ہم لوگ ایسے کئی الفاظ بڑے اطمینان سے استعمال کرتے ہیں جن کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، چنانچہ استعمال درست ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک لفظ ’ساری‘ ہے جو عموماً ’جاری‘ کے ساتھ آتا ہے۔ اکیلے آتے ہوئے شاید گھبراتا ہے، یعنی ’جاری و ساری‘۔ اب جاری کا مطلب تو ہر کوئی جانتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ ’ساری‘ کیا ہے؟ لغت کے مطابق ’ساری‘ عربی کا لفظ اور اسم صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے: اثر کرنے والا، سرائیت کرنے والا۔ علاوہ ازیں اردو میں ساری، سارا کا مونث بھی ہے۔ یہ ہندی سے آیا ہے اور اسم صفت ہے۔ مثلا ’’ساری خدائی ایک طرف، جورو کا بھائی ایک طرف‘‘۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ جورو کے بھائی کو سالا کہتے ہیں اور بعض لوگ اسے گالی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں، اور بے تکلف دوست بھی ایک دوسرے کو سالا کہہ دیتے ہیں۔ گالی کے مفہوم میں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ فلاں کی بہن اس کی جورو ہے۔ دیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی بری بات نہیں۔ لغت میں بھی سالا کو ایک گالی قرار دیا گیا ہے۔ ’سالا‘ اور ’سالہ‘ میں فرق ہے۔ سالہ فارسی کا لفظ اور مذکر بے، اور اس کا مطلب ہے: سال سے نسبت رکھنے والا۔ مرکبات کے آخر میں آتا ہے جیسے صد سالہ، سہ سالہ، چہار سالہ وغیرہ۔
جہاں تک ’ساری‘ کا تعلق ہے تو برعظیم پاک و ہند میں خواتین کے ایک لباس کو بھی ’ساری‘ کہتے ہیں، اور کچھ لوگ اسے ’ساڑی اور ساڑھی‘ بھی کہتے ہیں۔ شاید زیادہ بھاری اور کام والی یا بنارسی ہو تو ساڑھی کہہ دیا جاتا ہو، لیکن ہے یہ ساری۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ برسوں پہلے فیشن ایبل خواتین کے بارے میں مخصوص مردانہ ذہنیت رکھنے والے شاعر نے کہا تھا:
آج کل کی ناریاں، باندھتی ہیں ساریاں
کام کچھ کرتی نہیں، مفت کی بیماریاں
’سارا‘ کے حوالے سے اردو میں ایک کہاوت ہے کہ ’’سارا گھر جل گیا تب چوڑیاں پوچھیں‘‘۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک خاتون نے نئی چوڑیاں پہنیں مگر کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ اس بے وقوف نے چوڑیاں دکھانے کے لیے گھر میں آگ لگا دی اور چوڑیوں بھرا ہاتھ نچا کے محلے والوں کو مدد کے لیے بلایا۔ آخر کسی پڑوسن کی نظر پڑ ہی گئی اور پوچھ لیا ’’ہیں یہ چوڑیاں کب لیں؟‘‘ اس پر اس نے جل کر کہا ’’سارا گھر جل گیا تب چوڑیاں پوچھیں‘‘۔
دو الفاظ ایسے ہیں جن کے استعمال میں ہم چکرا جاتے ہیں یعنی ’’بذاتِ خود اور بجائے خود‘‘۔ کیا ان کا مطلب اور محلِ استعمال ایک ہی ہے، یا فرق ہے؟ اور فرق ہے تو کیا؟ بیشتر اچھے ادیبوں اور مقررین کو عموماً بذاتِ خود ہی لکھتے اور بولتے سنا ہے۔ برسوں پہلے ایک استاد نے بتایا تھا کہ جہاں کسی کی ذات ملوث ہو یعنی جاندار چیز کا ذکر ہو، وہاں ’بذاتِ خود‘ آئے گا، اور اگر بے جان چیز ہو تو ’بجائے خود‘ آئے گا۔ مثلاً یہ کتاب بجائے خود بہت دلچسپ ہے اور مصنف نے اس پر بذاتِ خود بڑی محنت کی ہے‘‘۔ اس وقت یہی مثال یاد آئی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلاں شخص بذاتِ خود بہت نفیس ہے اور فلاں تحریر بجائے خود مؤثر ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کوئی صاحب مزید وضاحت کرنا چاہیں یا اس سے اختلاف کریں تو آگاہ کردیں، کچھ نہیں کہا جائے گا۔
’پول کھل گئی‘ یا ’پول کھل گیا‘۔ اب تک ہمارے صحافی بھائی اس پر متفق نہیں ہوسکے۔ کچھ دن پہلے ہی ایک اخبار کی سرخی تھی ’’دھاندلی کی پول کھل گئی‘‘۔ ممکن ہے دھاندلی ’پولی‘ ہو ورنہ پول کھلتا ہے، کھلتی نہیں۔ بڑا مشہور محاورہ ہے ’’ڈھول کا پول کھل گیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ پول مذکر ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ڈھولک کا پول مونث ہو۔ اب یہ ایسی غلطیاں ہیں جو چند برس پہلے تک اخبارات میں نہیں ہوتی تھیں کہ صحافی بھی پڑھے لکھے ہوتے تھے اور نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر غلطیوں پر نظر رکھتے تھے۔
ایک خاتون نے اپنے مضمون میں ’’ایک انار سو بیمار‘‘ کی توجیہ یہ کی کہ ایک انار سو بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ جب کہ اس کا مطلب ہے کہ انار ایک ہے مگر اس کے طلب گار سو ہیں۔ کبھی جب انار بہت کم دستیاب تھا اور انار کو بیماری کا علاج سمجھا جاتا تھا اُس وقت یہ محاورہ ایجاد ہوا، مگر اب تو انار ہر جگہ دستیاب ہے اور بیمار انار کھانے کے بجائے اسپتال کا رخ کرنا یا کسی معالج کے پاس جانا پسند کرتے ہیں۔ بہرحال انار اُن پھلوں میں سے ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اور یقینا اس میں شفا بھی ہوگی۔
جسارت میں ایک صاحب بابا الف کے قلمی نام سے کالم لکھتے ہیں۔ عید کے دن شائع ہونے والے مضمون میں انہوں نے کچھ یادیں تازہ کی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے ایک لفظ ’راڑ‘ استعمال کیا ہے۔ ’’اُس زمانے میں بھی بچے راڑ کرتے تھے‘‘۔ یہ لفظ کہیں سننے پڑھنے میں نہیں آیا۔ جانے بابا الف کہاں سے کھوج لائے۔ تلفظ خاصا راڑ قسم کا ہے لیکن متروک الفاظ کا احیا ہوتے رہنا چاہیے خواہ راڑ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا مطلب ہے بچوں کی ہٹ۔ تین طرح کی ہٹ مشہور ہیں: راج ہٹ، تریاہٹ اور بالک ہٹ۔ یعنی حکمران، عورت اور بچے کی ضد۔ ’ڑ‘ سے ظاہر ہے کہ یہ ہندی کا لفظ ہے اور مونث ہے۔ اس کے دیگر مطالب میں شوروغل، جھگڑا، ٹنٹا، فساد، لڑائی، دنگا وغیرہ شامل ہیں۔ راڑ سے راڑیا ہے یعنی ضدی بچہ، ضدی فقیر، جھگڑالو شخص۔
فرائیڈے اسپیشل کے پچھلے کسی شمارے میں میر امن دہلوی کی تحریر کا اقتباس دیا ہے جس میں ایک اصطلاح ہے ’’ٹُنڈیاں باندھنا‘‘۔ پہلے حرف پر پیش ہے۔ آج کل یہ لفظ بھی نامانوس ہوگیا ہے۔ کہیں لوگ اسے ٹنڈے کی ترکاری نہ سمجھ لیں۔ ٹنڈیاں باندھنے یا کسنے کا مطلب ہے: ہاتھوں یا بازوئوں کو جکڑنا، گرفتار کرنا، مجرم کے ہاتھ اس کی پشت کے پیچھے باندھنا۔ فیروزاللغات میں ’پشت کے پیچھے باندھنا‘ لکھا ہے، جب کہ ہمارے خیال میں پشت پیچھے ہی ہوتی ہے۔ صاحبِ لغت اگر ’’پشت پر باندھنا‘‘ لکھ دیتے تو کافی ہوتا۔ بہرحال اس کا ایک مطلب ہے مشکیں باندھنا۔ یہاں بھی خیال رہے کہ پہلے حرف پر پیش ہے یعنی بالضم۔ بعض لوگ اسے سقے کی مشک کی جمع سمجھ کر میم پر زبر لگا دیتے ہیں۔ ٹنڈیاں کھینچنے کا مطلب ہے پکڑا جانا،گرفتارہونا۔ ہندی کا لفظ ہے اور ٹنڈیانا کا مطلب ہے ہاتھ پیچھے باندھنا۔
ایک اور لفظ ہے ’’ٹنڈ‘‘۔ سر پر استرا پھروانے والے خوب جانتے ہیں کہ ٹنڈ کیا ہوتی ہے، لیکن اس کے دوسرے مطالب بھی ہیں یعنی لوٹا، بدھنا، وہ برتن یا لوٹا جو رہٹ سے پانی نکالنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ رہٹ چلتا رہتا ہے اور ٹنڈیا لوٹا پانی باہر پھینکتا رہتا ہے۔
ہم نے کئی بار عرض کیا ہے کہ بچوں کی کہانیوں یا ان کے لیے کسی بھی تحریر کو پوری توجہ سے دیکھنا اورجہاں ضروری ہو، اصلاح کرنا لازم ہے۔ بڑے تو اپنی اصلاح خود ہی کرلیتے ہوں گے (غالباً) لیکن بچے غلطی کو سند سمجھ لیتے ہیں اور یہ غلطی پختہ ہوجاتی ہے، جو آج کل برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ سے ظاہر ہے کہ تلفظ اور املا کی غلطیاں پکی ہوگئی ہیں اور پنجابی محاورے کے مطابق لوگ ’’گج‘‘ گئے ہیں۔ اخبارات میں پروف ریڈر تو تصحیح کرنے سے ماورا ہوگئے اور مسودے میں موجود غلطی درست کرنا اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے۔ سنڈے میگزین میں ایک بڑی دلچسپ کہانی ’’لکڑہارے کا بیٹا‘‘ چل رہی ہے جس کے مصنف کوئی صاحب حبیب الرحمن ہیں۔ ممکن ہے یہ کہانی پرانی ہو اور اس میں غلطیاں بھی پرانی ہوں لیکن ہم نے ابھی پڑھی ہے۔ کہانی میں ایک لفظ ہے ’’مطبخ خانہ‘‘۔ صرف مطبخ لکھنے سے تسلی نہیں ہوئی چنانچہ اس کے ساتھ خانہ بھی شامل کردیا جیسے مذبح خانہ اور مقتل گاہ۔ ان میں بھی خانہ اور گاہ نہ صرف غیرضروری بلکہ بالکل غلط ہیں، لیکن اخبارات میں یہ ’’مقتل‘‘ کھلا ہوا ہے۔ مذکورہ کہانی میں کئی بار ’’قصائی‘‘ آیا ہے۔ سچ مچ نہیں بلکہ کہانی کی حد تک۔ پہلے بھی توجہ دلائی جا چکی ہے کہ یہ لفظ ’قسائی‘ ہے، قصائی نہیں۔ قسائی عربی کا لفظ ہے، اسی سے قساوت ہے یعنی سنگ دلی۔ گویا قسائی کا مطلب ہوا سنگ دل، ظالم۔ گوشت فروش مسلمان کو قسائی اور ہندو کو کھٹیک کہتے ہیں۔ شوق کا شعر ہے:
جو بچے تجھ سے تو خدائی سے
آدمی کاہے کو ہے قسائی ہے
ایک محاورہ ہے ’’قسائی کے پالے پڑنا‘‘۔ (بول چال میں پلے پڑنا) یعنی ظالم کے قابو میں ہوجانا۔ ایک شعر اور برداشت کرلیں، مرزا سودا کا ہے:
جس دن سے اس قسائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ
گزرے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار
لیجیے یہ ایک اور مشکل لفظ آگیا’’نمط‘‘۔ اس کا مطلب پھر کبھی سہی۔