومت کا مؤقف اس ضمن میں البتہ یہ ہے کہ اس کا ان گرفتاریوں سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدالت نے ان کی ضمانتیں منسوخ کی ہیں اور نیب کے آزاد و خودمختار ادارے نے انہیں گرفتار کیا ہے، اس لیے حکومت کو ان گرفتاریوں کا الزام دینا درست نہیں۔ اصولی اور قانونی طور پر حکومت کا یہ مؤقف درست ہے، مگر کاش عوام کو ملک میں اصول اور آئین و قانون کی حکمرانی کا یقین دلایا جا سکے… حکومت کے اس مؤقف کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر ان دونوں رہنمائوں کی گرفتاریوں کے بعد ان کے پارٹی کارکنوںکی جانب سے کیے جانے والے ہلکے پھلکے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کا بھی یقیناً کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ احتجاج کے ضمن میں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی گرفتاری کے خلاف منگل گیارہ جون کو سندھ میں ’’یوم سیاہ‘‘ منایا… اس احتجاج کو اپنے زیر اقتدار ایک صوبے تک محدود کرکے گویا پیپلز پارٹی نے خود یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہ اب پورے پاکستان نہیں، صرف ایک صوبے کی جماعت بن چکی ہے۔
جناب آصف علی زرداری کی گرفتاری کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں صرف پیپلز پارٹی اور اس کے ہم نوا ہی شامل نہیں تھے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور خصوصاً صدر اور قومی اسمبلی میں قائد ِحزبِ اختلاف میاں شہباز شریف بھی نمایاں تھے، جنہوںنے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اُن کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ قوم مگر یہ سوچ رہی ہے کہ کیا یہ وہی میاں شہبازشریف ہیں جنہوں نے اپنی انتخابی تقریروں میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت اس میں سے نکالیں گے اور انہیں گلیوں میں گھسیٹیں گے، اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ان کا نام بدل دیا جائے… اور جو کل تک عمران خان کو یہ طعنے دیتے تھے کہ انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں زرداری کے نامزد کردہ امیدوار کی حمایت کرکے ایک جرمِ عظیم کیا ہے۔ قوم تذبذب میں مبتلا ہے کہ معزز و محترم سیاسی رہنما کی کس بات کا یقین کیا جائے! ان کے کس مؤقف کو درست تسلیم کیا جائے؟